السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید بکر کےپاس اپنی زمین رہن رکھ کرکچھ روپئےایک اجل معین پر قرض لئے۔لیکن زید اپنی غربت اوراافلاس کی وجہ اجل معین پر روپیہ ادا نہیں کرسکا۔چنانچہ بکر نےاس کی زمین مرہونہ پر قبضہ کرلیا۔اس کےبعد بکر نےاس زمین میں ایک مسجد بنوائی جس میں چودہ پندرہ سال سے لوگ نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں۔سوال یہ ہےکہ اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہےیانہں؟نیر اب اس زمین کےمتعلق کیافیصلہ کیاجائے؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا:لايغلق الرهن من صاحبه الذى رهنه له غنمه وعليه غرمه (شافعى) «لَا يَغْلَقُ الرَّهْنُ بِمَا فِيهِ» يُقَالُ: غَلِقَ الرَّهْنُ يَغْلَقُ غُلُوقاً. إِذَا بَقِيَ فِي يَدِ المرْتَهِن لَا يَقْدرُ رَاهِنُه عَلَى تَخْليصِه. وَالْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَسْتَحقّه المرْتَهِن إِذَا لَمْ يَسْتَفكّه صاحبُه.
وَكَانَ هَذَا مِنْ فِعْل الْجَاهِلِيَّةِ، أَنَّ الرَّاهن إِذَا لَمْ يؤدِّ مَا عَلَيْهِ فِي الوَقت المُعَيَّن ملَكَ المرْتَهِن الرَّهْن، فأبْطَله الْإِسْلَام
وقال فى القاموس: غلق الرهن كفرح استحقه المرتهن وذلك لم يفتكه فى الوقت المشروط انتهى ومن احب التفصيل رجع الى الروضة النديه شرح الدررالبيهة للشكوكانى(2/210)
حديث مذکورسےثابت ہوا کہ اگر راہن وقت معینہ پردین ادا نہ کرسکے توشی مرہون اس کی ملکیت سےنکل کر مرتہن کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ حسب سابق راہن کی ملکیت میں باقی رہتی ہے۔اوریہ بھی معلوم ہواکہ اس کی ملکیت سےنکل کرمرتہن کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی بلک حسب سابق راہن کی ملکیت میں باقی رہتی ہے۔اوریہ بھی معلوم ہواکہ مرتہن کےلئے جائز نہیں کہ اپنے کواس کامالک سمجھ کراس میں کسی قسم کاتصرف ازقسم بیع وہبہ وصدقہ وتعمیر وغیرہ کرے۔پس صورت مسئولہ میں اجل معین پردین نہ ادا کرنے سےبکر اس زمین کامالک نہیں ہوا لہذا اس میں مسجد تعمیر کرنےکاحق بھی اس کوحاصل نہیں تھا اس کا یہ تصرف غاصبانہ وظالمانہ ہےاوریہ زمین ارض مغصوبہ کےحکم میں ہےاس لئےیہ مسجد شرعا مسجد کےحکم میں نہیں ہے۔
ایسی عمارت میں جوارض مغصوبہ پر بنائی گئی ہونماز نہیں پڑھنی چاہئے۔اگرچہ جونمازیں اب تک اداکی گئی ہیں وہہ مسقط ذمہ ہیں۔ راہن کوزید کی چاہئے کہ یہ زمین مرہونہ فروخت کرکے بکر کازرہن ادا کردے اوراگر وہ قصدا کوئی صورت ادائیگی کی اختیار نہ کرے توبکر عدالت کےذریعہ اس زمین کوفروخت کرواکر اپناحق وصول کرے۔اگر قیمت زرہن سےزیادہ ہوتوحصہ زائد راہن زید کودیدے۔
فَصْلٌ: إذَا حَلَّ الْحَقُّ، لَزِمَ الرَّاهِنَ الْإِيفَاءُ؛ لِأَنَّهُ دَيْنٌ حَالٌّ، فَلَزِمَ إيفَاؤُهُ، كَاَلَّذِي لَا رَهْنَ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يُوَفِّ، وَكَانَ قَدْ أَذِنَ لِلْمُرْتَهِنِ أَوْ لِلْعَدْلِ فِي بَيْعِ الرَّهْنِ، بَاعَهُ، وَوَفَّى الْحَقَّ مِنْ ثَمَنِهِ، وَمَا فَضَلَ مِنْ ثَمَنِهِ فَلِمَالِكِهِ، وَإِنْ فَضَلَ مِنْ الدَّيْنِ شَيْءٌ فَعَلَى الرَّاهِنِ. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَذِنَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِ، أَوْ كَانَ قَدْ أَذِنَ لَهُمَا ثُمَّ عَزَلَهُمَا، طُولِبَ بِالْوَفَاءِ وَبَيْعِ الرَّهْنِ، فَإِنْ فَعَلَ، وَإِلَّا فَعَلَ الْحَاكِمُ مَا يَرَى مِنْ حَبْسِهِ وَتَعْزِيرِهِ لِبَيْعِهِ، أَوْ يَبِيعُهُ بِنَفْسِهِ أَوْ أَمِينِهِ. وَبِهَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: لَا يَبِيعُهُ الْحَاكِمُ، لِأَنَّ وِلَايَةَ الْحَاكِمِ عَلَى مَنْ عَلَيْهِ الْحَقُّ، لَا عَلَى مَالِهِ، فَلَمْ يَنْفُذْ بَيْعُهُ بِغَيْرِ إذْنِهِ. وَلَنَا، أَنَّهُ حَقٌّ تَعَيَّنَ عَلَيْهِ، فَإِذَا امْتَنَعَ مِنْ أَدَائِهِ، قَامَ الْحَاكِمُ مَقَامَهُ فِي أَدَائِهِ كَالْإِيفَاءِ مِنْ جِنْسِ الدَّيْنِ، وَإِنْ وَفَّى الدَّيْنَ مِنْ غَيْرِ الرَّهْنِ، انْفَكَّ الرَّهْنُ(المغنى لابن قدامه6/531)
مصباح
٭ رہن کی مذکورہ دونوں صورتیں شرعا ناجائز ہیں۔مرزروعہ کھیت یازرعی زمین کے رہن رکھنے کی جائز صورت صرف ایک ہے۔اوروہ یہ ہےکہ قرض دینےوالا مرتہن حکومت کوجوسرکاری لگان دےیازمین کے مالک کسان یازمیندار کوجوپوت دے اوراکاشت پرجس قدر خرچ کرےاس پوت یاسر کاری مال گزاری کواورکاشت پرجو خرچ کیا ہےاس کوہرسال پیدا وال سےوضع کرلیا کرے اس کےبعد جوکچھ غلہ بچے اس کواصل قرض میں محسوب کرتا جائے۔
یہ تو صورت تھی قرض اوررہن کی اورشرعی حکم کی ۔رہ گیا شروع ہی سے اپنی قابل کاشت زمین اورکھیت یاباغ کوایک سال کےلئےیا اس سے زائد مدت کےلئےکسی کوروپیہ کےبدلے میں کرایہ پردینا جس کو اصطلاحا کرااء الارض بالنقد کہتے ہیں تواس کاشرعی حکم یہ ہے یہ بلاکراہت جائز ہے۔
٭بینک کاسود لےکر ہاؤس ٹیکس یا اس طرح کےکسی اورظالمانہ ٹیکس کی ادائےمیں یاکسی انگریزی اسکول میں خرچ کردیا جائے۔
٭الغلام مرتہن بعقیقہ کامطلب یہ ہے کہ : جس طرح شئی مرہون زرہن کولازم ہےاسی طرح بچے کوعقیقہ گویالازم ہے شئی مرہون زررہن کےمقابلہ میں محسوس ہوتی ہےاروزرہن کی ادائےگی کےبغیر واگذار نہیں ہوسکتی اس طرح بچہ عقیقہ کےمقابلہ میں محبوس ہوتا ہے بغیر عقیقہ کےاس کاچھٹکارانہیں ہے۔مقصود عقیقہ کاتاکد بیان کرنا ہے۔ محبوس ہوتا ہے بغیر عقیقہ کےاس کاچھٹکارا نہیں ہے۔مقصود کاتاکد بیان کرنا ہے۔
٭غیر مستطیع معذور لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا جب کبھی وسعت ہو عقیقہ کردے کام چل جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب