السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیعت کاجوعام طریقہ صوفیوں میں جاری ہے کیااس طریقہ سے رسول اللہﷺ بیعت کرتے تھے؟اورجوصرف کتاب وسنت پر عامل ہواس کی اصلاح باطن ہوجاتی ہےیاصوفیوں کامحتاج ہونا پڑتا ہےاواخیر نزع کےوقت امداد کرکے ایمان پر خاتمہ کراتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیعت کی کئی قسمیں ہیں مثلا:
(1)بیعت خلافت۔
(2)بیعت الاسلام۔
(3)بیعت ہجرت وجہاد۔
(4)بیعت ثبات وثوثق فی الجہاد
(5)بیعت تمسک بحبل التقوی یا
(6)بیعت توبہ..... وترک معاصی وپابندی احکام شرعیہ۔
(7)بیعت ارادہ برائے حصول مقامات عرفان وصول منازل احسان۔
پہلی چارقسموں کےجواز میں کوئی شبہ ہی نہیں۔بانچویں قسم یعنی:بیعت توبہ بھی جائز اورمباح ہے۔واجب اورفرض نہیں ہے آں حضرتﷺنےحضرت جریر سے محافظت نماز ادائیگی زکوۃ اورہرمسلمان کی خیر خواہی کی بیعت لی تھی۔اور 8ھ میں سورۃ ممتحنہ کے نزول اورفتح مکہ کےبعد مدینہ میں انصار ومہاجرین کی ایک جماعت سے ان امور پر بیعت لی جوبیعۃ النساء والی آیت میں مذکور ہیں۔(بخاری وغیرہ) اورفقراء مہاجرین سے اس امر پربیعت لی کہ کسی کےسامنے ہاتھانہ پھلائیں اور نہ کچھ مانگیں ابن ماجہ
(2)اور عورتوں سے ترک نوحہ کی بیعت لی بخاری وغیرہ اورظاہر ہےکہ ان حدیثوں میں جس بیعت کاذکر ہے وہ نہ بیعت خلافتت وامارت تھی نہ بیعت اسلام نہ بیعت ہجرت وجہاد بلکہ بیعت توبہ وعزم ترک ومعاصی وپابندی احکام شرعیہ تھی۔یایوں کہئےکہ بیت تمسک بالسنہ واجتناب عن البدعۃ والتزام طاعات تھی۔خلاصہ یہ کہ یہ محض استیثاق عہد تھا اوراس سے مقصود تزکیہ واصلاح تھا ۔رہا یہ شبہ کہ آں حضرت ﷺمسلمانوں کےامیر اوربادشاہ اورخلیفہ اللہ فے الارض تہے۔اس لیے مسلمانوں سے آب کی ہر بیعت بحثیت خلیفۃ اللہ فے الارض اور امیر وبادشاہ ہونے کے تھی پس خلفاء اورامرامسلمین کے لیے ہی بیعت جائز اورمباح ہوگی۔نہ علماء اورشیوخ کےلیے ۔
سو واضح ہوکہ کہیہ شبہ بے موقع اوربے محل ہے۔اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کی دو حیثیتیں تھیں ایک خلیفہ اللہ فے الارض ہونے کی ۔اوردوسری:عالم اورمعلم کتاب وسنت اورمزکی امت ہونےکی پس علی جہۃ الخلافۃ والامارۃ جوبیعت لی ہو وہ خلفاء کےلیے مشروع ہوگی اورکتاب وسنت کامعلم اورامت کامزکی ومصلح ہونےکی جہت سےجوبیعت لی ہوگی وہ علماء کاملین کےلیے مشروع ومباح ہوگی اوران جہتوں میں امتیاز امور متعلقہ بیعت کےذریعہ کیاجائے گا۔
خلفاء راشدین کے زمانے میں یہ بیعت توبہ اس لیے متروک ہوگئی کہ بنے اندر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ۔صرف حدجواز واباحت میں ہے۔بعض حالالت مین اس کاکرنابہتر ہوجاتا ہے۔دوسرے یہ کہ اس زمانہ میں صحابہ بکثرت موجود تھے اوروہ روسول اللہﷺ کی صحبت سےنورانی ہوچکےےتھے۔ان کاحال قال سےبڑھا ہواتھا۔عام حالات نے اس سےمستغنی کردیا تھا۔ان کوتزکیہ واصلاح حال کےلیےخلفاء کےہاتھ پر بیعت توبہ کرنے ی ضرورت ہی نہیں تھی۔عام حالات سدھر ہوئےہوں تویہی اصلاح کےلیے کافی ہے ۔قول عہد ومعاہد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔اورخلفائے راشدین کےبعد کےزمانوں میں غیرخلیفہ کےہاتھ بر اس بیعت کارواسج اس لیے نہیں تھا کہ بیعت خلافت کاگمان ہونے کی وجہ سے بغاوت کاالزام ارو پھر فتنہ کااندیشہ تھا۔
