سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) معاملہ تلف ہونے کی صورت میں بیمہ کا جواز

  • 17487
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 879

سوال

(161) معاملہ تلف ہونے کی صورت میں بیمہ کا جواز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگریہ قمار یاغرر ہےتوکیامصالح مذکورہ کےپیش نظر اسے اندازہ کرکے اس معاملہ کےجواز کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟اوراگر نکل سکتی ہےتوکیسی؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیمہ کےمعاملہ میں غرر بھی ہے۔غرر بھی وہ جوقلیل ویسیر اورمعمولی نہیں جوشرعا معفوعنہ ہوتا ہے بلکہ کثیر وعظیم غیر معفوعنہ ہے۔

غرر منہی عنہ کی یہ تعریف کی گئی ہے:ماشک فى حصول احد عوضيه والمقصود منه غالبا وقيل :هوماانطوت عنا عاقبه وقيل :مان له ظاهر يغرالمشترى وباطن مجهول يعرفه البائع وقيل ماله ظاهريوثره وباطن يكرمه

عوضین یا ان میں کوئی ایک مجہول الصفہ ہویا مجہول الاجل یاغیرمقدور التسلیم ہویا غیرموجود ہویاغیر معلوم المقدور ہویا یہ تمام صورتیں غرر کی ہیں اورفساد معاملہ کےلئے کافی۔بیمہ میں اگرچہ بیمہ کی مجموعی رقم کی مقدار متعین ہوتی ہےمگر بیمہ دار اورکمپنی میں سےکسی کونہیں معلوم کہ بیمہ دار کب تک زندہ رہےگا؟اوراس بیمہ شدہ جائدادیاجانور کب تک محفوظ وزندہ رہے گا؟اوربیمہ9 کی کتنی قسطیں اداکرسکے گا؟اورکمپنی کوفی الواقع کتنی قسطیں ملیں گی؟اوراسے کب سےکتنی رقم بیمہ دار کودینی پڑے گی؟ اس طرح عوضین عند العقدباوجودبیمہ کی رقم کےمتعین ہونے کےمجہول المقدار والاجل ہوتے ہیں بلکہ غیرثابت وغیرہ متحقق الوجود ہوتے ہیں لہذا بیمہ غرر کثیر غیر معفوعنہ کاتحقق ظاہر ہےبیمہ میں قمار غرر ہوتے ہوئے بھی اس کےجواز کی گنجائش نکل سکتی ہے وہ نمبر:2میں عرض کردی گئی ہے۔

تنبیہ:

بیمہ پالیسی میں ایک اورشرعی قباحت بھی ہے اوروہ یہ کہ :بیمہ پالیسی خریدنے والامقرر میعاد کےاندر مرجائے یااس کےبعد مرے بہر صورت کمپنی کی طرف سےملنے والی رقم کی حیثیت شرعا میت کی میراث اورترکےکی وجہ ہے جس حسب فرائض شرعی وارتوں میں تقسیم ہوناچاہیے مگریہ رقم ترکے کی حیثیت سےتقسیم شرعا میت کی میراث اورترکے کی ہےجسے حسب فرائض شرعی وارتوں میں تقسیم ہونا چاہیے مگر یہ رقم ترکے کی حیثیت سے تقسیم نہیں کاجاتی بلکہ اس شخص یا اشخاص کومل جاتی ہےجن کےلئے بیمہ دار نےوصیت کی ہوں حالاں کہ وارث کےحق میں شرعا وصیت ہی نہیں کی جاسکتی۔لاوصیہ لوارث(حدیث)نیزبجائے شرعی وارثوں کےحسب وصیت صرف قانونی وارثوں کوملتی ہے نیز ایسا بھی ہوسکتا ہےکہ بیمہ کی کل رقم اس کے ثلث مال سےزائد اورثلث سےزائد کی وصیت کرنا شرعا درست نہیں ہے ۔الاان یشاءالورثہ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 351

محدث فتویٰ

تبصرے