سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(440) وراثت کی تقسیم کا ایک مسئلہ

  • 17566
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 750

سوال

(440) وراثت کی تقسیم کا ایک مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اسلام اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے انتقال کے بعد، کچھ روپیہ چھوڑا اور تین لڑکے حامد،احمد،محمود چھوڑے۔زیدکے انتقال کے بعد تینوں لڑکوں کا خرچ اسی میراث سے چلتا تھا۔کیوں کہ تینوں پڑھتے تھے اورآمدنی کی کوئی صورت نا تھی، اس درمیان میں حامد اپنے والد کے انتقال کے تین برس بعد اپنی تعلیم سے فارغ ہوگیا اور برسر ملازمت ہوگیا،منجھلے بھائی احمد نے تعلیم چھوڑکر کاروبار شروع کیا۔مگر بجائے فائدہ کے نقصان ہوا۔

واضح ہو کہ کاروبار میں روپیہ اسی میراث سے لگتا تھا اور محمود اب تک پڑھ رہا ہے اور نہ معلوم اس کی تعلیم کب تک ختم ہوگی؟

یہ بھی واضح رہے کہ زید کے انتقال کے بعد سات برس تک تینوں بھائی ایک میں رہتے تھے۔اور سارے انتظامات اور تصرفات بڑے بھائی حامد کے ہاتھ میں تھے اوراب منجھلا بھائی احمد الگ رہنا چاہتا ہے۔پس سوال یہ ہے کہ اگر زید کے ترکہ میں سے کچھ روپیہ باقی ہو،تو اس حالت میں کہ احمد اور محمود نے زیدکے انتقال کے بعد کچھ نہیں کمایا، مگر اس قدر کہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔زید کا بقیہ ترکہ تقسیم کرنے کےوقت حامد کی کمائی کا روپیہ بھی تینوں بھائیوں کے درمیان ازروئے شرع تقسیم کیا جائے گا؟بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر ایک بھائی کو میراث زید سے جو ملا اس کے مستحق ہیں۔چوں کہ حامد نے جو روپیہ کمایا وہ ملازمت نوکری سے کمایا اس میں احمد،محمودکا کچھ حق لازمی نہیں ہے،تبرعاًبھائی کچھ احسان لے لینا درست ہے۔البتہ اگر مال میراث مشترک سے لے کرتجارت سوداگری حامد نے کیا ہواس میں سے ہر ایک کو استحقاق لینے کا ہے،کتاب و سنت میں اس کے ادلہ موجود ہیں۔فقط و اللہ اعلم و علمہ اتم۔                               

حررہ احمد اللہ سلمہ غفرلہ مدرس مدرسہ دارالحدیث دہلی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 443

محدث فتویٰ

تبصرے