سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) کیا خاوند کا اپنی کفالت سے بیوی کو بری کرنا، طلاق سمجھا جائے گا؟

  • 17458
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 873

سوال

(132) کیا خاوند کا اپنی کفالت سے بیوی کو بری کرنا، طلاق سمجھا جائے گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید مجذوم ہےکمانےدھمانے کے لائق نہیں ہے۔اس بےبسی اور مجبوری کی وجہ سےاپنی عورت ہندہ کواجازت دے دے کہ میں اب تمہار نان نفقہ کاکفیل نہیں ہوسکتا۔تم اپنے گزر کی  کوئی صورت کرلو۔زید دوسال سےاس کی ہم بستری سےعلیحدہ ہے۔ ہندہ مجبور ہوکر کبھی میکہ میں اور کبھی ناطاقت شوہر کےگھر محنت مزوری کرے گزر کرتی تھی بلا تعلق شوہر کےچٔوں کہ ہندہ جوان ہےعمر کےگھر ٹھکانہ کرلیا ہے جہاں احتمال زنا کاہے۔عمر ہندہ سےنکاح کرناچاہتا ہے پس کیازید کےقول مذکور سے  سےہندہ مطلقہ ہوگئی؟اگر مطلقہ ہوگئی ہےتو کیا اس کی عدت بھی پوری ہوگئی؟کیوں کہ زید کی طرف سےاجازت ملے ہوئےعرصہ گزرگیا اوراگر زید کےقول مذکور سےہندہ پر طلاق نہیں واقع ہوئی تومجذوم تنگ دست غیر مستطیع شوہر کےنکاح سے ہندہ کی گلوخلاصی کی کیاصورت ہے؟عورت کاموجودہ دلی صرف اس کاچچا ہےجس نے نکاح کی اجازت دے دی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں خط کشیدہ فقرہ کنائی ہے اگر زید نے ان الفاظ کےذریعہ ہندہ کواپنی زوجیت سےخارج کرنے اوردوسرے شخص سےنکاح کرکے گزر کی صورت پیدا کرنے کی اجازت دی تھی اورطلاق دینے کی نیب کی تھی یایہ الفاظ بوقت مذاکرہ طلاق کےکہا تھا توہندہ پر ایک طلاق واقع ہوگئی ۔اگر اس فقرہ  کےبعد ہندہ کوتین حیض آچکے ہیں تو اس کی عدت بھی پوری ہوگئی وإبتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها (ہدایہ) اوراگر زید نے ان الفاظ سےطلاق دینےکی نیت نہیں کی تھی۔اورنہ یہ الفاظ بوقت مذاکرہ طلاق کہے تھےتو ہند ہ مطلقہ نہیں ہوئی۔اس صورت میں اوراگر زید نے ان الفاظ سے طلاق دینے کی نیت نہیں کی تھی۔ اورنہ یہ الفاظ بوقت مذاکرہ طلاق کہےتھےتو ہند مطلقہ  نہیں ہوئی۔اس صورت میں اوراگر زید فقرہ نہ بولتا تب بھی ہند ہ کوشرعا دوسبب سےنکاح فسخ کرانے کاحق حاصل ہے:

پہلا سبب:جب شوہر اپنی محتاجی وتنگ دستی  اور بے بسی ومجبوری کی وجہ سے اپنی بیوی کےنان نفقہ  پر قدرت نہ رکھے توعورت کوبذریعہ حاکم یاسردار یاپنچ نکاح فسخ کرانے کااختیار حاصل ہےارشاد ہے وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا(البقرہ:229)عن ابى هريرة ان النبى  صلى الله عليه وسلم سئل فى الرجل لايجد ماينفق على أهله قال يفرق بينهما(دارقطنى) وعن سعيد بن المسيب فى الرجل لايجد ماينفق على اهله؟ قال يفرق بينهما أخرجه سعيد بن منصور الشافعى وعبدالرزاق عن سفيان عن ابى الزناد عنه قال ابو الزناد:قلت لسعيد بن المسيب :سنة؟قال سنة وهذا مرسل قوى

يہی مذہب ہےحضرت عمروحضرت علی وحضرت ابوہریرہ حسن بصری اورامام مالک وامام شافعی وامام احمد اور ظاہریہ کا۔

دوسرا سبب:زید کو جذام کی بیماری ہوگئی ہےاوربعد النکاح شوہر کےمجذوم یامجنون یامبرص یامجنون ہوجانےکی صورت میں بھی اگر عورت شوہر کےساتھ نہ رہنا چاہے تواس کو نکاح فسخ کرانے کاحق حاصل ہے  وإن حدث العيب بعد العقد فيه وجهان (أحدهما) يثبت الخيار وهو ظاهر قول الخرقي لأنه قال فإن جب قبل الدخول فلها الخيار في وقتها لأنه عيب في النكاح يثبت الخيار مقارناً فأثبته كالإعسار والرق فإنه يثبت الخيار إذا قارن مثل أن تغز الأمة من عبد ويثبته إذا طرأت الحرية إذا عتقت الأمة تحت العبد ولأنه عقد على منفعة فحدوث العيب بها يثبت الخيار كالاجاة (والثاني) لا يثبت الخيار وهو قول أبي بكر وابن حامد ومذهب مالك لأنه عيب حدث بالمعقود عليه بعد لزوم العقد أشبه الحادث بالمبيع والصحيح الأول وهذا ينتقض بالعيب الحادث في الإجارة، وقال أصحاب الشافعي إن حدث بالزوج أثبت الخيار وإن حدث بالمرأة فكذلك في أحسد الوجهين ولا يثبته في الآخر لأن الرجل يمكنه طلاقها بخلاف المرأة.

ولنا أنهما تساويا فيما إذا كان العيب سابقاً فتساويا فيه لا حقا كالمتبايعين(الشرح الکبير على متن المقنع وكذا فى المغنى 60/10)

واضح ہوکہ ہندہ قانون انفساخ نکاح مسلم 1939کےماتحت بذریعہ عدالت بھی نکاح کراسکتی ہے ۔نکاح فسخ کراکر عدت گزار لینے کےبعد اس کاولی یعنی چچا دوسری جگہ اس کانکاح کردے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 274

محدث فتویٰ

تبصرے