سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) زرعی زمین کا شفعہ زرعی زمین کے ساتھ

  • 17509
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1029

سوال

(183) زرعی زمین کا شفعہ زرعی زمین کے ساتھ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید زرعی زمین یعنی:کھیتی والی زمین کامالک ہے بکر سکنی مکان یعنی:رہائشی زمین کامالک ہےان دونوں کےدرمیان ایک سکنی یعنی:رہائشی زمین فروخت ہورہی ہے۔جوزید زرعی والے نےخریدی ہے ۔بکر زید سےکہتاہےکہ تم زرعی زمین کاشفعہ  زرعی زمین پر کرسکتے ہو سکنی زمین پریہ شفعہ نہیں کرسکتے۔لہذاتم سکنی زمین مجھ کودے دو۔زید انکار کرتا ہے زیدسکنی زمین لے کراس میں کھیتی باڑے کرے گاکیونکہ اس کےپاس پہلے زمین کھیتی والی موجود ہےاس میں شامل کردے گا۔کھیتی باڑی کرنے سےبکر کےمکان کونقصان پہونچے گاکیونکہ اس کےمکان کےساتھ پانی لگے گا۔شریعت میں زمین سکنی مبیعہ میں حق شفعہ کس کوحاصل ہےاورکیا بکر کاقول صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامی میں حق شفعہ ہرجائداد غیر منقولہ میں ہےخواہ وہ باغ یازرعی زمین مکان ہویا افتادہ وسفید زمین نہری ہویاچاہی اورحق شفعہ شریک اورخلیط جس طرح پہونچتا ہےاس طر ح ہمسایہ اورپڑوسی کوبھی ۔ارشاد ہے الجار احق بصقبۃ(نسائی شریف وغیرہ)پس اگر صورت مسؤلہ میں واقعہ اس طرح ہےکہ زید کی زرعی زمین اوربکر کے رہائی مکان یازمین کےدرمیان وہ رہائشی زمین واقع ہے جس کواس کےمالک نےزید ہاتھ فروخت کیا ہےتوزید کوچاہئے کہاس سےرہائشی مبیعہ زمین کانصف حصہ نصف قیمت کےعوض بکرکودیدے اس مبیعہ زمین میں زید اوربکر دونوں کاحق برابر ہے کیوں کہ یہ رہائی زمین کسی تیسرے شخص کےہاتھ فروخت ہوتی تو زید وبکر دونوں کوجوار وہمسایگی کی وجہ سے حق شفہہ پہونچتا اوردونوں اس مشتری سے مبیعہ زمین کولے کر نصف نصف لے کر آپس میں تقسیم کر لیتے۔

پس صورت مسئولہ میں بکر کوشفیع آخر زید سےجوصورت میں مشتری ہے اپنے حق شفعہ کی روسے زمین مبیعہ کانصف حصہ لینے کاحق شرعا حاصل ہےزید کولازم ہےکہ زمین کاآدھا حصہ بکر کےحوالہ کردے بلکہ چوں کہ یہ زمین رہائشی ہونےکی وجہ سےبکر کےرہائی مکان کےمشابہ اورمناسب ہے۔اورزید کےاس کھیت بنالینے کی وجہ سےبکر کےمکان کونقصان پہونچنےکااندیشہ ہےاس لئے اولی اوربہتر یہ ہے کہ یہ زمین پوری بکر دودے دی جائے واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الإجارۃ والشفعۃ

صفحہ نمبر 382

محدث فتویٰ

تبصرے