سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) ایک وقت میں تین طلاقیں دینا

  • 17449
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 962

سوال

(123) ایک وقت میں تین طلاقیں دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسلمان نےجس کی شادی ایک مقلد اہل السنت والجماعت حنفی عورت سے ہوئی ہے۔ایک وقت اورایک جلسہ میں بحالت غصہ بالاعلان تین باریوں کہا کہ : اے فلاں میں تجھ کو طلاق دیتاہوں اب بعد میں وہ اپنے کو غیر مقلد اہل حدیث کہتا ہے اورجوع کرنا چاہتا ہے اس بناپر کہ یہ تین طلاقیں ایک شمار ہوگی اورجعی ۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ تین طلاق بائن ہوئی یا ایک رجعی؟

نوٹ :اس مرد طلاق دہندہ کے باپ غیر مقلد تھے جن کاانتقال اس کےایام طفولیت میں ہوگیا اورماں نےپرورش کیاجو حنفی المذہب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق دہندہ جیسا کہ اب اپنے اہل حدیث کہتا ہے اورسمجھتا ہے اگر اس واقعہ کےظہور سے پہلے بھی اہل حدیث تھا اور لوگ اس کو اہل حدیث سمجھتے تھے۔باپ کےاہل حدیث ہونےکی وجہ سے یاخود اس کےاپنےاہل حدیث ہونے کاعمل اورعقیدہ رکھنے کی وجہ سےتوبلاشبہ اس کورکوع کرنےکاحق ہے۔بیوی یاماں کامقلد ہونااس کو پنے اس شرعی  حق کے استعمال سےمانع نہیں ہوسکتا۔لان الحق احق ان يتبع واذا نهر الله بطل معقل

اوراگر وہ اس سےپہلے مقلد تھا اور اب اس واقعہ کی وجہ سےمحض رجوع کرنےکی خاطر اپنے کو اہل حدیث سمجھنے اورکہلوانےلگا ہے تو مجھے اس کو ایسی حالت میں رجوع کے جواز کافتوی دینے میں تامل ہے۔میں ایسے شخص کلیے رجوع کاحق نہیں سمجھتا۔قال  الترمذی بَابُ مَا جَاءَ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ(487/3) وَذُكِرَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلاَقِ أَنَّهُ لاَ يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الفُقَهَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا القَوْلَ حَقَّا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ، فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا، فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ، فَلاَ أَرَى لَهُ ذَلِكَ. اس کایہ مطلب  نہیں سمجھنا چاہیے کہ حنفی سے شافعی ہوجانایاحنفی سےاہل حدیث ہوجانا ناجائز ہے یہاں مذہب کی تبدیلی بیوی کی خاطر یعنی محض ایک نفسانی غرض سےہوئی ہے مذہب اہل حدیث کوحق وصواب جان کرنہیں ہوئی ۔مولوی انوشاہ مرحوم لکھتے ہیں: ثم ما في كُتُب الفقه أنّ الرجوع عن التقليد بعد العمل غيرُ جائز، ليس معناه ما فهمه بعض القاصرين أنه لا يجوز كون الشافعي حنفيًا أو بالعكس. وكذا ليس معناه عدم جواز ترك تحقيق بعد سُنُوح تحقيق آخر خلافه، لأنه يجوز التحوُّل من مذهب إمام إلى مذهب إمام آخر إن بدا له ودعته حاجة. وكذا يجوز للمجتهد أن يترك تحقيقه ويختار الجانب الآخر إن رأى فيه الصواب، فإِن الشافعي رحمه الله تعالى كان قائلًا بعدم وجوب الفاتحة على المقتدي في الجهرية، ثم رجع عنه واختار وجوبها قبل وفاته بسنتين. فهذا أيضًا جائز، بل معناه أنه إن اختار تحقيقًا في مسألة ثم عمل عملًا لم يكن صحيحًا على هذا التحقيق، وأراد أن يطلب له صورة الصحة فقال: إني أختار تحقيقًا آخر في تلك المسألة بعينها، تصحيحًا لعمله، فإِنه لا يجوز. الی آخر ماقال(فيض البارى 353/1)

مصباح

ج:2۔صورت مذکورہ میں اگر میاں اور بیوی دنوں مسلکا اہل حدیث ہیں تو طلاق کی تعداد کےبارے میں ان کے درمیان اختلاف کاکوئی فائدہ اور نتیجہ نہیں۔شوہر نےدوطلاقیں دی ہویاتیں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ۔شوہر کو عدت کےاندر رجعت کااختیار اورحق حاصل ہے اور اگر میاں بیوی دونوں مسلکا اہل حدیث نہیں ہیں بلکہ ائمہ اربع میں سے کسی بھی امام کے مقلد ہیں تو اس صورت میں فیصلہ خاوند کےحق میں ہوگا بیوی تین طلاق کی مدعی ہےاس طرح وہ نتیجہ حرمت غلیظہ کی مدعی ہوگئی ہے اورشوہر اس کامنکر ہے اورعورت کےپاس اس دعوے کے ثبوت میں شرعی شہادت موجود نہیں ہےپس شوہر کی بات اس قسم کے کے ساتھ شرعامعتبر ہوگی اور اس  کےحق میں فیصلہ ہوگا۔

ابن قدامہ لکھتے ہیں:

فَصْلٌ: إذَا ادَّعَتْ الْمَرْأَةُ أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا فَأَنْكَرَهَا فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ؛ لِأَنَّ الْأَصْلَ بَقَاءُ النِّكَاحِ وَعَدَمُ الطَّلَاقِ إلَّا أَنْ يَكُونَ لَهَا بِمَا ادَّعَتْهُ بَيِّنَةٌ وَلَا يُقْبَلُ فِيهِ إلَّا عَدْلَانِ وَنَقَلَ ابْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَحْمَدَ أَنَّهُ سُئِلَ: أَتَجُوزُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي الطَّلَاقِ؟ قَالَ: لَا وَاَللَّهِ إنَّمَا كَانَ كَذَلِكَ لِأَنَّ الطَّلَاقَ لَيْسَ بِمَالٍ، وَلَا الْمَقْصُودُ مِنْهُ الْمَالُ وَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرِّجَالُ فِي غَالِبِ الْأَحْوَالِ فَلَمْ يُقْبَلْ فِيهِ إلَّا عَدْلَانِ كَالْحُدُودِ وَالْقِصَاصِ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ فَهَلْ يُسْتَحْلَفُ؟ فِيهِ رِوَايَتَانِ؛ نَقَلَ أَبُو الْخَطَّابِ أَنَّهُ يُسْتَحْلَفُ وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِقَوْلِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «وَلَكِنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ» وَقَوْلُهُ: «الْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ» وَلِأَنَّهُ يَصِحُّ مِنْ الزَّوْجِ بَذْلُهُ فَيُسْتَحْلَفُ فِيهِ كَالْمَهْرِ

وَنَقَلَ أَبُو طَالِبٍ عَنْهُ: لَا يُسْتَحْلَفُ فِي الطَّلَاقِ وَالنِّكَاحِ؛ لِأَنَّهُ لَا يُقْضَى فِيهِ بِالنُّكُولِ فَلَا يُسْتَحْلَفُ فِيهِ كَالنِّكَاحِ إذَا ادَّعَى زَوْجِيَّتَهَا فَأَنْكَرَتْهُ، وَإِنْ اخْتَلَفَا فِي عَدَدِ الطَّلَاقِ فَالْقَوْلُ قَوْلُهُ؛ لِمَا ذَكَرْنَاهُ فَإِذَا طَلَّقَ ثَلَاثًا وَسَمِعَتْ ذَلِكَ وَأَنْكَرَ أَوْ ثَبَتَ ذَلِكَ عِنْدَهَا بِقَوْلِ عَدْلَيْنِ لَمْ يَحِلَّ لَهَا تَمْكِينُهُ مِنْ نَفْسِهَا وَعَلَيْهَا أَنْ تَفِرَّ مِنْهُ مَا اسْتَطَاعَتْ وَتَمْتَنِعَ مِنْهُ إذَا أَرَادَهَا وَتَفْتَدِيَ مِنْهُ إنْ قَدَرَتْ قَالَ أَحْمَدُ: لَا يَسَعُهَا أَنْ تُقِيمَ مَعَهُ وَقَالَ أَيْضًا: تَفْتَدِي مِنْهُ بِمَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَإِنْ أُجْبِرَتْ عَلَى ذَلِكَ فَلَا تَزَّيَّنُ لَهُ وَلَا تُقِرُّ بِهِ وَتَهْرُبُ إنْ قَدَرَتْ وَإِنْ شَهِدَ عِنْدَهَا عَدْلَانِ غَيْرُ مُتَّهَمَيْنِ فَلَا تُقِيمُ مَعَهُ وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ

قَالَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَابْنُ سِيرِينَ: تَفِرُّ مِنْهُ مَا اسْتَطَاعَتْ وَتَفْتَدِي مِنْهُ بِكُلِّ مَا يُمْكِنُ وَقَالَ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَبُو يُوسُفَ وَأَبُو عُبَيْدٍ: تَفِرُّ مِنْهُ وَقَالَ مَالِكٌ: لَا تَتَزَيَّنُ لَهُ وَلَا تُبْدِي لَهُ شَيْئًا مِنْ شَعْرِهَا وَلَا عَرِيَّتِهَا وَلَا يُصِيبُهَا إلَّا وَهِيَ مُكْرَهَةٌ، وَرُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ وَالزُّهْرِيِّ وَالنَّخَعِيِّ يُسْتَحْلَفُ ثُمَّ يَكُونُ الْإِثْمُ عَلَيْهِ وَالصَّحِيحُ مَا قَالَهُ الْأَوَّلُونَ؛ لِأَنَّ هَذِهِ تَعْلَمُ أَنَّهَا أَجْنَبِيَّةٌ مِنْهُ مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِ فَوَجَبَ عَلَيْهَا الِامْتِنَاعُ وَالْفِرَارُ مِنْهُ كَسَائِرِ الْأَجْنَبِيَّاتِ انتهي مختصرا(المغنى529/1)والله اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 267

محدث فتویٰ

تبصرے