السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
راقم السطور نےاپنےایک مضمون میں حدیث عبداللہ بن عمرلايحل لثلاثة نفر يكونون بالرض فلاة الاامرمرو اعليهم احدهم(مسند احمد)سےوجوب نصب امیر ولزوم امارت پر استدلال کیا تھا۔اس مضمون بر موالانانےتعاقب کرتےہوئے حدیث مذکورہ بریہ یہ کلام کیا ہے کہ اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ واقع ہیں واروہ ضعیف ہیں ۔چناں چھ امامم ترمذی نے ان کے بارے میں یہ لکھا ہے هو ضعيف عن اهل الحديث میں اس نے حسب ذیل جواب دیا ہے:
(1)کہ امام ترمذی نےکتاب العلل میں ان کےمتعلق قدروری عنہ غیر واحد من الائمۃ لکھا ہے اورتذکرۃ الحفاظ میں بہت سے ائمہ کی توثیق موجود ہے۔تقریب(ص:186) میں یہ صدوق سےیاد ئے گئے ہیں۔بس اس صورت میں ان کی توثیق وتعدیل موجود ہے۔مولانا عبدالحئی لکھنوی مرحوم کےفیصلہ کی روشنی میں ان یک حدیث درجہ حسن سے نازل نہیں ہوسکتی۔امام الکلام میں لکھا ہے۔وقدعارضها تعديل جمع من ثقات الائمة فحديثه لاينحط عن درجة الحسن
(2)دوسرےیہ امر کہ اجن لوگوںنےان کوضعیف کہاہےانہوں نےان کی نسبت کوئی جرح مفسر نہیں بتائی ایسی جرح مبہم کاکوئ ایثر نہیں ہوگا۔۔انالجرح لایبت اذا فسر سببہ (مقدمہ ابن الصلاح)
(3)سوزمیہ امر کہ اس حدیث کی تضعیف محدثین معتبرین میں سےکسی نےنہیں کہ۔اس حدیث کوعلامہ ابن تیمیہ نے مثقی میں صاحب نیل نے نیل میں نواب صدیق حسن صاحب مرحوم نے حجج الکرامہ وغیرہ میں نقل کیا ہے ہے۔اوروجوب امارت پر ہرسہ محدثین نے اسی حدیث کو سند ٹھرایا ہے اورکسی نےکچھ کلام وجرح نہیں کی بس اییی روایات میں جرح کرنے سے ہرج عظیم واقع ہوگا
مثال کےطور پر دیکھئے حدیث ابن لہعیہ سےپہلے حدیث جابر ہےجس میں محمد بن اسحاق واقع ہیں ۔امام مالک ان کودجال کذاب کہتے ہیں امام بخاری وغیرہ امامالحدیث کہتے ہیں اورباوجود اس جرح وتوثیق کےہر دواقوال کےحدیث جابر کوامام ترمذی نے اصح قرادیا ہے۔محض جرح کوسامنےرکھ کر حدیث کورد کرنا ہرج عظیم کاباعث ہے ۔بہر حال میں نے ابن لہیعہ کےمتعلق جوالات بالا کولکھا ہےاگر صحیح ہوتوتصویب فرمائیے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبداللہ بن لہیعہ کی توثیق اور ان یروایت کردہ حدیث امارت کےقابل احتجاج ہونے کےمتعلق آپ نے جتنےوجود لکھے ہیں میرے نزدیک سب مخدوش ہیں۔
(1)امام ترمذی کے العلل میں ابن لہیعہ اور ان جیسے دوسرے رواۃ کےمتعلق قدروي عنهم غير واحد من الائمة لکھنے سےآپ نےیہ سمجھ لیا آئمہ ثقات کا کسی راوی سےحدیث روایت کرنا اس کےثقہ ہونے کو مستلزم ہے۔لیکن یہ خیال غلط ہے حافظ فتح الباری میں لکھتے ہیں:رواية العدل ليست بمجردها توثيقا فقدروى ابو حنيفة عن جابر الجعفي وثبت عنه انه قال :مارأيت اكذب منه ائمہ ثقات کےضعفاء سے حدیث روایت کرنے کےوجوہ شرح للنووی مصر میں بغور اور امام ترمذی نے العلل میں چودہ فائدے بیان کئے ہیں۔