سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) سالانہ لگان دینا

  • 17512
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1341

سوال

(186) سالانہ لگان دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے بکر سےایک ہزار روپیہ قرض لے کے بکر کےاطمینان کےلئے اس کےپاس دس بیگھ زمین قابل زراعت گرو رکھ دی روپیہ کی واپسی تک بکر کےواسطے آراضی مرہونہ سے بلا معاوضہ انتفاع کے لئے اس کے پاس  دس بیگھ زمین قابل زراعت گرو رکھ دی روپیہ کی واپسی تک بکر کے واسطے آراضی مرہونہ سےبلامعاوضہ انتفاع صریحی سود ہونے کی وجہ سےناجائز ۔اورزمین پرتی چھوڑ رکھنے پرحکومت کی طرف سے قبضہ کرلینے نیز دیگر فسادات کااندیشہ ہے لہذا لہذا فریقین آپس کی رضامندی سےیہ طے کرتے ہیں کہ بکر آراضی مذکورہ سےاس شرح لگان پرنفع اٹھاتا رہےجس لگان پر زمین یا اس جیسی زمین سےدوسرے لوگ کاشت کرتے اورنفع اٹھاتے ہیں جن سےقرض وغیرہ کاعلاقہ نہین رہتا توبکر کےلئے قرض کےادائے گی تک اس زمین سے اس طرح نفع حاصل کرنا جائزہےیا نہیں؟

2۔حامد نے خالد سے پانچ سورورپیہ قرض لے کر اس کو پانچ پیگھ آراضی اس شرط پردے دی کہ ادائے گی قرض تک دوروپیہ فی بیگھ سالانہ لگان دے کر نفع حاصل کرتے رہو حالاں کہ وہ آراضی چھ روپیہ فی بیگھ سالانہ لگان پر حامد سے دوسرے آدمی جس سےلین دین کاتعلق نہیں لینے کے لئے تیار ہیں۔نیز اورلوگ اسی قسم کی زمین اس  شرح لگان پرٹھاتے رہتے ہیں۔توکیا اس صورت میں خالد کےلئےیہ انتفاع جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوسرے سوال میں زمین مرہونہ سےفائدہ اٹھانےکی جوصورت ذکر کی گئی ہےبلاشبہ ناجائز ہے ۔یہ ظاہ9ر ہےکہ ایک بیگھ زمین میں دوروپیہ سالانہ لگان سےبہت زائد رقم کاغلہ پیدا ہوتاہے اورزائد رقم کےغلہ سےفائدہ اٹھانا کھلاہواسود ہے پس خالد لئےاس زمین مین مرہونہ انتفاع بصورت مذکورہ شرعا ناجائز ہےكل قرض جرمنفعه فهوربا اخرجه البيهقى موقوفا على ابن مسعود وعبدالله بن سلام وابن عباس وفضالة بن عبيد (5/349)ہاں پیداوار سے لگان مذکورہ اورخرچ واخراجات وضع کرلینے کےبعد جس قدر غلہ بچے اس کوقرض میں کرلیا جایا کرے تواس طرح خالد کےلئےزمین مذکورہ سے انتفاع جائز ہوگا۔

عَنْ سَمُرَةَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يَقُولُ: " مَنْ رَهَنَ أَرْضًا بِدَيْنٍ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ يَقْضِي مِنْ ثَمَرَتِهَا مَا فَضَلَ بَعْدَ نَفَقَتِهَا، وَيُقْضَى ذَلِكَ لَهُ مِنَ [حِينِهِ ذَلِكَ] الَّذِي عَلَيْهِ بَعْدَ أَنْ يُحْسَبَ لِصَاحِبِهَا الَّذِي هِيَ عِنْدَهُ عِلْمُهُ وَنَفَقَتُهُ بِالْعَدْلِ» ".

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَسَاتِيرُ.والمناوی فى الجامع الازهر:فى اسناده مساتيروعن طاؤس قال:فى كتاب معاذ بن جبل "من رهن أرضا بدين عليه فإنه يقضي من ثمرتها ما فضل بعد نفقتها يقضي ذلك من دينه الذي عليه بعد أن يحسب لصاحبها الذي هي عنده عمله ونفقته بالعدل". "طب عن سمر "من رهن أرضا بدين عليه فإنه يقضي من ثمرتها ما فضل بعد نفقتها يقضي ذلك من دينه الذي عليه بعد أن يحسب لصاحب الرهن من عام حج النبى صلى الله عليه وسلم اخرجه عبدالرزاق(كنزالعمال 3/228)

 پہلےسوال میں احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ قرض کی ادائےگی تک اس زمین سےبصورت مذکورہ بکر نفع نہ حاصل کرے الایہ کہ زمین کی پیدوار سےبعد وضع اخراجات جوباقی بچے وہ قرض  میں محسوب کرلیاجیساکہ گذر چکا ۔

عام شرح لگان پرنفع اٹھانے کی اجازت دینا بظاہر اس امر پردلالت کرتا ہےکہ قرض رہن کےبعد مرتہن بکر نےراہن زید سےاس زمین گےکرایہ یااجارہ پر لینےکانیا معاملہ کیا اس حیثیت سےبکر کےلئے اس زمین سےانتفاع جائز ہوناچاہئے۔

ابن قدامه المغنى 6/509میں لکھتے ہیں: فَأَمَّا إنْ كَانَ الِانْتِفَاعُ بِعِوَضِ، مِثْلُ إنْ اسْتَأْجَرَ الْمُرْتَهِنُ الدَّارَ مِنْ الرَّاهِنِ بِأُجْرَةِ مِثْلِهَا، مِنْ غَيْر مُحَابَاةٍ، جَازَ فِي الْقَرْضِ وَغَيْرِهِ، لِكَوْنِهِ مَا انْتَفَعَ بِالْقَرْضِ، بَلْ بِالْإِجَارَةِ، وَإِنْ حَابَاهُ فِي ذَلِكَ فَحُكْمُهُ حُكْمُ الِانْتِفَاعِ، بِغَيْرِ عِوَضٍ، لَا يَجُوزُ فِي الْقَرْضِ، وَيَجُوزُ فِي غَيْرِهِ.

اور اگران امور کالحاظ کیاجائےکہ زید نےبکر کوعام شرح لگان پرنفع اٹھانے کے کی اجازت قرض کی وجہ سے دی ہےاورفی الواقع قرض اورہن رکھنے کےوقت ہی اس کی یہ نیت ہوتی ہے اوریہ ہردوحدیث مذکور میں ارض مرہونہ سے انتفاع کی جوصورت بیان کی گئی ہے فریقین کی تجویز کردہ صورت اس کےعلاوہ ہےاوریہ بعض لوگ اپنی زمین عام شرح لگان پر بھی اس شخص کودیتے ہیں جوقر ض میں ان کوایک بڑی رقم دے تو ان امور کامقتضی یہ ہے کہ بکر کےلئے مرہونہ زمین سےبصورت مذکورہ فی السوال نفع اٹھانا جائز نہیں ہوناچاہئے ایسی حالت میں میرے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ بکر ارض مرہونہ سےبصورت مذکورہ فی السوال فائدہ حاصل نہ کرے واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الرہن

صفحہ نمبر 384

محدث فتویٰ

تبصرے