سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) حج بدل کرنے والا صرف وارث ہو؟

  • 17386
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-14
  • مشاہدات : 1170

سوال

(60) حج بدل کرنے والا صرف وارث ہو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں زید نصاب تھااور اس پرحج فرض تھا اور وہ مرگیا اب اس کالڑکا  عمرو موجود ہے اور وہ بھی اہل نصاب سےہے اورعمرو پر بھی حج فرض ہے لیکن اس نےابھی حج نہیں کیا ہے۔اب عمرو چاہتا ہے کہ کسی آدمی کوبھیج کر اپنےوالد کاحج بدل کرادے۔جس کوبھیجے گا وہ حاجی ہےلیکن زید کاوارث نہیں ہے ۔تو عمرو کےوالد کاحج بدل کےلئے نہ جائے اس کاحج بدل نہیں ہوگا وارث کاہونا ضروری ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں زید متوفی کی طرف سےبدل ادا ہوجائے گا۔حج بدل ادا کرنے کے لئے وارث کاہونا ضروری نہیں ہے جیساکہ اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ، جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُوا اللَّهَ فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالوَفَاءِ»رواه البخارى والنسائى بمعناه وفى رواية لاحمد والبخارى:يجور لك وفيها :جاء رجل فقال:ان أختى نذرت أن تحج(المنتقى لابن تيميه)

اس حديث سى مسائل استنباط كرتى هوئى امام شوكاني لكھتے ہیں:

فيه دليل ايضا عل اجزاء الحج عن الميت من والود وكذلك  من غيره يدل ذلك قوله اقضو الله فالله أحق بالوفاء(نيل الاوطار167/4)جس حدیث میں کسی مرد کا اپنی بہن کےمتعلق سوال کرنےکاذکر ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ صاحب المنتقی میں لکھتے ہیں:وهويدل على صحة الحج عن الميت من الوارث وغيره حيث لم يستفضله أوارث هو أم لا؟وشبه بالدين

امام شوکانی اس قول کی تشریح کرتےہوئے لکھتے ہیں: وَقَدْ اسْتَدَلَّ الْمُصَنِّفُ بِهَذِهِ الرِّوَايَةِ عَلَى صِحَّةِ الْحَجِّ مِنْ غَيْرِ الْوَارِثِ لِعَدَمِ اسْتِفْصَالِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لِلْأَخِ هَلْ هُوَ وَارِثٌ أَوْ لَا؟ وَتَرْكُ الِاسْتِفْصَالِ فِي مَقَامِ الِاحْتِمَالِ يَنْزِلُ مَنْزِلَةَ الْعُمُومِ فِي الْمَقَالِ كَمَا تَقَرَّرَ فِي الْأُصُولِ. (نیل الاوطار:167/4)

حدیث اول کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:( وَفِيهِ أَنَّ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ حَجٌّ وَجَبَ عَلَى وَلِيِّهِ أَنْ يُجَهِّزَ مَنْ يَحُجُّ عَنْهُ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ كَمَا أَنَّ عَلَيْهِ قَضَاءَ دُيُونِهِ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ دَيْنَ الْآدَمِيِّ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ فَكَذَلِكَ مَا شُبِّهَ بِهِ فِي الْقَضَاءِ)فتح الباری52/4طبع مصر)

امام نووی فرماتے ہیں:واتفق أصحابنا على جواز الحج عن الميت ويجب عن استقراره عليه سواء اوصى به أم لا ويستوى فيه الوارث والأجنبى كالدين(مجموع شرح المهذب98/7)

علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں: فَإِنْ كَانَ عَلَى أَحَدِهِمَا حَجُّ الْفَرْضِ، فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ أَوْصَى بِهِ أَوْ لَا، فَإِنْ أَوْصَى بِهِ فَتَبَرَّعَ الْوَارِثُ عَنْهُ بِمَالِ نَفْسِهِ لَا يَسْقُطُ عَنْ الْمُوَرِّثِ، وَإِنْ لَمْ يُوصِ فَتَبَرَّعَ عَنْهُ بِالْإِحْجَاجِ أَوْ الْحَجِّ بِنَفْسِهِ. قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ. يَجْزِيهِ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى «لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لِلْخَثْعَمِيَّةِ أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكِ دَيْنٌ» الْحَدِيثَ، شَبَّهَهُ بِدَيْنِ الْعِبَادِ. وَفِيهِ أَنَّهُ لَوْ قَضَى الْوَارِثُ مِنْ غَيْرِ وَصِيَّةٍ يَجْزِيهِ فَكَذَا هَذَا وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنْ الْآثَارِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ تَبَرُّعَ الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ مُعْتَبَرٌ شَرْعًا.(فتح القدير20/3طبع مصر)