پانچواں فائدہ:وقدروى غير واحد من الائمة عن الاضعفاء وبينو للناس احوالهم سے شروع هوكر واشد مايكون هذا اذالم يحفظ الاسناد فزاد فى الاسناد ونقص أوغير الاسناد او جاء بمايتغير فيه المعنى پر ختم ہوا ہےاس کو پورا پرھئیے۔ایسے رواۃ کےمتعلق جو مخلط یاسئ الحفظ ہوں یعنی حفظ میں کمزوری ہونے ک یبنا پر ان میں کلام کیا گیا ہو صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تفرد کے وقت ان کی روایت سے کسی چیز وجوب یاحرمت پر احتجاج نہیں کیاجاسکتا ۔البتہ ان کی ورایت بطور اتائشید وتقویت واعتقاد واعتبار کےذکر کی جاسکتی ہے ۔افسوس ہے آپ نےترمذی وكذلك من تكلم من أهل العلم في مجالد بن سعيد، وعبد الله بن لهيعة وغيرهما، إنما تكلموا فيهم من قبل حفظهم وكثرة خطئهم. وقد روى عنهم غير واحد من الائمة، فإذا تفرد أحد من هؤلاء بحديث. ولم يتابع عليه لم يحتج به
میرے نزدیک بیہقی کایہ قول بالکل صحیح ہے:اجمع اصحاب الحديث على ضعف ابن لهيعه وترك الاحتجاج بما ينفردبه كذا فى التلخيص اور حافظ ہیثمی کا ان کےبارے میں یہ فیصلہ حدیثہ حسن مخدوش ہے-وهذا كما قال فى حديث ابن عباس عند احمد1/256 ان النبى صلى الله عليه وسلم فى ثواب واحد الخ رجاله من رجال الصيح مع ان فى سنده حسين بن عبدالله بن عبيدالله وليس هو من رجال الصحيح ولاروي له واحد من صاحبى الصحيحين بل هو ضعيف بے شک ابن لہیعہ کےمتعلق تعدیل وتوثیق کے اقوال موجود ہیں اور حافظ نے ان کوصدوق لکھا ہے لیکن ان کےبارےمیں جر ح مفسر موجود ہوتے ہوئےمعد لین کےاقوال تعدیلیہ غیر مقبول ہوں گے۔لان الجرح المفسر مقدم على التعديل وان كان المعدلون اكثر من الجارحين ولان من وثقه لجلالته وصدقة وكلام الجار حين فيه من قبل حفظه فلاتخالف بين اقوال معدليه وجارحيه مولوی عبدالحئی صاحب کایہ فیصلہ ابن لہیعہ کے متعلق نہیں ہےبلکہ محمدبن اسحاق کےبارے میں ہے اوربالکل صحیح فیصلہ ہے ۔امام الکلام ص تک بغور پڑہئے ۔آپ ان کےایک خاص راوری سے متعلق فیصلہ کو ہر مختلف فیہ راوی پرچسپاں کرنا چاہتے ہیں جوکسی طرح درست نہیں ہے۔پھر آب نے صاحب الکلام کاکلام کاٹ چھانٹ کرنقل کیا ہے اوراسے سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔
(2)تعجب ہے کہ آپ ابن لہیعہ پر جر ح کرنے والے محدثین کی جروح کو غیر مفسر مبین السبب قراردےرہےہیں حالاں کہ تقریب تہذیب طبقات المدلسین میزان الاعتدالال مین جرح کے اسباب مذکور ہیں۔
(1)تدلیس عن الضعفاء۔
(2)اختلاط فے آخرالعمر بعد احتراق۔
(3)کثرۃ مناکیر بسب تساہل وکثرۃ خطا۔کیا یہ جرحین مبہم ہیں اور ان کاکوئی صحی ممل ہے؟ ہاں اگر کسی حدیث کےمتعلق یہ تحقیق ہوجائے کہ بل احرتاق کتب وقبل وتخلیط کےتلمیذ نے وہ حدیث ان سے لی ہے اور ساتھ ہی ابن لہیعہ نے اس میں ابن شیخ سے سماع کی تصریح کردی ہےتو ان یکیہ حدیث قابل احتجاج ہوگی ورنہ نہیں۔آب کی بیش کردہ وہ امارت والی حدیث میں اگرچہ ابن لہیعہ نےاپنے شیخ سےسماع کر تصریح کردی لیکن یہ نہیں معلوم ہے کہ ان کیے تلمیذ نےاس حدیث کو ان کےہاختلاط سےپہلے لیا ہےیابعد میں اس لیے انی یہ روایت حجت اوردلیل نہیں ہوگی صرف تقویت واعتقاد واعتبار کےلیے اسے بیش کیا جاسکتا ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں:ماحديث ابن لهيعه بحجة واني لاكتب كثيرا مما اكتب اعتبر به وهو يقوي بعضه ببعض تہذیب تقی الدین ابن تیمیہ لکھتے ہیں:قال احمد قد اكتب حديث الرجل للاعتبار به مثل ابن لهيعة
(3)مجدالدین ابن تیمیہ شوکانی نواب بوفالی کا اس حدیث کوابنی کتب میں ذکر کردینا اوراس سے وجوب تامیر پراستدلال کرنا اوراس پر کلام کرنے سےسکوت اختیار کرنا حدیث مذکور کی صحت کی دلیل نہیں ہوسکتاان کاسکوت ابواداود اورمنذری کے سکوت کی طرح نہیں ہے۔
اور ظاہر ہے کہ مجدالدین ابن تیمیہ کااصل استدلال واحتجاج حضرت ابو سعید ابو ہریرہ کی احادیث سےہے ۔جن پر کلام کرنے سےابوداوراورنذری نےسکوت اختبار کیا ہے اورحضرت عبداللہ بن عمر و کی حدیث مبحوث عنہ کوتقویت وتائید کےلیے ذکر کیا ہےاورہمارےنزدیک تو امام اورحافظ ابن حجر کاسکوت بہی ہمیشہ کسی حدیث کے حسن یاصحیح ہونے دلیل نہیں ہےاورکی معتبر محدث سے حدیث مبحوث عنہ کی تضعیف منقول نہ ہونا حدیث کےغیر ضعیف یعنی:صحیح یاحسن لذاتہ ہونے کو مستلزم نہیں ممکن ہے اس کےشواہ د کی زجہ سے اس پر کلام کرنے کی ضرورت نہ محسوس کی ہو۔ونیز تصحیح وتحسین وتضعیف کادروازہ بند نہیں ہوا ہے۔محمد بناسحاق کےباے میں اصل ان کی توثیق وتعدیل ہے اورچون کہ انہوں ن حضرت جاربر کی حدیث:نهي النبي صلى الله عليه وسلم ان نستقبل القبلة ببول: کی سند میں تحدیث کی تصریح کردی ہے اس لیے تدلیس کااحتمال نہیں رہا اور ان کی یہ روایت حسن لذاتہ یا صحيح لغیرہ ہوئی ہے۔
امام ترمذی کےقول:حديث جابر عن النبى صلى الله عليه وسلم اصح من حديث ابن لهيعه کایہ مطلب ہےکہ اس حدیث کامسند ات جابر سے ہونا یعنی :سلسلہ سند کانہیں پرختم ومنتہی ہوجانا صحیح ہے اورحدیث ابن لہیعہ یعنی حدیث کامسندات ابو قتادہ سے ہونا غلط ہے۔اصل اسم تفصیل کےمعنی میں نہیں ہے۔
آپ ترمذی کے کلام حدیث فلاں عن فلاں اصح واحسن من حدیث فلاں کامعنی مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں پڑھئیے کبھی صیغہ تفصیل اپنی معنی میں ہوتا ہے اورکبھی اس میں تفصیل کامعنی ملحوظ نہیں ہوتا ونیز کبھی ہردوحدیث ضعیف ہوتی ہے لیکن ایک قلیل الضعف اوردوسری کثیر الضعف ۔ایسے موقعع پراصح یا احسن کالفظ بول کریہ معنی کالفظ بول کر یہ معنی مراد لیتے ہیں هذا اقل ضعفا هذا او ارجح منه لان كليهما صحيح اوحسن والاول منهما اصح او احن فتامل وقعة مجروح راوی اورضعیف روایت میں جرح کرنے اوراس کوضعیف بتانے میں کوئی حرج نہیں نہ حقیر نہ عظیم بلکہ یہ تو ایک دینی کام ہے۔ان وجوہ کی بنا پر ابن لہیعہ کےمتعلق آپ کےجوابات میرے نزدیک صحیح نہیں ہیں ۔رہ گیا نفس مسئلہ وجوب نصب امیر تویہاں اس پر کلام کرنا مقصود نہیں ہے اور نہ اس وقت اس کاموقع ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب