سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(74) ولی کی مرضی سے نکاح کرانا

  • 17400
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1062

سوال

(74) ولی کی مرضی سے نکاح کرانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اور بکر حقیقی بھائی ہیں۔زید کے چارلڑکے اوربکرکی دولڑکیاں ہیں۔زید اپنے بھائی بکر کوکہتا ہے کہ دونوں کانکاح میرے لڑکوں سےکردو۔بکر ایک لڑکی کانکاح کردیتا ہے۔دوسرے لڑکی کانکاح اپنی عورت کےبھتیجے سےکرتاہے۔ کیا قرآن شریف وحدیث نبوی اس کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لڑکے کو محروم تقسیم اولاد کرکے عورت کے بھتیجے کو تقسیم اولاد کرے۔ان دونوں میں سےزیادہ حقدار کون ہے؟زید اور بکر اوران کی اولاد ہم عقائد ہم عمر ،حیثیت مال برابر اوراعتقاد صحیح سلامت اورصحت جسمانی اچھی رکھتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولایت نکاح کی بناء شفقت ورافت پر ہے ولی کوحکم ہےکہ اپنے ذاتی فائدہ اور غرض ونفع سےبے پروا ہوکر اپنی مولیہ کے لئے نیک صالح پابند شرع غیر مبتدع شوہر تلاش کرے اورایسے صحیح العقیدہ مسلمان سےبیا ہے جو احکام اسلام کاپابند ہو اورجہاں اس کی مولیہ کی زندگی اچھی طرح گذرنے اوربسر ہونےکاظن غالب ہو۔شوہر تلاش کرنے میں دولت وثروت برابری اورقومیت حسب دنیاوی جاہ وعزت صنعت حرفت کےپیچھے نہ پڑے۔

اسلام نےنکاح کےمعاملہ میں ذات پات برادری پیشہ اوردولت کالحاظ رکھنےکاحکم نہیں دیا ہے ۔یہ سب چیزیں مسلمانوں میں ہندؤں سے آگئی ہیں ان مکروہ اورخلاف عقل ونقل امور کی وجہ سے مسلمان اوراسلام دونوں بدنام ہورہے ہیں اوراسلام کی ترقی میں رخنہ پیدا ہوگیا ہے پس تمام سمجھدار مسلمانوں کافرض ہےکہ ان بیہودہ رسموں کےمٹانے کی کوشش کریں۔

نکاح کا کےمعاملہ میں کسی ولی پر کسی قرابت دار کاشرعا کوئی ایسا استحقاق نہیں ہے کہ اس کورشتہ دینے میں ترجیح دے اورمقدم رکھے بلکہ ولی کواختیار ہےکہ اسلامی قاعدہ کےروسے جس کی طرف ابھی اشارہ ہوچکا ہے لڑکی کےحق میں جہاں مناسب اوربہتر دیکھے لڑکی کوبیاہ دے ارشاد ہے ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور:23))

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 195

محدث فتویٰ

تبصرے