رسو اللہﷺ کےزمانہ میں بھی اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔آپ ﷺنے صرف بیان جواز کےلیے کیا تاکہ کبھی موقعہ ہوتواس بر عمل کرلیا جائے بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب تو لکھتےہیں ومما لاشك فيه ولاشبه انه اذا ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل على سبيل العبادة والعتمام بشانة فانه لاينزل عن كونه سنة فى الدين(القول الجميل ص:8)
بہرحال اس بیعت کے جواز میں کوئی شبہ نہیں کرنا چاہیے۔آج کل پیری مریدی کےسلسلہ میں اہل بدع کاعوام پر جواثر ہے سب پرکھلاہوا ہے۔اس مہلکہ سےعوام کو نکالنے کےلیے بڑا ذریعہ یہی بیعت توبہ ہے۔ اس لیے اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کام ہر کسس وناکس کانہیں ہے بلکہ شیح کامل کہے ہے۔کیوں کہ اس کی عملی زندگی لوگوں پر اثر انداز ہووگی اورپہر شیخ کامل لھی اس کی تنا نہ کرے نہ اپنے آپ دعوے دے ہاں لوگ کسی کی طرف رجوع کریں اورمرجوع الیہ شخص پورا محتاط ہو۔اہل بدع کی طرح اس کوذریعہ معاش نہ بناےئ ار اپنے اندر اس عباءثقیل کےاٹھانے کی صلاحیت پاتا ہو تواس امر کی طرف قدم اٹھائے ورنہ ابنے کوخطرہ میں نہ ڈالے۔یہ کام بری ذمہ داری کاہے۔
صوفیووں کےیہاں بیعت کے متوارث طریقےتین ہیں:
(1)بیعت توبہ۔جس پر مفصل بحث گزرچکی ہے۔
(2)بیعت تبرک یعنی: برکت حاصل کرنے کاقصد سے سلسلہ سند حدیث کی طرح سلسلہ میں صلحاء میں دخول وشمول کی بیعت کہ صوفیہ کےنزدیک یہ بیعت برکت کےحصول کاباعث ہے۔
(3)وہ بیعت جوتمام علائق دنیاوی سےتعلق توڑ کر صرف اللہ سےتعلق قائم کرنے اورقلب کوصرف اسی کےساتھ وابستہ کرلینے اورظاہر وباطن ہر حالت میں مہیات سےکلی اجتناب اوراوامر کےامتثال اوردائمی مجاہدہ وریاضت کےلیے اختیار کی جائے بلفظ دیگر بیعت ارادت جوحصول مقامات عرفان اوروصول منازل احسان کی غرض سےعمل میں لائی جاتی ہے۔
دوسری قسم یعنی:بیعت تبرک بے اصل ہے۔اس قسم کےسلسلہ بیعت کی سند نہیں ملتی۔حضرت علی کےحضرت حسن بصری کوخرقہ پہنانے کاقصہ بے اصل اورغلط محض ہے۔حسن بصری کاحضرت علی لقاء سماع ثابت ہی نہیں۔
لم يثبت عندالنقاد المهرة سماع الحسن البصرى من على بن ابى طالب كماذهب اليه على بن المدينى وابوزرعة والترمذى وابن ابى حاتم والبزاز وغيره قال الامام عبدالرحمن بن ابي حاتم فى المراسيل(ص :32) سُئِلَ أَبُو زُرْعَةَ لَقِيَ الْحَسَنُ أَحَدًا مِنَ الْبَدْرِيِّينَ قَالَ رَآهُمْ رُؤْيَةً رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَعَلِيًّا قْلُت سَمِعَ مَنْهُمْا حَدِيثًا قَالَ لَا وَكَانَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيّ يَوْم بُويِعَ لعَلي رَضِي الله عَنهُ ابْن أَربع عشرَة وَرَأى عليا بِالْمَدِينَةِ ثمَّ خرج عَليّ إِلَى الْكُوفَة وَالْبَصْرَة وَلم يلقه الْحسن بعد ذَلِك وَقَالَ الْحَسَنُ رَأَيْتُ الزُّبَيْرَ يُبَايِعُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ج رِوَايَةُ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيٍّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ 93 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ الْحَسُنُ لَمْ يَرَ عَلِيًّا إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَآهُ باِلْمَدِينَةِ وَهُوَ غُلَامٌ
وقال الترمذى فى باب ماجاء من لايجب عليه الحد: وَلاَ نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الحَدِيثِ وَرَوَاهُ الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ.
