سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) ترمذی کی حدیث کی تشریح

  • 17432
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2063

سوال

(106) ترمذی کی حدیث کی تشریح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام ترمذی بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ میں علی بن طلق کی حدیث روایت کرنےکےبعدفرماتے ہیں:  وسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ لَا أَعْرِفُ لِعَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الحَدِيثِ الوَاحِدِ، وَلَا أَعْرِفُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ السُّحَيْمِيِّ» وَكَأَنَّهُ رَأَى أَنَّ هَذَا رَجُلٌ آخَرُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

حضرت علامہ مبارکپوری شرح ترمذی205/2 وَلَا أَعْرِفُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ السُّحَيْمِيِّ» كَذَا وَقَعَ فِي النُّسَخِ الْحَاضِرَةِ طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ السُّحَيْمِيُّ وقد ذكر الحافظ بن حَجَرٍ عِبَارَةَ التِّرْمِذِيِّ هَذِهِ فِي تَهْذِيبِ التَّهْذِيبِ وفِيهِ عَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ السُّحَيْمِيُّ وَهُوَ الظَّاهِرُ عِنْدِي وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

شبہ یہ ہے کہ اگر تہذیب التہذیب میں جوواقع ہےاگر یہی صحیح ہےتوامام ترمذی کےقول وکانہ رای ان ہذ رجل آخر کی کیا توجیہ ہوگی؟اس تقدیر پرتویہ قول غلط ہوجاتا ہے۔حضرت علامہ تشریح نہیں فرمائی اورسرسری طور سےگذرگئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل جواب سےپہلے چند امور کی تحقیق ضروری ہےاس سے جواب کےسمجھنے میں مدد ملےگی پس بغور ملاحظہ فرمائیے:

(1)باب کی یہ مبحوث عنہ حدیث سنن ومعاجم ومسانید وغیرہ کتب حدیث میں صرف علی بن طلق کےنام مروی ہے یاطلق بن علی کےنام سےبھی کسی محدث نےروایت اوراس کی تخریج کی ہے؟

واضح ہوکہ یہ حدیث دونوں ناموں سےمروی ہےچانچہ مسند احمد(کما فی المنتقی وابن کثیر)ابوداو ترمذی نسائی دارمی بیہقی ابن حبان ابن جریر میں تویہ براویت علی بن طلق مذکور ہے اورااصابہ  میں حافظ ذیل کی عبارت سےمعلوم ہوتاکہ بعض مخرجین نےاس حدیث کوطلق بن علی کےنام سےروایت کیا ہے  وخالفہ معمر عن عاصم  فقال طلق بن علی ولم یشک وکذا قال ابونعیم عن عبدالمالک بن سلام عن عیسی بن حطان انتہی بقدر الضرورۃ وسنذکر تمام کلامہ فیما یاتی فانتظر اورحافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ورواہ عبدالرزاق عن معمر عن عاصم الاحول عن عیسی بن حطان عن مسلم بن سلام طلق بن علی  انتھی

اورعلامہ امیر یمانی سبل السلام لکھتے ہیں رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ (اى حديث ابى هريرة المخرج فى ابى داود والنسائي فى منع اتيان فى ادبارهن)بِلَفْظِهِ مِنْ طُرُقٍ كَثِيرَةٍ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ مِنْهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَعُمَرُ، وَخُزَيْمَةُ، وَعَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ، وَطَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ، وَابْنُ مَسْعُودٍ

(2)على بن طلق اور طلق بن علی دونوں ایک ذات یعنی:ایک صحابی کےنام ہیں یادوکے؟اس امر میں ارباب رجال مختلف ہیں۔

بعض کاخیال ہےکہ دونوں کامصداق ذات واحد اورشخص واحد ہےاصل نام علی بن طالب ہےجن سےحدیث مذکور احمد ابوادود ترمذی نسائی بیہقی ابن حبان میں علی بن طالب کےنام سےمروی ہےاورجن کتابوں  میں مخرج حدیث کانام بجائے علی بن طلق کےطلق بن علی آگیا ہے اس میں قلب ہوگیا ہےکہ کسی راوی نےسہواعلی بن طلق کےبجائے طلق بن علی کہہ دیا ہےاوراس طرح قلب مستبعد نہیں ہے۔ ابن الجوزی تلقیح مخلوط ص:104میں من اسمہ علی کےعنوان کےتحت لکھتےہیں علی بن طلق بن المنذر قال البرقی :وبعض الناس یری انہ طلق بن علی انتھی.

امام ترمذی کامیلان اتحاد کی طرف معلوم ہوتاہے اوربقول امیریمانی امام احمداوربخاری کامیلان بھی اتحاد کی طرف ہے سبل السلام میں ہے مال احمد والبخاری الی انہ علی بن طلق طلق بن علی اسم الذت واحدۃ انتہی لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ امیر نےان دونوں اماموں کایہ میلان ان کےکسی کلام سےسمجہا؟ بہرکیف بعض ارباب رجال وسیر کاخیال کہ طلق بن علی نام کاکوئی الگ دوسرا صحابی نہیں ہے۔

اوراکثر لوگوں کاخیال ہےکہ علی بن طلق اورطلق بن علی دونوں صحابیوں کانام ہیں اوردونو ں سے ایک ذات مراد نہیں ہے اصابہ استیعاب اسدالغابہ تجرید اسماء الصحابہ تہذیب خلاصہ تقریب وغیرہ سےیہی بات ثابت ہے۔

پھر اس گروہ میں اختلاف ہےاس امر کےاندر کہ طلق بن علی علی بن طلق بن المنذر کےبیٹے ہیں یا ان سےاجنبی اوران کےغیر قربتدار کوئی دوسرے صحابی ہیں۔عسکری کاجزم اورابن عبد البرکاظن جس کاحافظ تقویت کی ہے)یہ ہےکہ طلق بن علی علی بن طلق کےبیٹے ہیں (تہذیب)

اوربعض کاخیال یہ ہےکہ دونوں میں ابوۃوبنوہ کارشتہ نہیں ہے بلکہ دونوں کوایک دوسرے سےکوئی قرابت ہی نہیں  ہے۔جن ارباب رجال نےطلق بن علی اورعلی بن طلق کودوصحابی قراردیا ہےان میں بعض کامیلان اس طرف ہےکہ جن کتابوں میں حدیث مبحوث عنہ طلق بن علی کےنام سے مروی ہے۔اس میں طلق بن علی کےبجائے علی بن طلق ہوناچاہئے ۔کیوں کہ یہ حدیث علی بن طلق کے مسندات سےہے۔طلق بن علی کےمسندات سےنہیں ہے۔یعنی یہ حدیث طلق بن علی سےمروی نہیں ہے۔چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں ورواہ عبدالرازق عن معمر عن عاصم الاحول عن عیسی بن حطان  عن مسلم بن سلام عن طلق بن علی والاشبہ انہ علی بن طلق کماتقدم واللہ اعلم اور ابن الاثیر کی مندرجہ ذیل عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے:

ورواه ابراهيم عن عبدالمالك بن مسلم عن عيسى بن حطان عن مسلم عن على بن طلق وكذلك رواه عبدالرازق عن معمر عن عاصم اخرجه ابوموسى(اسد الغابه)

ميرے نزدیک راجح یہ ہے کہ علی بن طلق اورطلق بن علی دوصحابی ہیں اورعلی بن طلق کےوالد ہیں ۔اوریہ حدیث علی بن طلق کےمسندات سےے ہے نہ طلق بن علی کےاورجس کتاب میں اس حدیث کامخرج طلق بن علی لکھا ہےوہ راوی کی غلطی ہے واللہ اعلم

(3) مسند احمد میں یہ حدیث علی بن ابی طالب سےمروی ہےیاعلی بن طلق سے؟یہ بھی مختلف فیہ امرہے:

علامہ ہثیمی کےصنیع سےیہ معلوم ہوتا ہےکہ ان کےنزدیک مسند میں یہ حدیث علی ابن ابی طالب سےمروی ہےچنانچہ مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں۔

وَعَنْ عَلِيٍّ - يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ - قَالَ: «جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَكُونُ بِالْبَادِيَةِ وَتَكُونُ مِنْ أَحَدِنَا الرُّوَيْحَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحِي مِنَ الْحَقِّ، إِذَا فَعَلَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَتَوَضَّأْ، وَلَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَعْجَازِهِنَّ "، وَقَالَ مَرَّةً: " فِي أَدْبَارِهِنَّ» ".

رَوَاهُ أَحْمَدُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ فِي السُّنَنِ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ الْحَنَفِيِّ، وَقَدْ تَقَدَّمَ حَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَبْلَهُ كَمَا تَرَاهُ. وَاللَّهُ أَعْلَمُ. وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ الخ

اور علی متقی کاخیال بھی یہی معلوم ہوتاہےچنانچہ کنزالعمال میں حضرت عمروعثمان کےمسانید ذکر کرکے عن علی کےساتھ حدیث مذکور کی ابتداکی ہے اورآخر میں لکھا ہے احمد فی مسنده والعدنى ورجاله ثقات انتهى پھر میں یہ مفصل راویت علی بن طلق سےذکر کرکےصرف ابن جریر کاحوالہ دیا ہے۔معلوم ہواکہ ان کےنزدیک مسنداحمد میں علی بن طلق سےمروی نہیں ہے بلکہ علی بن ابی طالب سےمروی ہے۔

یہ مطول روایت مسند احمد میں مسندات علی بن ابی طالب میں بسند ذیل مذکور ہے:

حدثنا عبداللہ حدثنی ابى وكيع حدثنا عبدالمالك بن مسلم الحنفى عن ابيه عن على رضى الله عنه انه قال:جاءاعرابى الى النبى صلى الله عليه وسلم الخ

اس معلوم ہوتا ہےکہ امام احمد اور ان کےبیٹے کےنزدیک یہ حدیث علی بن ابی طالب سےمردی ہے۔نہ علی بن طلق سےاوراس کوترجیح دی ہے علامہ احمدمحمد شاکر نے مسند میں بخلاف امام ترمذی اورابن کثیر وغیرہ کے کہ ان کےنزدیک اس کےراوی علی بن طلق ہیں نہ ابن ابی طالب اورحافظ ابن کثیر کاخیال یہ ہےے کہ یہ حدیث مسند احمد میں علی بن طلق سےمروی ہےنہ علی بن ابی طالب سےچنانچہ لکھتےہیں:

حدثنا عبد الرزاق أخبرنا سفيان عن عاصم عن عيسى بن حطان عن مسلم بن سلام عن علي بن طلق قال: نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن يؤتى النساء في أدبارهن، فإن الله لا يستحي من الحق، وأخرجه أحمد أيضا عن أبي معاوية، وأبو عيسى الترمذي من طريق أبي معاوية، عن عاصم الأحول، به، وفيه زيادة، وقال: هو حديث حسن. ومن الناس من يورد هذا الحديث في مسند علي بن أبي طالب، كما وقع في مسند الإمام أحمد بن حنبل، والصحيح أنه علي بن طلق الخ اور منتقی سے معلوم ہوتاہےکہ یہ حدیث مجدالدین ابن تیمیہ کےنزدیک علی بن ابی طالب اورعلی بن طلق دونوں سےمروی ہےچنانچہ:باب الهىى عن اتيان المراة فى دبرها میں ابن تیمیہ نے اس مضمون کی حدیث دونوں سےبحوالہ مسند ذکر کی ہے ۔میرے نزدیک راجح یہ ہےکہ حدیث مسند احمد میں صرف علی بن طلق سےمروی ہے۔

(4)طلق بن یزیدیایزیدبن طلق بھی کوئی صحابی ہیں جن سےیہ حدیث مروی ہے ان کاترجمہ اصابہ اسدالغابہ تجرید اسماء الصحابہ اورتلقیح میں مذکور ہے۔اورامام احمد وغیرہ نےحدیث مبحوث عنہ ان سےبھی روایت کی ہے لیکن راجح یہ ہےکہ اس حدیث کےراوی علی ابن طلق ہیں حافظ ابن کثیر لکھتےہیں:

حَدَّثَنَا غُنْدَر وَمُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِيسَى بن حطان، عن مسلم بن سلام، عن طَلْقِ بْنِ يَزِيدَ -أَوْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ -عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَسْتَاهِهِنَّ"  .

وَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ. وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِيسَى بْنِ حِطَّانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، وَالْأَشْبَهُ أَنَّهُ عَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ، كَمَا تَقَدَّمَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

اورابن حجر اصابہ میں لکھتے ہیں: عن طلق بن يزيد أو يزيد بن طلق، عن النّبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم، قال: «إنّ اللَّه لا يستحي من الحقّ، لا تأتوا النّساء في أستاههنّ»

هكذا رواه، وخالفه معمر عن عاصم، فقال: طلق بن علي، ولم يشك.

وكذا قال أبو نعيم عن عبد الملك بن سلام، عن عيسى بن حطّان، قال ابن أبي خيثمة: هذا هو الصّواب.

اصل استفتا کاجواب

میرے نزدیک راجح وہی ہےجوجامع ترمذی کےموجودہ نسخہ میں واقع ہے۔یعنی :عبارت مسئولہ عنہا میں لااعرف ہذا الحدیث من حدیث طلق بن علی السحیمی کاہونا راجح اورصواب ہےاور من حدیث علی بن طلق السحیمی (کما وقع فی تہذیب التہذیب) صحیح نہیں ہے۔

ترمذی کےموجودہ نسخہ کےصحیح ہونے کاایک قرینہ یہ ہے کہ ترمذی کے اس کلام کوحافظ ابن حجر نےتلخیص میں اورحافظ منذر نےتلخیص السنن میں اورشوکانی نے نیل میں اور ملا علی قاری نےبحوالہ میرک مرقاۃ میں نقل کیا ہےاوران چاروں کےپاس جامع ترمذی کےجونسخے تھے ان سب کی عبارت مذکورہ اس طرح تھی جس طرح ترمذی کےموجودہ نسخوں میں ہے یعنی من حدیث طلق بن علی السحیمی اورتہذیب میں کتب اورناسخ کی غلطی سےطلق بن علی کےبجائےعلی بن طلق  ہوگیا ہے ۔

دوسرا قرینہ :یہ ہےکہ اگر تہذیب میں واقع شدہ عبارت کوصحیح تسلیم کرلیا جائےتو امام ترمذی کےکلام  فکانہ رای ان ہذا رجل آخر کاکوئی معنی نہ ہوگا۔وہذا لایخفی علی من تامل فے کلام الترمذی

ترمذی کےموجودہ نسخوں کےمطابق اس عبارت کایہ مطلب ہےکہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ:میرےعلم میں علی بن طلق سےصرف یہی ایک حدیث مروی ہےاورعلی بن طلق اورطلق بن علی دوصحابی ہیں یعنی: دونوں ایک ذات کےنام نہیں ہیں کہ اس حدیث کااصل راوی علی بن طلق ہواورجہاں کہیں طلق بن علی آگیا اس کوعلی بن طلق کاقلب کہہ دیا جائے جیساکہ قائلین کااتحاد کاخیال ہےاوریہ خیال بھی درست نہیں کہ یہ حدیث علی بن طلق اورطلق بن علی دونوں سےمروی ہے۔نہیں بلکہ اس حدیث کامخرج طلق بن علی کوبتانا جوایک دوسرے صحابی ہیں خطا اوروہم ہےکیوں کہ یہ حدیث میرے علم میں طلق بن علی کی مرویات سےہے ہی نہیں یہ حدیث توصرف علی بن طلق سےمروی ہےاورطلق بن علی سےتودسری حدیثیں مروی ہیں۔

معلوم ہواکہ امام بخاری کےنزدیک علی بن طلق اورطلق بن علی دوشخص ہیں وقد ذکر ترجمۃ طلق بن علی السحیمی فی تاریخہ الکبیر وری عنہ حدیثا بسند پس امام ترمذی کاامام بخاری کی طرف منسوب کرنا فکان رائ رجل آخر من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باکل درست ہے امام بخاری کی طرف اس امر کی نسبت سےیہ مترشح ہوتا ہے کہ خود امام ترمذی کےنزدیک دونوں ذات واحد کےنام ہیں اورطلق بن علی قلب ہےعلی بن طلق کا-والظاهر عندى ماذهب اليه البخارى وليتنى كان عندى ماكتب هو فى الصحابة وكتاب العلل الكبير للترمذى والاطراف للمزى وغير ذلك من كتب الرجال والعلل.

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 234

محدث فتویٰ

تبصرے