السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک روپیہ کی چیز اگردس روپیہ تک بیچاجائےتوجائز ہےیانہیں؟اگر جائز ہےتوغبن فاحش نہ ہوگی ؟حدیث رسول اللہﷺ نےکیاثابت ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کی دوصورت ہوسکتی ہے:
ایک :یہ کہ شخص واحد کسی شخص معین کوایک روپیہ کی چیز دس روپیہ میں کبھی اتفاقی طورپردیدے اورباقی دوسرے تاجر اوردوکان دارایسانہ کرتےہوں۔یہ صورت بیع کی مکروہ ہے۔مشتری اگر ضیعف العقل ہو اوراس نےبائع سےعند العقد یہ کہہ دیا ہوکہ دھوکہ نہ دینا لیکن بعد عقد یہ تحقق ہواکہ بائع نےاس کےساتھ وہ چیز غبن فاحش کےساتھ فروخت کی ہےتوشرعا مشتری کوخیار ہوگاكماتدل عليه قصة حبان منقذةاومنقذبن عمروعند الشيخين واصحاب السنن والحميدى والدرقطنى والحاكم والشافعى اوبن الجارود ہاں اگر مشتری اس غبن پراضی ہوجائےتوبائع کےلئےیہ منافعہ بلاکراہت درست ہوگا۔
دوسری صورت :یہ ہے کہ عام دوکاندار وہ اشیاء جوانہوں نےارزانی کےزمانے میں کوڑیوں کےدام خرید ہوں۔اتفاقی طورپرقحط پڑجائے یاجنگ چھڑجانےکی وجہ سےیااورکسی وجہ بلاوجہ معقول پانچ چھ گناچھ گنا دس (محض زرااندوزی کےلئے)دام بڑھا کر فروخت کریں جس سے ساری مخلوق پریشان ہواوبھوکوں مرری ہوجیساکہ آج کل ہورہا ہے۔یہ صورت بیع کی بھی میری ناقص رائےمیں مکروہ ہےاسلام نےانفرادی فائدہ پراجتماعی مصلحت کومقدم کیا ہے۔لقی الرکبان بیع حاضر للبادی احتکار کی ممانعتوں کی علت پرغور کیجئے۔ایسی حالت میں میرے نزدیک تسعیر درست اورحنفیہ ومالکیہ کافتوی صحیح ہے۔
قال فى الدر المختار:ولايسعر حاكم الااذاتعدى الارباب عن القيمة تعديافاحشا فيسعر بمشورة واهل الرائ
وقال مالك :على الوالى الى التسعير عند الغلاء(محلى)
ولايسعر بالاجماع الااذاكان ارباب الطعام يتحملون ويتعدون عن القيمة عجز القاضى عن صيانة حقوق المسلمين الابالتسعير فلاباس به بمشورة واهل الراى اوالبصر هوالمختار وبه يفتى كذا الفصول العمادية(عالكيرى)
جس حديث(انس ابى داود والترمذى وابن حاجه واحمد والدارمى والبزار وابى يعلى ابوهريرة عند احمد وابى داود ابوسعيد عند ابن ماجه والبزار والطبرانى وعلى عندالبزار وابن عباس عند الطبرانى فى الصغير وابوجحفة عند الطبرانى فى الكبير)سے تعسیر کی ممانعت ثابت ہوتی ہےاس کامحمل اورہے كما لايخفى على من له ادنى المام بفقة الحديث
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب