سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) مرد کے لیے کس قد چاندی استعمال کرنا جائز ہے؟

  • 17592
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 909

سوال

(266) مرد کے لیے کس قد چاندی استعمال کرنا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرد کے لئے کس قدر چاندی استعمال کرنی جائز ہے؟بعض علماء کہتے ہیں کہ مثقال کے ساتھ تعیین کرنے والی حدیث ضعیف ہے ،وہ ابوداود کی حدیث (سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد بلاکراہت جس قدر چاہے ،بٹن اور انگوٹھی میں چاندی استعمال کرسکتا ہے،صرف چاندی کے برتن نہیں استعمال کرسکتا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شک صحیح احادیث سے مرد کے لئے چاندی کے برتن میں صرف کھانے پینے کی ممانعت ثابت ہے ۔کھانے پینے کے برتن کے علاوہ اور چیزوں میں چاندی کے استعمال کی ممانعت وحرمت ثابت نہیں ،اور کھانے اور پینے پر دوسرے استعمال (بٹن ،سرمہ دانی ،سلائی ،عطردانی ،انگشتانہ وغیرہ) کو قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔بنا بریں مرد کے لئے چاندی کا بٹن اور ایسی چیزیں استعمال کرنی جائز ہیں ،جو عورتوں کے ساتھ مخصوص نہ ہوں اور ان کے استعمال سے تشبہ بالنساء لازم نہ آئے۔(واليه ذهب العلامه الشوكانى والعلامة الامير) لیکن کھانے پینے کے برتن کے علاوہ مرد کے لئے اور چیزوں میں چاندی کے جواز پر (ولكن عليكم بالفضة فالعبوابها احمد ابو داود ونسائى)سے استدلال محل نظر و تامل ہے (كما بينه شيخنا الاجل المباركفورى فى شرح الترمذى فى شرح حديث المثقال فارجع اليه

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث مذکور کے ابتدائی حصہ اور سیاق سےمعلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے سونا مباح کرنے سے پہلے مرووں کو یہ حکم تھا کہ اپنی عورتوں کو سونے کے زیور نہ استعمال کرائیں ،البتہ چاندی جس قدر اور جس طرح چاہیں استعمال کراسکتے ہیں۔حدیث میں خود مرد کو مطلقا اپنے استعمال میں لانے کی اجازت کا ذکر نہیں ہے اور نہ یہ مراد ہے ۔ اور حدیث (اتخذه من ورق ولاتتمه مثقالا )ایسی ضعیف نہیں  ہے کہ قابل اعتبار نہ ہو،اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم ابوطیبہ (جن کی وجہ سے حدیث ضعیف کہی جاتی ہے ) کے بارے میں حافظ لکھتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ یہ حدیث ناقابل اعتبار نہیں ہے۔

میرے نزدیک راحج یہ ہے کہ مرد انگوٹھی یا بٹن وغیرہ میں ایک مثقال (ساڑھے چار ماشہ ) سے کم چاندی استعمال کرے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب  جامع الاشتات والمتفرقات

صفحہ نمبر 503

محدث فتویٰ

تبصرے