سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) سوتیلی خالہ سے نکاح

  • 17416
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1660

سوال

(90) سوتیلی خالہ سے نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوتیلی خالہ سےنکاح کےمتعلق شریعت کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوتیلی خالہ سےنکاح کرنابالاتفاق حرام ہےاوراس کی حرمت بالکل واضح ہے۔تعجب ہے کہ اس بارے میں آپ جیسے لوگوں کےدلوں میں کیوں کھٹک باقی ہے؟ خالہ: ماں کی بہن کوکہتے ہیں اورسب جانتے ہیں کہ بہن تین قسم کی ہوتی ہے:

1۔سگی اورحقیقی یعنی:مادری وپدری اخت لاب ولام

2۔سوتیلی یعنی:پدری وعلاتی اخت الاب۔

3۔مادری یعنی:اخیافی اخت الام۔

 ان کی حقیقی بہن اپنی حقیقی سگی خالہ ہےاورماں کی سوتیلی بہن خالہ ہےاورماں کی اخیافی بہن اپنی اخیافی خالہ ہے اور قرآن میں :وخالاتکم (النساء:22)مطلق ہے۔جس طر واخواتکم مطلق ہے اور تینوں قسموں کی بہنوں کوشامل ہے اورتینوں کی حرمت پرسب کااجماع ہے ٹھیک اس طرح عماتکم اورخالاتکم کےالفاظ تینوں قسم کی پھوپھیوں  اورخالاؤں کوشامل ہیں اس لئے ان  کی حرمت میں اب سےپہلے کسی اختلاف نہیں ہوا۔وَالْأَخَوَاتُ مِنْ الْجِهَاتِ الثَّلَاثِ، مِنْ الْأَبَوَيْنِ أَوْ مِنْ الْأَبِ، أَوْ مِنْ الْأُمِّ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَخَوَاتُكُمْ} [النساء: 23] وَلَا تَفْرِيعَ عَلَيْهِنَّ، وَالْعَمَّاتُ أَخَوَاتُ الْأَبِ مِنْ الْجِهَاتِ الثَّلَاثِ، وَأَخَوَاتُ الْأَجْدَادِ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَمِنْ قِبَلِ الْأُمِّ، قَرِيبًا كَانَ الْجَدُّ أَوْ بَعِيدًا، وَارِثًا أَوْ غَيْرَ وَارِثٍ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَعَمَّاتُكُمْ} [النساء: 23] وَالْخَالَاتُ أَخَوَاتُ الْأُمِّ مِنْ الْجِهَاتِ الثَّلَاثِ، وَأَخَوَاتُ الْجَدَّاتِ وَإِنْ عَلَوْنَ وَقَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ كُلَّ جَدَّةٍ أُمٌّ، فَكَذَلِكَ كُلُّ أُخْتٍ لِجَدَّةٍ خَالَةٌ مُحَرَّمَةٌ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَخَالاتُكُمْ} [النساء: 23] (المغنی:514/9)

وَالْأَخَوَاتُ تَصْدُقُ عَلَى الْأُخْتِ لِأَبَوَيْنِ، أَوْ لِأَحَدِهِمَا، وَالْعَمَّةُ: اسْمٌ لِكُلِّ أُنْثَى شَارَكَتْ أَبَاكَ أَوْ جَدَّكَ فِي أَصْلَيْهِ أَوْ أَحَدِهِمَا.(تفسير فتح القدير للشوكانى:445/1)

(تنقيح سوال سابق بعد از خواندن جواب مذکور)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 210

محدث فتویٰ

تبصرے