سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) سانڈ کا گوشت جو ہندو اپنے رسم و رواج کے مطابق بغرض اموات کے ایثال و ثواب کی خاطر چھوڑیں؟

  • 17544
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1645

سوال

(218) سانڈ کا گوشت جو ہندو اپنے رسم و رواج کے مطابق بغرض اموات کے ایثال و ثواب کی خاطر چھوڑیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سانڈ جوعام طور بر ہندو قوم اپنے رسم ورواج کےمطابق اپنے اموات کےنام بربغرض ایصال ثواب چھوڑتے ہیں کہ نسل قائم رہے اس کاکھانا شرع شر یف میں حلال ہے یانہیں؟

اس بارے میں علمائے اہل حدیث مختلف  ۔تاوی نذیریہ ہیں میاں صاحب  مرحم نے حلال لکھا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ ہندو اپنے رسم ورواج کےمطابق اپنے اموات کےنام بغرض ایصال ثواب سانڈ کوچھوڑتے ہیں کہ نسل قائم رہے۔

اگر واقعہ یہی ہے جیساکہ آپ نے لکھا ہے توایسا کردینے سےسانڈ فی  نفسہ حرام نہیں ہوگا۔کیوں کہ کسی مردے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے جانور کوچھوڑ دینے سےوہ جانور شرعا حرام نہیں ہوجاتا ہے۔یہ تو ایسا ہی ہےجیسے کوئی مسلمان اپنی کسی میت کو ثواب پہنچانے کلئے کوئی جانور بایں طورمخصوص کردے کہ غریب لوگو اس سے فائدہ اٹھائیں اورظاہر ہےکہ ایسا کرنے سے اس جانور کاکھاناحرام نہیں ہوجاتا ۔البتہ چوں کہ اس طر ح سانڈ چھوڑنے والے ہندو اس کی اپنی ملکیت سے باہر نہیں سمجھتے اورذبح واکل کےتصرف کوبارداشت نہیں کرسکتے اس لئے اس لحاظ سے اس کاکھناممنوع ہے۔

لیکن جہاں تک مجھ کومعلوم ہےہندوسانڈ کواپنے دیوتاؤں کےنام ان کےتقرب وتعظیم کی نیت سے چھوڑتے ہیں ایس حابلتت میں یہ سانڈ ماھل بہ لغیر اللہ المائد ہ میں داخل ہونے کی وجہ سے فی نفسہ حرام ہوگا اورجب تک سانڈ کےساتھ اس کے چھٔنے والے کی نیت تعظیم وتقرب للاصنام کی ہوگی اسک کاکھنا رام ہوگا۔

لغت عربی میں اہلال کےمعنی مطلق رفع صورت یامطلق نامزد کردینے کے ہیں ۔کسی لغت سےعند الذبح کی قید ثابت نہیں ہے  ۔فلايلتف الى اقوال المفسرين الذين قيدوه بالذبح من غير دليل معتبر سانڈ کی حلت پر جو آیات پیش کی جاتی ہیں  ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ﴾ (سورة البقرہ:168)﴿ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ (سورة المائدہ:103) اور﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ﴾ (سورة الانعام:140) وہ سانڈ بر منطبق نہیں ہوتیں کیوں کہ اس کےچھوڑنے والے جیسے اس کوچھوڑنے کےبعد  حرام سمجھتے ہیں ویسا ہی چھوڑنے سے پہلے بھی اس کوحرام سمجھتے ت ھے ان کےنزدیک تواس کاکھاناہر حالت میں حرام ہے البتہ سانڈ کردینے کےبعد اس  سے کام نہیں لیتے بس یہاں تحریم حلال کی صورت متحقق نہیں ہے۔اوراگڑ متحقق ہوتوتعارض ادلہ کی وجہ سے احتیاط فے الدین کامقتضی یہ ہے کہ حرمتت کوترجیجد ہو ایسی حالت میں میری دیانت یہ کہتی ہے  کہ سانڈ کو منہیں کھانا چاہیے ۔واللہ اعلم بالصواب

مصباح

٭حضرت مولانا حافظ عبداللہ صاحب غازی پور ی ﷫ سانڈ کی  حلت کےقائل تھے۔چںانچہ انہوں نےاس بارے میں ایک رسالہ بھی لکھاتہ۔شای﷾ وہی رسالہ آپ  کےباس ہے۔بہر حال یہ مسلک ہمارے نزدیک خلاف ثواب ہے ۔غیر اللہ کےنام پر چھوڑے ہوئے جانور یا اشیا حرام ہیں ۔ہمارے لئے ان  کا کھنا جائز نہیں ہے فقولہ تعالی وما اہل بہ لغیر الہ اہل کےمعنی مطلق رفع صورت الذکر غیر اللہ علی الشئی للتقرب الیہ ہے واللہ اعلم

عبیداللہ

٭ذی مخلب من الطیر کی تفسیر میں مایصور علی غیرہ ویصدہ ویعدو بمخلبہ مرقوم وملحوظ ہے۔ والمحرم  وکل ذی مخلب من الطیر وہی التی تعلق بمخالبہا الشئی وتصیدبہا....فیدخل فے ہذا کل مالہ مخلب بعدوبہ کالعقاب الخ(المغنی13/)

 المراد بذی مخلب ہو سباء الطیر لاطل مالہ مخلب وہ والظفر(الزیلعی علی الکنز)

طوطا اگر نیچے سے حملہ اور شکانہ نہیں کرتا تو حدیث میں داخل نہیں ہے ۔اورکوئی دوسری دلیل حرمت کی مودود نہیں ہے۔

عبیداللہ

٭مسئلہ مستفسرہ میں میر ی رائے اب بھی یہی ہے کہ مچھلی کاشکار جیتا کےذریعہ ٹھیک نہیں ہے خواہ یہ جبتا زندہ مچھلی کا ہویا زندہ جانور کوعذاب دینے اور ان کےساتھ بے رحمی کرنے مینڈک یازندہ جونک اورکیچورے کاہو۔یہ فعل بلاشبہ بے رحمی اورتعذیب حیوان میں داخل ہے۔شکار کرنے والوں کامقصود اگرچہ جبیتا کی مچیلی یامنیڈک یاجونک یا کیجوے کاعذاب دینا اوراایذا پہنچا کرمانرنا نہیں ہوتا لیکن ان کے اس صنیع سےبغیر ان کےقصد وارادہ کےزندہ جانور کوعذاب دینے اور ان کےساتھ بے رحمی کرنے کاتحقق پھڑ موت کا وقوع ہوجاتا ہے۔شکار کوئی ایسی شرعری ضرورت نہیں کہ جس وجہ سے جیتا کامذکورہ طریقہ مباح  ہوجائے اس معاملہ میں بلی والے واقعہ اورجیتا کےذریعہ شکار کےدرمیان فرق کرنا صیحح نہیں ہے۔کسی گاؤں یامحلہ میں کوئی ایسی بلی ہوجولوگوں کی مرغیاں کھاجانےکی عادی ہوچکی ہوتوکیا ایس بلی کوپکڑٗ کی بھوکی پیاسی رکھنا کہ وہ مرجائے اورمرغیوں کےضیاع سےنجات مل جائے جائز ہوجائے گا؟

شیر وغیرہ کےشکار کےلئے بکر ی بکرایا بھینسا وغیرہ بغیر چارہ اوربانی کےبانڈ دینا کہ اس کے چلانےکی آواز سن کر شیر اسے چیر نے پھاڑنے میں مئشغول ہوجائے اورشکاری شیر کوگولی کانشانہ بنالے شیر کےشکار کایہ طریقہ شرعا درست نہیں ہے۔یہ دونوں فعل حدیث نبوی:

(1)نهى ان يقتل شئى من الدواب صبرا(مسند احمد مسلم ابن ماجه عن جابر)

(2)نهى عن قتل الصبر(ابوداود عن ابي ايوب)

(3)نهى ان تصبر البهائم(بخاري مسلم ابوداود نسائي ابن ماجه عن انس)

(4)لاتتخذو شيئت فيه الروح غرضا(مسلم نسائى ابن ماجه عن ابن عباس) كے خلاف ہیں

علامہ مناوی تصبر البہائم کی شرح میں لکھتےہیں: بضم اوله أى أن يمسك شئى منها ثم يرمي شئي الى ان تموت من الصبر وهي الامساك فى ضيق يقال:جرت الدابة اذا  حبستها بلاعلف وفى خبر احمد عن ابن عمر رفعه من مثل بذى روح ثم لم يتب مثل الله به يوم القيامة قال الفتح رجاله ثقات  اور حدیث لاتتخذو شیئا فيه شيئا فيه الروح غرضا کی شرح میں لکھتے ہیں:اى يرمى من السهام ونحوها لمافيه من العبث والتعذيب پہلی تین حدیثیں ابنے عموم واطلاق کی بنا بر جیتا کےذریعہ مچلھی کےشکار اوربکری بکرا بھینسا وغیرہ کےذریعہ شیر کےشکار کوبھی شامل ہیں۔

عنبر مچھلی کے واقعہ کےذریعہ مچھلی کے شکار کےجواز پر استدلال کرناغلط اوربے خبری کی دلیل ہے ۔بخاری کی ایک روایت  یہ الفاظ موجود ہیں فالقى البحر حوت ميتا لم ير مثله له العنبر فتح

امام احمد﷫ مینڈک اورکیچوے اورکسی بھی ذی روح کےذریعہ شکار کرنے کی کوممنوع سمجھتے ہیں المغنی میں ہے وَكَرِهَ الصَّيْدَ بِالضَّفَادِعِ، وَقَالَ: الضُّفْدَعُ نُهِيَ عَنْ قَتْلِهِ.  [فَصْلٌ كَرِهَ الصَّيْدَ بِالْخَرَاطِيمِ]

(7740) فَصْلٌ: وَكُرِهَ الصَّيْدُ بِالْخَرَاطِيمِ، وَكُلِّ شَيْءٍ فِيهِ الرُّوحُ، لِمَا فِيهِ مِنْ تَعْذِيبِ الْحَيَوَانِ، فَإِنْ اصْطَادَ، فَالصَّيْدُ مُبَاحٌ. وَكَرِهَ الصَّيْدَ بِالضَّفَادِعِ، وَقَالَ: الضُّفْدَعُ نُهِيَ عَنْ قَتْلِهِ.  [فَصْلٌ كَرِهَ الصَّيْدَ بِالْخَرَاطِيمِ]

(7740) فَصْلٌ: وَكُرِهَ الصَّيْدُ بِالْخَرَاطِيمِ، وَكُلِّ شَيْءٍ فِيهِ الرُّوحُ، لِمَا فِيهِ مِنْ تَعْذِيبِ الْحَيَوَانِ، فَإِنْ اصْطَادَ، فَالصَّيْدُ مُبَاحٌ. انتهى

جیتا کے ذریعہ کے شکار کی ہوئی مچھلی حرام تو نہیں ہوجائے گی لیکن چوں کہ اس طریقہ شکار سے حاصل کی ہوئی مچھلی کاکھانا اس غلط اورممنوع طریقہ پرشکار کرنے کامحرک ومعرض ہوتا ہے اوراس طرح یہ چیز ممنوع کام کے ارتکاب کاباعث بنتی ہے۔اس لئے ایسی مچھلی کے کھانے سےاحتیاط کرنا ضروری ہے۔

عبیداللہ

٭قربانی اورعقیقہ کےلئے نصاب کاملک ہونا شرط نہیں ہے صرف استطاعت اوروسعت وقدرت شرط نہیں ہے ۔اہل حدیث کایہی مسلک ہے۔

چرم قربانی خود ابن استعمال میں نہ لانا ہوتو اس کاکسی غریب مستحق کوصدقہ کردینا ہی بہتر ہے۔ویسے کسی عزیز یا اجنبی کوہدیہ کرنے میں مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔

صدقہ فطر عشر زکوۃکی رقم لرکی کودینا جبکہ وہ صاحب نصاب ہو ہرگز جائز نہیں ہے ۔ہاں اس کا شوہر غریب ہوتو شہورکودینے میں شرعا کوئی مشائقہ نہیں ہے۔

زکوۃ وفطر وعشر کی رقم مستحق کودینےمیں ہرگز کوئی دنیاوی غرض اورمنفعت مقصود نہیں ہونی چاہیے

عبیداللہ

٭قربانی کاگوشت غیر مسلم امیر وغیریب کوبطورہدیہ وتحفہ دیا جاسکتا ہےجیسے ہم اپنے کسی عزیر اوردوست  کو ہدیہ دیتے یا کھلاتےہیں ایسا کرنا﴿لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ (الممتحنه:1) كے خلاف نہیں ہے ہدیہ دشمن کونہیں کیا جاتا ملنے جلنےوالے اورپڑوسی غیر مسلم سب کے سب ہمارے دشمن نہیں ہوتے۔

٭خطبہ کےلئےمنبر پرچڑھتے وقت کسی جہت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے بین الخطبتین قعدہ میں امام کےلئے سرا مختصرا دعا کرنا جائز ہے دعا کرے توکوئی مضائقہ نہیں ہے۔

عبیداللہ

٭لڑکے یالڑکی کی طرف سے بڑے جانور کاعقیقہ کرنا ہوت پورا ایک جانور ایک بچے کی طرف سے جائے۔قربانی کےبڑے جانور کی طرح عقیقہ کےجانور میں حصے بخرے نہین لگیں گے عقیقہ میں مولود کی طرف سے پورا ایک دم دینا چاہیے بڑے جانور کےعقیقہ میں حصہ بخرا ثابت نیہں ہے عقیقہ ہویا قربانی اس میں رائے اورقیاس کودخل نیہں ہے پس عقیقہ کوقربانی پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے واللہ اعلم

عبیداللہ

٭ایسے بکر ے کی قرباین جائز نہیں ہےاوروہ عنداللہ مقبول نہیں ہوتی اسک گوشت کھانا درست نہیں ہے۔گاؤں کےتمام کھیت کھلیان والوں کاخودیا ابنے ابپنے ہنوکورں کےذریعہ دن اوررات کےچوبیس گھنٹوں میں اپنے کھیتوں اورکھلیانوں کی حفاظت کرنا بہت مشکل ہے اور سا کادستور بھی نہیں ہے۔ہل حوتنے اورہنگائی اورگاری میں کام آنے ولے بیلوں اوردودھ والی بھینسوں کوجس طرح گھروں میں اورگھاریوں میں بند کررکھنا اوران کو چرانے کےوقت چروا ہے کا ان کےساتھ رکھنا ممکن اورآسان ہےاوراس کادستور بھی ہےاسی طرح قرباین کےجانوروں کابھی باندھے رکھنا اور چرواہے کی نگرانی میں ان چرانے کےلئے چھوڑنا اورآسان اورممکن العمل ہےاورحکومت وقت کامنشا بھی یہی ہے کہ ہر قسم کےجانور گھروں میں باندھے رکھے جائیں یا چروا ہے کی نگر انی میں ان کوچرنےکے لئے چھوڑا جائے تاکہ دوسرے کیے کھیت کھلیان کونقصان نہ پہنچاسکیں چنانچہ سا نےجابجامویشی خانے کانجی ہاؤس قائم کردیئے ہیں تاکہ دوسرےوںکی کھیتی نقصان کرنے والے جانوروں کی مویسی خانوں میں بند کرادیا جائےاوربجب تک مالکان مویشی مقررہ جرمانہ نہ ادا کردیں ان کومویشیوں کو ان کے حوالے نہ کیاجاے ان حالات میں اپنے جانوروں کوخواہ وہ قربانی کےجانور ہوں یاکوئی اوردوسرےون کےکھیت کھلیان کھانےکےلئے چھوردیناشرعا ناجائز ہےکیوں کہ دوسرے کےمال سے ابنے جانوروں کابیٹ بالنا ہوا پس اسیے جانور کی درست نہیں:ارشاد ہے ان الله طيب لايقبل الاطيب اور اارشاد ہےلايحل مال امرء مسلم الابطيب نفسه اورزرقانی لگتے ہیں  قَالَ مَالِكٌ فِي الْمُدَوَّنَةِ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالرُّمُكِ الَّتِي تَعْدُو فِي زُرُوعِ النَّاسِ قَدْ ضَرَبَتْ ذَلِكَ تُغَرَّبُ وَتُبَاعُ فِي بَلَدٍ لَا زَرْعَ فِيهِ. ابْنُ الْقَاسِمِ: وَكَذَا الْغَنَمُ وَالدَّوَابُّ إِلَّا أَنْ يَحْبِسَهَا أَهْلُهَا عَنِ النَّاسِ(شرح الموطا للزرقانی4/38)

قال أبو داود: حدثنا أحمد بن محمد بن ثابت المروزي،، قال: حَدَّثنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري عن حرام بن محيصة عن أبيه أن ناقة للبراء بن عازب دخلت حائط رجل فأفسدت فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم على أهل الأموال حفظها بالنهار وعلى أهل المواشي حفظها بالليل. قال الخطابىقال الشيخ وهذه سنة لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة في هذا الباب، ويشبه أن يكون إنما فرق بين الليل والنهار في هذا لأن في العرف أن أصحاب الحوائط والبساتين يحفظونها بالنهار ويوكلون بها الحفاظ والنواطير. ومن عادة أصحاب المواشي أن يسرحوها بالنهار ويردونها مع الليل إلى المراح فمن خالف هذه العادة كان به خارجاً عن رسوم الحفظ إلى حدود التقصير والتضييع فكان كمن ألقى متاعه في طريق شارع أو تركه في غير موضع حرز فلا يكون على آخذه قطع.(معالم السنن5/202)

عبيدالله

٭عقیقہ میں پورا جانور ذبح کرنا چاہیے چاہےچھوٹا ہو (بکرا بھیڑ دنبہ)یابڑا گائے بھینس بڑے جانور میں ایک یا دوحصہ کافی نہیں ہوگا۔بڑے جانور میں حصہ کوکافی سمجھنا محض قیاسی چیز ہے۔ساتویں یاچودھویں یااکیسوین دن عقیقہ کی وسعت نہ ہوتواس کےبعدجب بھی اس  کی وسعت اورمقدرت ہوجائے عقیقہ کردیا جائے۔عقیقہ والد کےذمہ بچے کاحق ہے ۔اسے چاہئےکہاس کے اس حق سےجلد سبکدوش ہونے کس کوشش کرےبچے کی بسلامت پیدائش پر دورکعت شکرانہ  کی ادائے گی صحیح ہے۔ایک سجدہ شکر پراکتفا بھی جائز ہے دورکعت پڑھ لینا اورزیادہ اچھا ہے۔

٭واجب اصطلاحی اس کوکہتےہیں کہ :جس کاحم دلیل ظنی سےثابت ہواوراسک کرناضروری ہے۔اس کاتارک مستحق  عذاب ہوگا۔

مستحب کاکرنا ضروری نہیں ہوتا کرنے پر ثواب ملتا ہے نہ کرنے برعذاب وملامت کامستحق نہیں ہوتا ہے۔

٭اجنبی بوڑھی عورتوں کوسلام کرنےمیں مرد کےلئےمشائقہ نہیںہے اورجوان عورت کوسالم کرنے میں فتنہ کااندیشہ ہے ۔اس لئے اس سے بچنا چاہیے ۔البتہ اگر کسی جگہ جوان اوربوڑھی عورتیں جمع ہوں تو ان سب کوسلام کرنے میں مضائقہ نہیں ۔چار رکعت سنت میں پہلی دورکعتوں کی طرح تیسری اورچٔتھی رکعت کوبھی بھر ی پڑھنا چاہیے ۔واللہ واعلم

عبیداللہ

٭حضرت اسماعیل کی عمر ان کوذبح کئےجانےوقت کیاتھی؟اس کی تعیین کسی صحیح روایت سےثابت نہیں ہوتی ۔ہاںاکثر مفسرین کہتےہیں کہ اس وقت ان کی عمر تیربرس کی تھی اوربعض کہتے ہیں کہ سات برس کی تھی۔قرآن پاک سےاس قدر معلوم ہوتاکہ ذبح کرےوقت وہ خدا کےامرونہی کوسمجھتے عقل وتمیرز اوراچھے برے کی پہچان رکھتے تھے قریب البلوغ تھے اور ان کے اند اتنی قوت تھی کہ اپنے باپ ابرابہمی ا﷤ کے ساتھ ان کے کاموں میںش ریک ہوکر ان کاہاتھ بٹاسکیں واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔كتاب الأضاحى والذبائح

صفحہ نمبر 417

محدث فتویٰ

تبصرے