سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(272) مدرسۃ البنات مردوں کی زیرِ نگرانی ہونا

  • 17598
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1238

سوال

(272) مدرسۃ البنات مردوں کی زیرِ نگرانی ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع مسئلہ ذیل کے بارے میں ،کہ آج کل شہروں اور قصبوں کے اندر مدرسۃ البنات قائم کئے گئے ہیں،جس میں کام کرنے والے عموما مرد ہوتے ہیں۔البتہ درجات سفلی کی تعلیم معلمات ہی دیتی ہیں اور درجات علیا کی تعلیم اکثر و بیشتر بوڑھے مرددیتے ہیں۔ان اسکول و مدارس میں شہرہ قصبہ کے تمام اطراف و جوانب سے لوگ،بالغہ و مراہقہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی غرض سے اپنے ہمراہ لے جاکر،ان کو مدرسۃ البنات میں پہونچا کر گھر واپس آتے ہیں،اور وہ لڑکیاں چار چھ ماہ اپنے والدین و خویش و اقارب کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔کیا اس طرح تعلیم دلانا ازروئے شرع جائز ہے؟۔زید کہتا ہے کہ اس پر فتن دور میں ایسا کرنا قطعا مناسب ہے اور فتنہ کا قوی اندیشہ ہے؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی بھی مدرسۃ البنات ہو،ان میں مقامی و غیر مقامی (شہروقصبہ کے قریبی اطراف کی )چھوٹی بچیوں کا ،اور پردہ کے ساتھ مراہقہ و بالغہ لڑکیوں کا سواری (رکشہ،تانگہ ،بیل گاڑی ،لاری وغیرہ) کے ذریعہ ،تعلیم کے لئے روزانہ صبح کو آنا اور چھٹی ہونے پر شام کو اپنے گھروں کو چلے جانا اور اس طرح ان کو تعلیم دلوانا شرعا جائز ہے،بشرطیکہ تعلیم گاہ تک آنے جانے میں ان کی پوری نگرانی کا معقول انتظام ہو۔ان کے رشہ ،تانگہ کے ساتھ ان کا کوئی محرم موجود ہو،اور اجتماعی شکل میں آنے جانے کی صورت میں ،ان کے ساتھ کوئی دیندار بوڑھی عورت اور مدرسہ کا کوئی پابند شرع ذمہ داسر مرد بھی ہو،اور بشرطیکہ درس گاہ میں درجات علیا کی طالبات اور ان کے بوڑھے استاد کے درمیان پر دہ حائل ہو،اور بشرطیکہ استاد اور تمام بچیاں خواہ وہ مراہقہ سے بہت کم عمر کی کیوں نہ ہوں ،سب کی سب بالکل سادہ لباس میں ہوں اور بے زیب و زنیت رہیں۔

ان بچیوں کے اولیا اور سرپرستوں پر تمام اوقات میں ،ان کی ہر قسم کی حفاظت اور نگرانی شرعا لازم اور فرض ہے ،اور اس فرض کی ادائے گی اس وقت ہوسکتی ہے جب کہ ان بچیوں کی تعلیم گاہ میں آمدورفت کا مذکورہ انتظام رہے۔

اور مذکورہ بالا قسم کی اقامتی تعلیم گاہوں میں بہت دور کے لوگوں کا ،اپنی مراہقہ اور بالغہ لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جا کر تعلیم کے لئے  وہاں چھوڑ آنا ،پھر چند مہینوں کے بعد چھٹی کے موقع پر جا کر ان کو اپنے ساتھ لے آنا  اور اس طرح ان کو تعلیم دلانا جائز ہے،بشرطیکہ ان تعلیم گاہوں کے دارالاقاموں  میں شرعی پردہ ،اور ان کی ٹھیک نگرانی اور دینی تربیت پر قابل اطمینان معقول انتظام ہو ،اور بشرطیکہ درس کے وقت ان لڑکیوں  اور ان کے بوڑھے استادوں کے درمیان پردہ حائل ہو،اور جملہ استانیاں اور دارالاقامہ کی نگراں عورت پابند شرع ہوں،ان کی وضع قطع اور لباس ،رہن سہن غیرمسلموں کا سانہ ہو،اور ان تعلیم گاہوں کے جملہ ذمہ دار مرد اور اراکین پابند شرع و متورع ہوں۔فقط

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 510

محدث فتویٰ

تبصرے