السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(وَعَنْ سَلْمَى قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِي تبْكي فَقلت: مَا بيكيك؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَعْنِي فِي الْمَنَامِ - وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ: مَا لَكَ [ص:1738] يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ)
یہ حدیث روایۃ اور داریۃ کیسی ہے؟کیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا یہ خواب سچ ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث روایۃ سخت ضعیف و ناقابل اعتبار بلکہ مردود ہے۔کیونکہ سلمی البکریہ مجہول الذات و الحال ہیں۔اور مجہول العین کی روایت بالاتفاق غیر مقبول ہے،اور اگر بالفرض قابل التفات ہوبھی تو حدیث (من رانى فى المنام فقدرانى اوفقد رانى الحق) کی رو سے اگرچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی ہی صورت مثالی دیکھی تھی ،لیکن چونکہ یہ محض ایک خواب ہے،
اس لئے اس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوسکتا ،اور نہ کسی مسئلہ پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔
پس اس حدیث سے سالانہ اظہار رنج و غم اور حزن و ملال پر استدلال انتہائی جہالت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب