السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہندہ لاولد نے اپنی ایک ملک اپنے بھتیجوں میں سے ایک بھتیجا زید کو ہبہ کرکے رجسٹری کرادی ۔لیکن ملک مذکور کو اپنے ہی قبضہ میں رکھا تھا۔ہندہ کی زندگی ہی میں زید کا انتقال ہوگیا۔ہندہ نے زید کے انتقال کے بعد ہبہ کو منسوخ کرانے کی کوشش کی۔
(زبانی)بعدہ ہندہ کا بھی انتقال ہوگیا،سوال یہ ہے کہ
(1)ہندہ کا اپنے وارثوں میں سے کسی ایک کو جس کا حق شریعت میں مقرر ہے ہبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(2)ہبہ کردہ ملک اپنے قبضہ میں ہندہ کا رکھنا ہبہ کو منسوخ کرتا ہے یا نہیں ؟
(3)ملک مذکور ازروئے شرع شریف ہندہ کے وارثوں میں تقسیم ہوگی یا زید کے وارثوں میں
(4)شریعت میں قبضہ اورغیر قبضہ کی تعریف کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)کسی مورث کا اپنے وارث کو جس کا حق شریعت میں مقرر ہو،ہبہ کرنا جائزہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک جائداد ہبہ کی تھی جس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے،ونیز حضرت نعمان بن بشیر کو ان کے باپ نے ایک غلام ہبہ کیا،آں حضرت ﷺ نے ان کے نفس "ہبہ" پر انکار نہیں فرمایا،بلکہ عدم تسویۃ بین الاولاد فی الھبۃ پر انکار فرمایا۔اس لیے معلوم ہوا کہ وارث کو ہبہ کرنا جائز ہے،اور اولاد کے علاوہ دوسرے ورثہ میں سے کسی ایک خاص وارث کو ہبہ کرنا جائز ہے۔کیوں کہ صرف اولاد کے ہبہ میں تسویہ ضروری ہے۔دیگر وارثین میں نہیں کیوں کہ آں حضورﷺ نے صرف اولاد کے درمیان تسویہ ضروری بتایا ہے۔
(2)شرعی طورپر ہندہ کا ہبہ صحیح اور تام و نافذ اور الاز م اس لیے نہیں ہوا کہ ہندہ نے اپنی اور زید کی زندگی میں ملک موہوب پر زید کا قبضہ نہیں کرایابلکہ اپنے ہی قبضے میں رکھا اور ہبہ کے تام و لازم ہونے کےلیےموہوب لہ کا شئی موہوب پر "قبضہ"کرنا ضروری ہے ،خلفائے راشدین اربعہ اور امام شافعی و مالک و ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہبہ کے لازم ہونے کے لیے قبضہ شرط ہے۔اور یہی مذہب قوی اور صحیح ہے۔
(مَالِكٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقاً مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ. فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ: وَاللهِ يَا بُنَيَّةُ مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ. وَلاَ أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْراً بَعْدِي مِنْكِ. وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقاً. فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ (1). وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ. وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ الله)
ترجمہ:"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :ان کے والد بزرگوار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ کو اپنے مال سے پورے بیس وسق(وسق 60 صاع کا ہوتا ہے)لے لینے کا حکم دے دیا تھا،جسےعائشہ صدیقہ نے اپنے قبضہ میں نہیں کیا،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت آپہنچا،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا"عزیز بیٹی !میری دلی خواہش ہے کہ تم خوش حال رہومیرے لیے تمہاری تنگ دستی بہت شاق ہے،میں نے تم کو اپنے مال میں سے بیس وسق حاصل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔اگر تم نے وہ مال حاصل کرلیا ہوتا تو اچھا تھا۔اب تو کل جائداد وارثوں کی ہے"۔
بنابریں ملک مذکور ہندہ ہی کی ملکیت میں باقی رہی اور زید کی ملکیت میں نہیں آئی ۔
(3)ملک مذکور شرع شریف کی رو سے ہندہ ہی کے وارثوں میں تقسیم ہوگی ،زید کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوگی۔
(4)شریعت میں جائداد منقولہ پر قبضہ کی صورت یہ ہے کہ واہب،شئی موہوب پر اپنے تمام تصرفات اور حقوق ملکیت سے دست بردار ہوکر موہوب لہ کو دخیل اور متصرف بنادے،مکان مسکو نہ ہوتو یہ صورت پیدا کردے کہ موہوب لہ اگر چاہےتو سکونت اخیتار کرے یا کسی دوسرے کو کرایہ پر دیدے یا اس میں تغیر تبدل کرسکے یا فروخت اور ہبہ کرسکے۔غرض ان تصرفات میں ا سکےلیے کوئی رکاوٹ نہ ہو،پس تخلیہ اس کے لیے ضروری ہے اور اگر شئی موہوب آراضی مزروعہ ہے تو اس پر قبضہ کی صورت یہ ہے کہ موہوب لہ،اس زمین میں خود کاشت کرنے لگے یا کسی کو کرایہ پر دیدے یا جو تصرف چاہے کرے اور اس سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ھذا ماعندی وللہ اعلم بالصواب۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب