سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) سود کی رقم بطور ٹیکس حکومت کو دینا

  • 17493
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1196

سوال

(167) سود کی رقم بطور ٹیکس حکومت کو دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض کیجئے بیمہ کاکاروبار حکومت کےہاتھ میں ہےایک شخص بیمہ پالیسی خریدتا ہےاورمیعاد معین کےبعد اصل مع سود کےوصول کرتاہےلیکن:

(الف)سود کی کل رقم بصورت ٹیکس وچندہ خود حکومت کودے دیتا ہے۔      

(ب)ايسے کاموں میں لگادیتاہے جن کاانجام دینا خود حکومت کےذمہ ہوتا ہےمگر وہ لاپرواہی یاکسی دشواری کی وجہ سےانہیں انجام دیتی مثلا :کسی جگہ پل یاراستہ بنانا کسی تعلیی ادارے کوامدادیناکنواں کھدوانایانل لگوان وغیرہ جہاں یہ امورقانونا حکومت کےذمہ ہوں۔

(ج)ایسے کاموں میں صرف کرتا ہےجوقانون حکومت کےذمہ نہیں ہوتے بلکہ عام طور پر رعایا یا ان کےبارے میں حکومت کی امداد چاہتی ہےاورحکومت بھی ان کی خواہش کومذموم نہیں سمجھتی بلکہ بعض اوقات امداد کرتی ہے مثلا :کسی جگہ کت خانہ کھول دینا وغیرہ ۔

توکیا مندرجہ بالاصولوں میں اس شخص کےلئے بیمہ پالیسی کی خریداری جائز ہوگی اوراسے ربوالینے کاگنا تونہ ہوگا؟

نوٹ:مندرجہ بالاصولوں میں (الف ب ج) کےاحکام میں اگر فرق ہےتواسے واضح فرمایا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بغیر سخت مجبوری واضطراری حالت کےجس کی تفصیل نمبر:6میں گذرچکی ہےمسلمانوں کےلئے سرکاری بیمہ کمپنی سےبھی بیمہ پالیسی خریدنا ناجائز نہیں ہے اگر غیر اضطراری حالت میں بیمہ پالیسی خریدے گااوراصل کےساتھ سودوصول کرےگا توربوی معاملہ وکاربار میں امداد تعاون کااورربوا لینے کاگنہگار ضروری ہوگا اگر یہ سود کی رقم ............. میں بیان کردہ کاموں میں خرچ کردے۔

البتہ نمبر:6میں مبینہ اضطراری حالت میں بیمہ پالیسی خریدی ہےتواضطراری کیوجہ سےتعاون علی الاثم کےجرم میں مواخذہ نہ ہوگا لیکن خاص اس صورت میں سود کی رقم وصول کرکے.... میں بینان کردہ جگہ میں صرف کردے یعنی :سود کی وصول کردہ رقم ان ٹیکسوں اورچندوں کی صورت میں جوغیر شرعی ہوں خود حکومت کودے۔اس صورت میں انشاءاللہ سودلینے کاگناہ گناہ نہ ہوگا اس کےعلاوہ (ب) اور(ج)میں مذکورہ کسی امر میں بھی سود رقم صرف نہ کرے پل راستہ بنوانے کنواں کھدوانےنل لگوادینے کسی بھی تعلیمی ادارے کودے دینے لائبری کھولنےوغیرہ رفاہ عام کےکاموں میں صرف کرنا اس لئے ٹھیک نہیں کہ بیمہ پالیسی خرید کرسود وصول کرنے واالاخورد بھی اوردوسرے مسلمانوں بھی ان سب چیزوں سےفائدہ اٹھائیں گےاورخود اس کےلئے اوردوسرے مسلمانوں کےلئے ان چیزوں سے اجتناب  واحتراز مشکل ہوگااورکسی بھی مسلمان کےلئے بغیر اضطرار شرعی کےسود رقم بالواسطہ یابلاواسطہ انتقاع درست نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 356

محدث فتویٰ

تبصرے