سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) تراویح جماعت کے ساتھ پڑھ کر تہجد میں نفل ادا کرنا

  • 17374
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1003

سوال

(48) تراویح جماعت کے ساتھ پڑھ کر تہجد میں نفل ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص ماہ رمضان میں تراویح آٹھ رکعت جماعت کےساتھ پڑھ کر وتر اس لئے چھوڑدیتا ہو کہ میں  نے ابھی تہجد کی نماز  پڑھنی ہے آخر رات میں تہجد  کی نوافل پڑھ کربعد وتر پڑھوں گا کیا سنت نبوی کےمطابق یہ طریقہ درست ہے؟ اورکیا نبیﷺ ایسا کرتے تھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان میں تراویح اور تہجد دونوں ایک چیز ہیں۔فرق صرف یہ ہےکہ اگر اول رات میں ادا کریں تو وہ تراویح کہی جائے گی اورآخر رات میں ادا کی جائےتورتہجد کےنام کےساتھ موسوم ہوگی۔لیکن ہیں دونوں ایک ہی چیز۔اس کی روشن دلیل حضرت ابوذر ﷜ کی وہ حدیث ہےجوابن ماجہ میں مطولا مروی ہے۔اس حدیث کاخلاصہ یہ ہےکہ حضرت ابوذر ﷜ فرماتے ہیں ہم نے آں حضرت ﷺ کےساتھ رمضان کےروزے رکھآ۔آپ ﷺ نےآخر دہے کی تین راتوں میں ہمارےساتھ تراویح کی نماز(قیام الیل) اس طرح پڑھائی کہ پہلی رات یوں شب میں ادا فرمائی یہاں تک کہ تہائی رات گذر گئی اوردوسری رات میں نصف شب تک پڑھائی۔ ہم نےبقیہ آدھی رات میں تراویح پڑھانے کی درخواست کی توآپ ﷺ نےفرمایا: جس نےامام کےساتھ قیام کیا اس نےپوری رات کاقیام کیا۔تیسری رات میں آپﷺ نےآخر شب میں گھر والوں کوجمع کرکے سب کےساتھ تراویح کی نماز پڑھی۔یہاں تک ہم کوڈر ہوا کہ سحری کاوقت ختم ہوجائے۔سنن ابن ماجہ(حدیث1327)1/420) اس روایت سےظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نےتروایح کورات کےتینوں حصوں میں ادا فرمایا ہے اور اس کاوقت عشاء کےبعد سےآخر رات تک اپنےعمل کےذریعہ  بتادیا ۔ اب تہجد کے لئے کونشا وقت  باقی رہا جس میں تراویح کے بعد تہجد  ادا فرمایا ہوپس تراویح اورتہجد  کےایک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ہاں اگر کوئی شخص تراویح آٹھ رکعت کےعلاوہ رات کےکسی حصہ میں نفل پڑھنی چاہےتو پڑھ سکتاہےلیکن اول رات میں پڑھی ہوئی آٹھ رکعتوں کوتراویح اورآخر رات میں مزید آٹھ رکعتوں کوتہجد مسنون سمجھے تویہ غلط ہےآں حضرت ﷺ سےایک  ہی رات میں تراویح الگ اورتہجد پڑھنا کسی روایت سےثابت نہیں ہے۔محدث

٭تراویح :جمع ہے ترویحہ کی ۔ترویحہ کا اصل معنی ایصال راحۃ کےہیں۔اور اب کہتے ہیں ۔کہ ترویحہ کہتے ہیں: دوسلام کےساتھ پڑھی ہوئی چار رکعتوں کےمجموعہ کو جن کےبعد دوسرا ترویحہ شروع کرنے سےپہلے کچھ دیر  تک آرام کیاجاتا ہے۔ بیس رکعتوں میں پانچ ترویح ہوتے ہیں۔ہر دوتر یحوں کےدرمیان فضل بقدر ایک ترویح کے یا کم وبیش مستحب ہے۔اب یہ فصل بین الترویحتین بلجلوس والسکوت ہو یابصلوۃ النفل ہویابطواف بیت اللہ ہو یابالتسبیح یابالتحلیل ہو سب درست ہے(حاشیہ ہدایہ15۔130)اهل المدينة يصلون وأهل كل بلدةبالخيار يسبحون أويهللون أويينتظرون سكوتا((حاشيه هدايه7/131)

اس تفصیل مرقومہ سےمعلوم ہواکہ مروج بین االترویحتین فصل طویل اور اس میں طواف یاصلوۃ یاتسبیح یاتہلیل کی کوئی اصل سنت نبوی یا آثار صحابہ میں نہیں ہے۔یعنی: اس کےاستحباب کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔اس کی بنا صرف رائےاستحسان ہےواللہ اعلم

٭المنتقى لابن الجاروديا المنتقى لابن تيمية میں بچوں کو عید گاہ میں لے جانے کےبارےمیں کوئی بات نہیں ہے۔ البتہ صحیح بخاری میں ہے باب  خروج الصبيان  الى المصلى اى فى الاعياد وإن لم يصلوا

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 149

محدث فتویٰ

تبصرے