سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) وارث اگر تین لڑکے ہوں تو؟

  • 17567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1112

سوال

(241) وارث اگر تین لڑکے ہوں تو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زید نے انتقال کیا اور چھوڑا تین لڑکے (1) حامد(بالغ)(2)احمد،(3)محمود(نابالغان) اورترکہ میں مکان اور اثاث البیت کے علاوہ کچھ روپیہ چھوڑا،زید کے انتقال کے بعد تینوں لڑکوں کا خرچ اسی موروثی روپیہ سے چلتا تھا،کیوں کہ آمدنی کی کوئی صورت نہیں تھی اور تینوں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول تھے۔حامد،زید کے انتقال کے تین برس بعد تعلیم سے فارح ہو کر برسر ملازمت ہوگیا اور منجھلا بھائی احمد تعلیم چھوڑ کر موروثی روپیہ سے باتفاق ہر دو بھائی کاروبار کرتاتھا۔ مگر بجائے فائدہ کے نقصان ہوا،محمود اب تک پڑھ رہا  ہے اور نہ معلوم کب تک اس کی تعلیم ختم ہوگی۔واضح ہو کہ زید کے انتقال کے بعد سات برس تک تینوں بھائی ایک میں رہتے تھے یعنی: کھانا،پینا،رہنا،سہنا سب یکجائی تھا ،اور سارے انتظامات اور تصرفات بڑے بھائی حامد کے ہاتھ میں تھے،اب منجھلا بھائی احمد الگ ہونا چاہتا ہے۔پس سوال یہ ہے کہ اس حالت میں کہ احمد ،محمود نے کچھ کمایا نہیں یا کمایا مگر اس قدر کہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا،زید کے ترکہ(مثل روپیہ اور مکان اور اثاث البیت )کے تقسیم کرنے کے وقت کیا حامد کی کمائی کا روپیہ بھی تینوں بھائیوں پر ازروئے شرع تقسیم کیا جائے گا؟مہربانی فرما کر کتاب اللہ اور سنت اور عبارات فقہ سے مدلل فرمایا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حامد کی کمائی ملازمت کی ،تینوں بھائیوں پر ترکہ زید کا ٹھہراکر ہرگز تقسیم نہ ہوگی،بلکہ حامد کی کمائی و ملازمت کا روپیہ خاص حامد ہی کو ملے گا، اس میں سے احمد ،محمود کا کچھ حق نا ہوگا۔سوال تو حامد کی ملازمت کی رقم کے بارےمیں ہے،لیکن اگر حامد اپنے باپ زید کے ترکہ میں تصرف تجارت کا کرکے منافعہ میں ایک رقم قلیل یا کثیر حاصل کرلیتا ،تو وہ منافعہ کی رقم بھی خاص حامد کے لیے ہوتی،اس میں احمد اور محمود کی حقیقت و ملکیت نہ ہوتی،فتاویٰ عالمگیری میں ہے:لوتصرف احد الورثه فى التركة المشركة وربح فالربح للمتصرف وحده كذا فى الفتاوى الغياثية

اجابہ و کتبہ حبیب المرسلین عفی عنہ نائب مفتی مدرسہ امینیہ دہلی    

جواب صحیح اور عین حق اور بالکل بدیہی ہے کہ جب حامد کی کمائی   اس مشترک مال سے بالکل علیحدہ ہے اور دونوں بھائیوں کی کوئی کمائی نہیں،تو کوئی شرعی یا عقلی وجہ نہیں کہ اس کو تینوں بھائیوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ بلاشبہ وہ تنہا حامد ہی کہ  ملک ہے دوسرے بھائیوں کا اس میں تقسیم کا دعویٰ کرنا ظلم ہے وذلك بظهوره اغنى من ان يوتى عليه بدليل

  بندہ محمد شفیع غفرلہ        مہر دارالافتاء دیوبند

        خادم دارالافتاءدارالعلوم دیوبند26/صفر1351ھ

٭ اور علامہ شامی نے جو شرکت فاسدہ میں بعض صورتوں میں (3/467) احد الشرکاء کے کسب کردہ روپیہ کو برابر تقسیم کرنے کا حکم نقل کیا ہے،وہ صرف اسی صورت میں ہے جب کہ سب شرکاء کمائی میں شریک ہوں اور ہر ایک کی کمائی ممتاز نہ ہو،کمافی رداالمختار(3/381،3/383)

واللہ اعلم محمد شفیع غفرلہ        

الجواب صحیح بندہ اصغر حسین عفااللہ عنہ

الجواب صحیح ،ننگ اسلاف حسین احمد غفرلہ

الجواب صواب بلاریب نبیہ حسن عفااللہ عنہ

الجواب جواب بندہ محمد ابراہیم عفی عنہ

الجواب صحیح : محمد رسول خان عفااللہ عنہ

الجواب صحیح:سید اختر حسین عفی عنہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال مذکور میں کمائی حامد کی ملازمت سے ،وہ  کل حامد کی ہے،کسی اور کا اس میں کچھ حصہ نہیں۔شامی کی عبارت میں جس کا ذکر ہے وہ صورت میراث کی ہے۔جس وقت کل بھائیوں نے میراث کے مال سے کمائی کی ہو،اس میں ہر ایک کا حصہ ہے عبارت شامی کی یہ ہے:وكذلك لو اجتمع اخوة يعملون فى تركه ابيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفو فى العمل والرائ انتهى درالمختار مصر3/483 فقط والله اعلم اتم

حررہ احمد اللہ سلمہ غفرلہ

مدرس دارالحدیث رحمانیہ دہلی مورخہ9/ربیع الاول 1351ھ

مہر سلمہ الصمد اسمہ احمد المعروف باحمداللہ

٭ پوتے کی محجوبیت کا گول مول مشہور مجمل مسئلہ بلاشبہ پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ خدا کرے اس سلسلے میں آپ کو کوئی پریشانی اور الجھن نہ لاحق ہو۔

ایک بیٹا باپ سے بالکل الگ رہ کر کما کھا کر،جتنی بھی منقولہ غیر منقولہ جائداد پیدا کرے،وہ سب اس کی ذاتی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات پر اس کے شرعی ورثہ میں تقسیم ہوگی۔اسی طرح باپ کے ساتھ رہ کر اور باپ کی جائداد میں محنت کرتے رہنے کےساتھ اس کی آمدنی کے علاوہ اگر اپنی کسی ذاتی ملکیت ہونے کی بنا پر، اس کی وفات کے بعد اس کے شرعی ورثہ میں تقسیم ہوں گی۔دونوں مذکورہ صورتوں میں باپ کی ملکیت قرار نہیں پائیں گی اور نا پوتے ایسی جائداد سے محروم و محجوب ہوں گے ،اور شرعاًمحجوب ہونے کی صورت میں دادا  کا یہ فرض ہے کہ ،اپنی جائداد  کا ایک ثلث اپنے محجوب پوتوں کو ہبہ کردے یا وصیت کرجائے،وصیت کے وجوب کا نسخ میرے نزدیک صرف وارثوں کے حق میں ہے۔

عبید اللہ رحمانی 25/2/1965ء                 

(مکاتیب شیخ الحدیث مبارکپوری بنام مولانا عبدالسلام رحمانی ص:46/47)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 444

محدث فتویٰ

تبصرے