السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تمام رسول اپنی فضیلتوں میں برابر ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ کے تمام رسول اپنی فضیلتوں میں برابر نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ مِنهُم مَن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعضَهُم دَرَجـٰتٍ...﴿٢٥٣﴾... سورة البقرة
’’ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، بعض سے اللہ نے کلام فرمایا ہے اور بعض کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔‘‘
اور سورہ اسراء (بنی اسرائیل) میں فرمایا:
﴿وَلَقَد فَضَّلنا بَعضَ النَّبِيّـۧنَ عَلىٰ بَعضٍ ... ﴿٥٥﴾... سورة الإسراء
’’بلاشبہ ہم نے بعض نبیوں کو بعض دوسروں پر فضیلت دی ہے۔‘‘
واجب ہے کہ ہم تمام رسولوں پر ایمان رکھیں کہ وہ حق پر تھے، اللہ کی طرف سے سچ لائے تھے اور جو وحی وہ لائے اس کی تصدیق کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قولوا ءامَنّا بِاللَّهِ وَما أُنزِلَ إِلَينا وَما أُنزِلَ إِلىٰ إِبرٰهـۧمَ وَإِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَما أوتِىَ موسىٰ وَعيسىٰ وَما أوتِىَ النَّبِيّونَ مِن رَبِّهِم لا نُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمونَ ﴿١٣٦﴾... سورة البقرة
’’اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم، اسمعیل، اسحٰق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی طرف سے موسیٰ اور عیسیٰ اور دیگر انبیاء دئیے گئے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں۔‘‘
اور یہی طریق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کا۔ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿ءامَنَ الرَّسولُ بِما أُنزِلَ إِلَيهِ مِن رَبِّهِ وَالمُؤمِنونَ كُلٌّ ءامَنَ بِاللَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِن رُسُلِهِ ...﴿٢٨٥﴾... سورة البقرة
"رسول مان چکا اس چیز کو جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی مان چکے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں، اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔‘‘
سو ہم کسی رسول پر ایمان لانے میں کوئی فرق نہیں کرتے، وہ سچے تھے، ان کی تصدیق کی گئی اور ان کی رسالت حق اور سچ تھی۔ البتہ دو باتوں میں فرق کرتے ہیں:
اول:۔۔۔ افضلیت میں: کچھ رسول دوسروں سے فضیلت رکھتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فضیلت بخشی اور ان کے درجات بلند کیے ہیں۔ لیکن اس بیان میں ان کے لیے کوئی فخر والی بات نہیں اور نہ دوسرے کے لیے کسی نقص یا کمی کا تصور ہوتا ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ’’ایک یہودی نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا: قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بشر پر فضیلت دی ہے، ایک انصاری نے یہ سنا تو اسے تھپڑ دے مارا، اور بولا کہ یہ تو کس طرح کہہ سکتا ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ چنانچہ وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چلا آیا اور کہا مجھے آپ کے ہاں عہد و امان حاصل ہے، تو فلاں نے مجھے تھپڑ کیوں مارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے دریافت فرمایا کہ تو نے اسے تھپڑ کیوں مارا ہے؟ تو اس نے حقیقت حال بیان کر دی۔ تو آپ غصے ہوئے حتیٰ کہ اس کا اثر آپ کے چہرہ مبارک پر نمایاں ہو گیا۔ پھر فرمایا: "اللہ کے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دیا کرو۔‘‘ (صحيح البخاري، كتاب الانبياء، باب قول الله تعالي: ان يونس لمن المرسلين، حديث: 3414، صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب من فضائل موسى، حديث: 2373)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ:
’’کسی بندے کو لائق نہیں کہ یوں کہے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، كتاب الانبياء، باب قول الله تعالي: ان يونس لمن المرسلين، حديث: 3413، صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب في ذكر، حديث يونس عليه السلام: 2376)
دوم:۔۔۔ اتباع میں: اتباع ہم صرف اس کی کرتے ہیں جو ہماری طرف مبعوث ہوئے ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کیونکہ آپ کی شریعت نے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ الكِتـٰبِ وَمُهَيمِنًا عَلَيهِ فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم عَمّا جاءَكَ مِنَ الحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلنا مِنكُم شِرعَةً وَمِنهاجًا ... ﴿٤٨﴾... سورة المائدة
’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے، جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ اسی لیے آپ ان (اہل کتاب) کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ کیجئے، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک دستور اور ایک راہ مقرر کر دی ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب