سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) رضاعت کے بارے حضرت علیؓ کا مسلک

  • 17423
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 971

سوال

(97) رضاعت کے بارے حضرت علیؓ کا مسلک

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب نےایک آدمی کانکاح اس کی ربیبہ کےساتھ کردیا ہےان کہنا ہےکہ صرف وہ ربیبہ حرام ہےجوبروقت نکاح دودھ پی رہی ہو باقی سب ربیبہ جائز ہے جیسے کہ حضرت علی ﷜ نے ایک آدمی  کانکاح کیاتھا ملاحظہ ہوحاشیہ جامع البیان آیت وربائبکم اللاتی کیایہ نکاح جائز ہے؟ نیۃ مندرجہ  ذیل امور کی وضاحت ضرورت ہے:

(1)ترمذی شریف کی حدیث عمروبن شعیب عن ابیہ جدہ کا"باب فیمن یتزوج المراة تم یطلقها قبل ان یدخل  به" کیادرجہ؟ مولانا عبدالرحمن صاحب مرحوم نےتحفۃ الاحوذی (2184) میں اس کو مطابق آیت لکھا ہے۔

(2)حضرت علی کامسلک کیاحکم رکھتا ہے؟

(3)جس وقت آپﷺ نےام سلمہ ﷜ سےنکاح کیا تھا اس وقت بنت ام سلمہ کی عمر کیا تھی؟

(4)کیا حضرت علی ﷜ کو کسی نے روکا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اپنی ربیبہ سےنکاح ناجائز ہےجس کی ماں سےنکاح کرکے صحبت کرچکا ہو خواہ وہ ربیبہ اس کی حجر (پرورش وتربیت) میں ہو یانہ ہو۔اورخواہ بروقت نکاح دودھ پی رہی ہویا نہ ہو۔یہی مذہب ہےتمام صحابہ وتابعین وسلف کابجز حضرت عمر علی وداود ظاہری وابن حزم کے۔قال ابن المنذر :قد اجمع علماء الامصار على خلاف هذا القول(اى قول داود وابن حزم)المغني512/9)وقال ابن العربى فى احكام القرآن 287/1وهى محرمة بالاجماع كانت فى حجر الرجل اوفى حجر حاضنتها غير أمها انتهى-

 اور یہ قول کہ صرف وہ ربیبہ حرام ہےجوبروقت نکاح دودھ پی رہی ہو سب ربیبہ جائز ہیں غلط اورباطل ہے۔ ظاہر یہ میں سے بھی کوئی اس کاقائل نہیں ہےاور نہ ہی یہ حضرت عمر وعلی کامذہب ہے۔پہلے ربیبہ اورحجر میں ہونے کامعنی پڑھئے ربائبكم واحدتها ربية فعليه بمعنى مفعولة من قولك ربها يربها اذا تولى امرها(احكام القرآن لابن العربى387/1)وقال الحافظ :مشتقه من الرب وهو الاصلاح لانه يقوم بامرها وقيل من التربية وهو غلط من جهة الاشتقاق (فتح 144/9)

وسمى ولد المرأة من غيرزوجها ربيبا وربيبة لانه يربهما كمايرب ولده فى غالب الامر ثم اتسع فيه فسميا بذلك وإن يربهما(كشاف 359/9)وقال ابن حزم فى المحلى531/9:وبعد النكاح تكون ربيبة

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ ربیبہ بیوی کی بیٹی کوکہتے ہیں جو پہلے شوہر سےہو خواہ یہ زوج ثانی اس کی کفالت کررہا ہویانہ ۔لیکن چوں کہ بالعموم اوراکثر سوتیلا باپ اس کاکفیل ہوتاہےاس لئے اس پر ربیبہ کااطلاق کردیا گیاہے۔غرض یہ کہ اس کےحقیقی معنی کالحاظ اعتبار نہیں ہے: والحجور جمع حجر بفتح الحاء وكسرها مقدم الثوب، والمراد لازم الكون في الحجور وهو الكون في تربيتهم، والمراد أنهن في حضانة أمهاتهن تحت حماية أزواجهن كما هو الغالب، وقيل المراد بالحجور البيوت أي في بيوتكم،(فتح البيان ½)وقال ابن حزم فى المحلى527/9: وَكَوْنُهَا فِي حِجْرِهِ يَنْقَسِمُ قِسْمَيْنِ -: أَحَدُهُمَا: سُكْنَاهَا مَعَهُ فِي مَنْزِلِهِ، وَكَوْنُهُ كَافِلًا لَهَا.

وَالثَّانِي:

نَظَرُهُ إلَى أُمُورِهَا نَحْوَ الْوِلَايَةِ لَا بِمَعْنَى الْوَكَالَةِ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذَيْنِ الْوَجْهَيْنِ يَقَعُ بِهِ عَلَيْهَا كَوْنُهَا فِي حِجْرِهِ. انتهى

معلوم ہواکہ ظاہریہ کےنزدیک وہ ربیبہ حرام ہوگی جو شوہر کی کفالت وپرورش میں ہو خواہ اس کے گھر میں ہویانہ ہوں اورخواہ بروقت نکاح دودھ پی رہی ہویانہ۔ظاہر یہ آیت قرآنی سےیوں استدلال کرتے ہیں:حرم الله الربيبة بشرطين أحدهما أ، تكون فى حجر الزوج الثانى الدخول بالام فاذا فقد أحد الشرطين لم يوجد التحريم كذاذكره ابو حيان فى البحر المحيط211/1والحافظ فى الفتح144/9وابن حزم الظاهرى فى المحلى527/9جمہور کہتے ہیں کہ :حجر کی قید علی سبیل الشرطیہ نہیں ہے بلکہ بربناء غالب ہےكما فى المغنى والفتح والمحلى وارشاد الفحول وغير ذلك من كتب التفسير وشروح الحديث والفقه واصوله پس اس کامفہوم مخالف معتبر نہیں ہوگا۔

جمہور ظاہریہ کےاستدلال کو اس طرح رد کرتے ہیں:هذا القيد خرج مخرج الغالب والعادة لاكالقيد الاتى من قوله :اللانى دخلتم بهن فانه بهن فإنه يرادبه التقليد ولهذا اكتفى فى موضع الاحلال بنفى الدخول ولوكان  القيد الاول كالقيد الثانى شرط كامقتضى السياق أن يقول : فان لم تكونوا دخلتم بهن ولم تكن فى حجوركم ولم يعترض للحجر علم أ، الشرط ليس الاالدخول فائدة الوصف بهذا التقييد العادى هى تقوية علة الحكم الابيان علة الحكم نظير ذلك قوله تعالى: اضعافا مضاعفة كماأنها النكتة فى إيرادهن باسم الربائب دون بنات النساء صرح فى قوله فان : لم تكونو الخ بها أشعربه ماقبله لدفع توهم أن قيد الدخول كقيد الكون فى الحجور(هداية روح المعانى وشرح البخارى للقسطلانى) جمہور کی یہ توجیہ اورجواب صحیح اوراٹل ہےجس کورد نہیں کیاجاسکتا پس جمہورہی کامذہب صحیح ہے۔

(1)ترمذی کی یہ حدیث جمہور کی مؤید ہے۔لفظ ابنتہ کےاطلاق کی وجہ سے لیکن وہ بالاتفاق ضعیف ہے لضعف ابن لہیعہ والمثنی بن الصباح حضرت شیخ نے تحفہ الاحوذی میں حدیث کی مذکورہ کی آیت کے موافق اس حیثیت سےلکھا ہےکہ دونوں میں ربیبہ کی حرمت کےلئے بیوی کامدخولہ ہونا شرط بتایا گیا ہےاورخوشدامن کی حرمت کےلئے بیوی کامدخولہ ہونا شرط نہیں قرار دیاگیا بلکہ حدیث میں عدم شرطیت دخول کی تصریح کردی گئی ہے۔

(2)حضرت عمرو علی ﷢ کامسلک حجت نہیں جبکہ قرآن سےاس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ غور کیاجائے تواس کی تردید ہوتی ہےجیساکہ گذرچکا  اورجبکہ حدیث عمربن شعیب عن ابیہ عن جدہ اس کےخلاف ہےاور سارے صحابہ وتابعین وسلف ان کےخلاف ہیں محلی میں جابر عبداللہ عمران بن حصین کا قول جمہور صراحۃ موجود ہے۔

(3)حضرت ام سلمہ﷜ سےنکاح کرنے کےوقت بن ام سلمہ کی عمر کیاتھی؟یہ معلوم نہ ہوسکا ہاں وہ آپ ﷺ ہی کی پرورش اورکفالت میں رہیں جیساکہ بخاری وغیرہ میں ہے:

ولولم تکن ربیبتی ماحلت لی البتہ زینب بن ام سلمہ بروقت نکاح شیرخوار تھیں۔آپ ﷺ نےنوفل اشجعی کےحوالہ کردیاتھا۔(فتح 159/9)

(4)حضرت علی کوروکےجانے کی ضرورت نہیں تھی۔کہ وہ مجتہد تھے مفسر قرآن تھے اور ان کو کون روکتا جبکہ حضرت عمر﷜ بھی ان کےوافق تھے(محلی520/9)۔

صحابہ غیر منصوص وغیرمصرح مسائل میں اختلاف کےوقت ایک دوسرے کےخلاف آج کل مولویوں کی روش نہیں اختیا کرتےتھے بالخصوص جبکہ اختلاف کرنے ولامطاع ہوتاتھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 218

محدث فتویٰ

تبصرے