واضح رہے کہ محدثین اورائمہ کےاوپر نقل کئے ہوئے جن اقوال سےیہ ثابت ہوتا ہےکہ میت کی طرف سےغیر وارث بھی حج بدل کرسکتا ہےان کامنشایہ ہے کہ غیر وارث اگر اپنی طرف سےیہ حج کرے تب بھی ادا ہوجائے گا بھلا جس صورت میں اس کوکوئی وارث بھیجے اس کےادا ہوتے میں کیاشبہ ہوسکتاہے۔

جولوگ وارث کی تخصیص کرتے ہیں معلوم نہیں ان کےپاس کیا دلیل ہے۔ہاں صاحب فتح العلام اور نواب صدیق حسن خان ﷫ نےقرابت دار کی ہے اوردلیل یہ بیان کی ہے کہ جن  جن حدیثوں میں حج بدل کاسوال وجواب مذکور ہے وہ سب قربت داروں کےمتعلق ہیں لیکن مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں اس دلیل کی کمزوری ظاہر ہےاس لئے مورد کےخاص ہونے سےحکم کاخاص ہونا لازم نہیں آتافان العبرة لعموم الفظ لالخصوص السبب كماتقرر فى لأصول فافهم والله اعلم بالصواب۔مكتوب

پیش لفظ

یہ حقیقت ہر پڑھے لکھے مسلمان کو معلوم ہےکہ حج اسلام کاپانچواں رکن ہے۔اورجوبالغ مسلمان مرد یاعورت شرعی قاعدہ کےمطابق اس کی استطاعت رکھتا ہے اس پربلاتاخیر ایک مرتبہ حج کی ادائیگی ضروی اورلازم ہے۔یہ بھی معلوم ہےکہ اسلام کادوسرا رکن نماز اورتیسرا رکن روزہ دونوں جسمانی عبادت ہیں اورچوتھا رکن زکوۃ محض مالی عبادت اورحج مالی اوربدنی دونوں طرح کی عبادت ہے اوراس میں جہاد بالنفس والمال اورہجرت کےاوصاف وخصائص بھی پائے جاتے ہیں۔

احادیث نبویہ میں حج کےمصالح اورحکماسرار روموز  پر بہ بھی عربی اوراردوزبان میں مستقل طور پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہےاور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔نماز روزہ اورزکوۃ کی طر ح حج وعمر ہ کےبھی آداب وقواعد وقیود شرائط ارکان فرائض واجبات ومندوبات مکروبات وممنوعات اورمفسدات ہیں جن کو جانے اور سیکھے سمجھے بغیر حج صحیح طریقے پر ادا ہوہی نہیں سکتا۔طلبہ وعلماء دین فقہ وحدیث کی کتابوں میں کتاب الحج باربار پڑھتے اورپڑھاتے ہیں لیکن مسائل پرکامل عبور او ان کاصحیح احاطہ وفہم حج کی سعادت حاصل  ہونے کےبعد ہی ہوتا ہے۔

مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کےعلماء اپنی زبانوں میں عوام خواص عاز مین حج کےلئےحج کےمسائل پر مشتمل رسائل اورکتابیں لکھتے چلے آئے ہیں اورآئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔سب کی کوشش اس بات کی ہوتی ہےکہ ان کامرتبہ رسالہ جامع اورآسان زبان میں ہو نیز اس ترتیب بھی نہایت آسان اورعمدہ ہوتا کہ اس زبان کےمعمولی جاننے والے اورکم فہم عاز میں حج میں بھی  ان کو بخوبی سمجھ عمل لاسکیں۔

٭علماء اہل حدیث نے بھی اپنے اپنے زمانوں میں اس موضوع پر متعدد مختصر اور مبسوط رسالےاورکتابیں لکھی ہیں جن میں سے کئی ایک ناپید ہوچکے ہیں اورجوملتے ہیں ان کے ہوتےہوئے بھی کتاب وسنت کےمطابق فقہ اہل حدیث کی روشنی میں حج وعمرہ پر ایک جامع اورآسان زبان میں رسالہ کی ضرورت محسوس ہوریہ تھی۔ اسی ضرورت کےپیش نظر محترم المقام مولانامختار احمد صاحب سلفی ندوی خطیب جامع مسجد اہل حدیث بمبئی نےاس موضوع پر ایک  متوسط لیکن جامع رسالہ مرتب کرنےکی سعی محمود کی ہے۔ اس رسالہ کےکچھ حصے کا مجھے سفر حج میں مکہ مکرمہ  کے قیام کےدوران سننے کااتفاق ہوا تھا اور اب بیشتر حصے پرنظر ثانی اورجزوی ترمیم کاموقع ملا۔ اللہ تعالی  ان کی اس مخلصانہ سعی کوقبول فرمائے اورعازمیں حج کو اس سے بیش ازبیش فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے اورمصنف رسالہ ہذا کےساتھ ناچیز راقم السطور کو بھی اجر جزیل عطا فرمائے آمین

٭دولت کے پجاریوں کیمونسٹوں ملحدین وبیشتر متنورین جو نام کےمسلمان ہیں ان کےسواہر خاص وعام مسلمان مرد عورت کےدل  میں بیت اللہ اور مسجد نبوی کی زیارت کابے پناہ جذبہ اورحج کی شدید تمنا ہوتی ہے۔اگر حکومتوں کی کی طرف سے ان کےاپنے ملکی واقتصادی مصالح کی بنا پر حج کےسلسلہ میں کلی مختلف قسم کی جزئی پابندیاں نہ ہوں تو بشمول نفلی حج کرنےوالوں کے فریضہ حج ادا کرنے والے مردوں اورعورتوں کی تعداد میں ہر سال حیرت انگیز بلکہ اتنا اضافہ ہوتا رہے کہ حمین شریفین کےموحد اورفرض شناس حکومت کےلئے اس بے مثل عظیم دینی اجتماع کاکماحقہ  نظم کرنا اورسنبھالنامشکل ہوجائے ۔

٭ہندوستان میں حج کمیٹی طرف سے نفلی حج یا حج بدل کرنے والوں پر جزئی اورموقف پابندی بظاہر ٹھیک نہیں معلوم ہوتی مگر مسلمانان  ہند کو جیسے کچھ مسائل درپیش ہیں اور ان کےملی اوردینی علمی ادارے محض مالی کمزوری کی وجہ سےجس کس مپرسی کے عالم  میں مبتلا ہیں ان کےپیش نظر یہ پابندی ہمارے خیال میں چنداں قابل اعتراض نہیں ہے۔ہمارے نزدیک مستطیع مسلمانوں کازیادہ اہم ہے۔ان اہم ضروری اجتماعی مصارف میں حلال کمائی خرچ کرنے کا ثواب انشاء اللہ نفلی حج کےثواب سےکم نہیں ہوگا۔کاش نفلی حج کےشائق سرمایہ دار مسلمانوں کواس شعور یااحساس ہوتاہے!!

٭رفتہ رفتہ حج کےمعاملہ میں اکثر عازمین حج(الاماشاء اللہ ) میں  نام ونمودشہرت طلبی اسراف  وتبذیر اورحج کےضمن میں غیر مقصود جائز تجارت کانہیں بلکہ بلیک اوراسمگلنگ کارجحان بڑھتا جارہاہے ۔ ظاہر ہےکہ اس صورت میں ان حج خالص شرعی عبادت باقی نہیں رہتا بلکہ اسراف وتبذیر اورنام ونمود کےجذبہ کی وجہ سےمحض سیر وسیاحت اورناجائز تجارت کاذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ان حجاج کافضولیات میں ہزار ہاہزار بعض کالاکھ سےبھی زائد کاخرچ کردینا اورحج کےلئے اتنی بڑی غیرضروری رقم کی  فراہمی کا انتظام کرناپھر بطور فخر کےملنے جلنے والوں سے بیان کرنا  کہ ہم نےحج میں اتنا خرچ کیا شرعا وعقلا انتہائی معیوب غلط اورقبیح وشنیع کام ہے۔

٭پورا عرب یورپ امریکہ ایشیا(چین وجاپان وغیرہ ممالک) کی مصنوعات کی منڈی ہے ۔ان ملکوں کی غیر ضروری مصنوعات کی خرید میں مسلمانوں کا اپنی بڑی کمائی خرچ کردینا عقلا درست  ہے نہ شرعا۔کاش عازمیں حج  اس حقیقت کوسمجھیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی نیک سمجھ دے۔حرمین کاتحفہ عرب کی صرف کھجوریں اورآب زمزم ہے۔اپنےقرابت دارووں دوستوں عزیزوں بزرگوں کےلئے یہی دوچیزیں بطور تحفہ  کےکافی ہیں۔

٭نماز روزہ اورزکوۃ کی طرح حج کےکچھ مسائل میں بھی مذاہب اربعہ کاباہمی اختلاف موجوج ہے۔کمالايخفى على من درس مسائل الحج والعمرة علماء اہل حدیث محقیقن کےدرمیان مسائل میں اختلاف ناگزیر ہے۔

ایک عام مسلمان عاز م حج کو ان کےاختلاف میں دلچسپی نہیں لینا چاہیے اورنہ اس اختلاف سےگھبرانا چاہیےبلکہ جس عالم کی تحقیق پر اس کےورع وتقوی اورتبحر فی العلم کی وجہ سے اس کو اطمینان قلب ہواس پر عمل کرے اورکسی سےالجھ کر اپناوقت ضائع نہ کرے۔

٭عام علماء ہند پاک بحری سفرکرنےوالے ہندو پاک کےعازمین حج کوساحل جدہ سےدور دودن کی مسافت پر جہاز ہی میں احرام باندھنے کاحکم دیتےآئیے ہیں اوریہی عام حجاج ہندپاک کامعمولی بہ بھی ہے لیکن ہمارے نزدیک محقق یہ ہےکہ ان عاز مین حج کےلئے جدہ پہنچنےسے پہلے احرام باندھناہرگز ضروری نہیں ہے۔ ان حاجیوں کی سمند ر میں کہیں بھی  یلملم کے پہاڑ سے محاذات نہیں ہوتی۔یلملم پہاڑ سے محاذات  نہیں ہوتی۔ یلملم سےان کی محاذات معتبرہ واقعیہ جد سے بھی کچھ آگے ہوتی ہے۔لیکن چونکہ کوئی منصوص میقات مکہ سےدومرحلہ سےکم پر واقع نہیں بڑھناچاہیے ۔واللہ اعلم

٭متمع کو طواف زیارت (طواف افاضہ) کےبعد سعی صفاومروہ کرناچاہیے یا نہیں؟ ہمارے نزدیک وجو باولزمااحتیاط اسی میں ہےکہ سعی کرلینی چاہیے عمروالی سعی کافی نہیں ہوگی۔

٭حج سےفارغ ہوتتے کے بعد تنعیم یاجعرانہ جاکر عمرہ کا احرام باندھنا اور عمرہ کرنایعنی:باربار چھوٹا یابڑا عمرہ کرنےکومشروع ومسنون سمجھ کرعمل میں لانا آنحضرت ﷺ سےحکما ثابت ہےنہ عملا نہ تقریرا۔اورنہ صحابہ وکرام وتابعین عظام ہی سےمنقول ہی ہے۔

٭مزدلفہ کی رات میں عشاء کی نماز بعدصبح صادق طلوع ہونےتک کسی سنت اور نفل نماز پڑھنےکاثبوت نہیں ہے بلکہ صحابہ نےاس کی نفی کی ہے ۔نماز وتر جس کادرجہ نفل وسنت سے اونچا ہےنہ توخاص طور پر اس کی نفی مرودی ہے نہ اثبات لیکن آنحضرت ﷺ سفر وحضر میں کہیں بھی وتر کی نماز نہیں چھوڑتے تھے اس لیے مزدلفہ کی شب میں فرض عشاء کی بعد وتر کاپڑھ لینا مناسب ہے ۔ہذا ماعندی واللہ اعلم

٭عورت کابغیر ذی محرم ابدی یابغیر شوہر کے حج کے لئےنکلنا شرعاجائزنہیں ہے۔جن ائمہ یاعلماء اہل حدیث نے بوڑھیایاغیربوڑھیاکوذی محرموں یاشوہروں کےساتھ جانے والی عورتوں کی معیت ورفاقت میں حج کو جانےکی اجازت وفتویٰ دیا ہے اس کی بنیاد رائے وعقل ہےاورحدیث کےخلاف ہے۔مکتوب

ج:صورت مسؤلہ میں یعنی جبکہ مکہ معظمہ جانے سےاصل مقصود بزنس ہو اورحج کی ہیئت محض ضمنی ہو اس طرح ہر سال مکہ معظمہ جانا جائز توہے مگر حج کی موعود مذکورہ فی الاحادیث ثواب کااستحقاق نہیں ہوگاواللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الحج

صفحہ نمبر 175

محدث فتویٰ

تبصرے