قَدْ كَانَ الحَسَنُ فِي زَمَانِ عَلِيٍّ وَقَدْ أَدْرَكَهُ، وَلَكِنَّا لاَ نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْهُ، وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدَبٍ.
وقال السخاوى فى المقاصد الحسنة :قال شيخنا(الحافظ ابن حجر) ثم إن من الكذب المفترى قول من قال: إن عليا ألبس الخرقة الحسن البصري، فإن أئمة الحديث لم يثبتوا للحسن من علي سماعا فضلا عن أن يلبسه الخرقة، ولم يتفرد شيخنا بهذا، بل سبقه إليه جماعة حتى من لبسها وألبسها كالدمياطي والذهبي والهكاري وأبي حيان والعلائي ومغطاي والعراقي وابن الملقن والأبناسي والبرهان الحلبي وابن ناصر الدين، وتكلم عليها في جزء مفرد، وكذا أفردها غيره ممن توفي من أصحابنا،
واعظم مايستدل به على اثبات سماع الحسن البصرى من على رواية ابى يعلى الموصلى فقد قال العلامة جلال الدين السيوطى فى اتحاف الفرقة برفع الخرقة والشيخ ابراهيم الكردى الكورانى المدنى فى رسالته المسماة بتنوير الافهام بتفير الاوهام والشيخ محمد عابدالسندي فى حصر الشارد قال الحافظ ابن حجر حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو سَهْلٍ يُوسُفُ بْنُ عَطِيَّةَ الصَّفَارُ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا يَقُولُ: قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَوْ آخِرُهُ محمد بن حسن الصير فى :نص صريح فى سماع الحسن من على رجاله ثقات حوثره وثقه ابن حبان وعقبه وثقه احمد بن حنبل وابن معين انتهى وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الرَّاوِي جَرْحٌ وَلَا تَعْدِيلٌ، وَكَانَ كُلٌّ مِنْ شَيْخِهِ وَالرَّاوِي عَنْهُ ثِقَةً، وَلَمْ يَأْتِ بِحَدِيثٍ مُنْكَرٍ فَهُوَ عِنْدَهُ ثِقَةٌ، وَفِي كِتَابِ الثِّقَاتِ لَهُ كَثِيرٌ مِمَّنْ هَذِهِ حَالُهُ.
وَلَأَجْلِ هَذَا رُبَّمَا اعْتَرَضَ عَلَيْهِ فِي جَعْلِهِمْ مِنَ الثِّقَاتِ مَنْ لَمْ يَعْرِفِ اصْطِلَاحَهُ، وَلَا اعْتِرَاضَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ لَا يُشَاحَحُ فِي ذَلِكَ] .
قُلْتُ: وَيَتَأَيَّدُ بِقَوْلِ الْحَازِمِيِّ: ابْنُ حِبَّانَ أَمْكَنُ فِي الْحَدِيثِ مِنَ الْحَاكِمِ، وَكَذَا قَالَ الْعِمَادُ بْنُ كَثِيرٍ: قَدِ الْتَزَمَ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ الصِّحَّةَ، وَهُمَا خَيْرٌ مِنْ (الْمُسْتَدْرَكُ) بِكَثِيرٍ، وَأَنْظَفُ أَسَانِيدَ وَمُتُونًا، وَعَلَى كُلِّ حَالٍ فَلَا بُدَّ مِنَ النَّظَرِ لِلتَّمْيِيزِ انتهى
قال السخاوى ايضا فى باب معرفة من تقبل روايته ومن ترد مانصه: وَهُوَ لَازِمُ كُلِّ مَنْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ رِوَايَةَ الْعَدْلِ بِمُجَرَّدِهَا عَنِ الرَّاوِي تَعْدِيلٌ لَهُ، بَلْ عَزَا النَّوَوِيُّ فِي مُقَدِّمَةِ شَرْحِ مُسْلِمٍ لِكَثِيرِينَ مِنَ الْمُحَقِّقِينَ الِاحْتِجَاجَ بِهِ.
وَكَذَا ذَهَبَ ابْنُ خُزَيْمَةَ إِلَى أَنَّ جَهَالَةَ الْعَيْنِ تَرْتَفِعُ بِرِوَايَةِ وَاحِدٍ مَشْهُورٍ. وَإِلَيْهِ يُومِئُ قَوْلُ تِلْمِيذِهِ ابْنِ حِبَّانَ: الْعَدْلُ مَنْ لَمْ يُعْرَفْ فِيهِ الْجَرْحُ ; إِذِ التَّجْرِيحُ ضِدُّ التَّعْدِيلِ، فَمَنْ لَمْ يُجَرَّحْ فَهُوَ عَدْلٌ حَتَّى يَتَبَيَّنَ جَرْحُهُ، إِذْ لَمْ يُكَلَّفِ النَّاسُ مَا غَابَ عَنْهُمْ. وَقَالَ فِي ضَابِطِ الْحَدِيثِ الَّذِي يُحْتَجُّ بِهِ مَا مُحَصِّلُهُ: إِنَّهُ هُوَ الَّذِي تَعَرَّى رَاوِيهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ مَجْرُوحًا، أَوْ فَوْقَهُ مَجْرُوحٌ، أَوْ دُونَهُ مَجْرُوحٌ، أَوْ كَانَ سَنَدُهُ مُرْسَلًا أَوْ مُنْقَطِعًا، أَوْ كَانَ الْمَتْنُ مُنْكَرًا، فَهَذَا مُشْعِرٌ بِعَدَالَةِ مَنْ لَمْ يُجَرَّحْ مِمَّنْ لَمْ يَرْوِ عَنْهُ إِلَّا وَاحِدٌ.
وَيَتَأَيَّدُ بِقَوْلِهِ فِي ثِقَاتِهِ: أَيُّوبُ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَنْهُ مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ: لَا أَدْرِي مَنْ هُوَ، وَلَا ابْنَ مَنْ هُوَ؟ فَإِنَّ هَذَا مِنْهُ يُؤَيِّدُ أَنَّهُ يَذْكُرُ فِي الثِّقَاتِ كُلَّ مَجْهُولٍ رَوَى عَنْهُ ثِقَةٌ وَلَمْ يُجَرَّحْ، وَلَمْ يَكُنِ الْحَدِيثُ الَّذِي يَرْوِيهِ مُنْكَرًا، انتهى
فانظر ان ايوب الانصارى مع كونه مجهول الحال مستورا ذكره ابن حبان فى الثقات لانه ممن يجرح وكذا ذكرا ابن حبان جماعة من المستورين فى الثقات لان مسلكه مشعر بعدالة من لم يجرح كعبدالله بن قيس الراوى عن الحارث ابن اقيس وهو مجهول وذكره ابن حبان فى الثقات(5/42)فهكذا حوثرة بن اشرس البصرى ماضعف لكن لم بوثقه احد من ائمة الجرح والتعديل وانما ذكره ابن حبان فى كتاب الثقات على قاعده من انه يذكر فى الثقات كل مجهول روى عنه ثقه ولم يجرح فحوثره ثقه عند ابن حبان ومجهول الحال ومستور عندالجمهور وه قد غلط ووهم فى هذه الرواية بذكر لفظ السماع فان على بن المدينى وابا زرعة والترمذى وابن ابى حاتم والبزار وامثالهم الذين خلقوا لنقد الاحاديث والرجال لايخفى على هولاء والنقاد مثل هذه الرواية المشعرة بالسماع ومع كونهم قدبالغو فى انكارسماع الحسن من على فكيف يجتمع على اثبات السماع من مثل هذه الرواية.
تیسری قسم یعنی بیعت ارادت محض امور مباح سے ہے سنت یاواجب یافرض نہیں ہے۔اگرچہ اس مقصد کےلیے بیعت کرنے کی نظیر عہد رسالت وزمانہ خلافت راشدہ میں اورنہ بعد کےقرون خیر میں ملتی ہے کیوں کہ قرون مشہور دلھا بالخیر میں مقامات عرفان اورمنازل احسان کےحصول کےلیےبیعت کاذکر نہیں ملتا۔البتہ جیساکہ گزرچکا بیعت کی اقسام خمسہ ضرور موجود تھیں لیکن اس بیعت ارادت کو بدعت وضلالت کہنا محل تامل ہے۔
بہرکیف ہمارے نزدیک اخلاص نیت اورآں حضرت ﷺ دورد وسلام کےساتھ کتاب اللہ اورسنت رسول پرعمل کرنا اصلاح باطن کےلیے کافی ہوسکتا ہے۔مگر اگر کسی کامل شیخ کی صحبت نصیب ہوجائے تو اس کی صحبت اصلاح حال اور تطہیر باطن میں بہت ممدومعاون ہوجائے گی۔
اصل عمل صالح اور تقوی وخشیت الہی ہے اور انسان جب متقی ہوجاتا ہے توعرفان واحسنان کےمقامات بقدر مقدر اس کے مقامات اس کےخود بخود حاصل ہوجاتے ہیں کیوں کہ یہ سب ثمرات ونتائج ہیں اعمال صالحہ کےنہ نفس اعمال ومطلوب شارع۔
تصوزف اور صوفی کی حقیقت اور رسمی صوفیوں کےمروجہ محدثہ مراسم ومکائد کلیے تلبیس ابلیس لاابن الجوزی بڑھئے اوربیعت سے متعلق مفید بحث رسالہ بيعت للعلامه سلامت الله الجيراج فورى ميں ملاحظہ کیجئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب