سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) اول شب میں تراویح پڑھنا اور آخر شب میں وتر پڑھنا

  • 17373
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1303

سوال

(47) اول شب میں تراویح پڑھنا اور آخر شب میں وتر پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان مبارک میں بعض لوگوں کایہ طرز عمل ہےکہ وہ اول شب میں تروایح اداکرلیتے ہیں مکر وتر نہیں پڑھتے ۔پھر آخر شب میں اٹھ کر تہجد  پڑھتے ہیں اوراسی کےساتھ وتر بھی۔کچھ لوگ اس برمعترض ہیں وہ کہتے ہیں کہ:

(الف)رسول اللہﷺ نےصحابہ کو جوتین دن تراویح کی نماز پڑھائی تھی اس کےمتعلق حضرت جابر کے یہ الفاظ صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات فأوتر سے ظاہر یہی معلوم ہوتا کہ تروایح کےساتھ ہی آپ ﷺ نے وتر بھی پڑھ لی تھی۔لہذا یہ طریقہ کہ تراویح پڑھ کروتر نہ پڑھی جائے بلکہ اس کوتہجد کےساتھ اخیر رات میں پڑھاجائے اس کےخلاف معلوم ہوتا ہے؟

(ب)حضرت عائشہ﷢ سےخاص رمضان کےمتعلق سوال کیاگیا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی کیفیت کیاتھی؟

توانہوں نےکہاکہ:آنحضرت ﷺ کی نماز رمضان ہویا غیر رمضان (عموما)گیارہ رکعت مع وتر سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔معلوم ہواکہ رمضان میں بھی آپ ﷺ کے قیام اللیل کی کل رکعتیں صرف گیارہ ہوتی تھیں پس مذکورہ بالاطرز عمل اس حدیث کےخلاف بھی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(ج)جب تہجد اورتراویح درحقیقت دونوں ایک چیز ہیں تو پھر اول شب میں پڑھ لینے کےبعد آخر شب میں دوبارہ پڑھنا گویا ایک ہی نماز کودومرتبہ پڑھناہے۔اوریہ بروایت ابن عمر ممنوع ہے۔حيث قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لاتصلو صلوة فى يوم مرتين(ابوداود)

اب سوال يہ ہے کہ کیا معترضین کے یہ استدلالات صحیح ہیں؟ اور ان استدلات کی بنا پر مذکورہ بالا طرز عمل ناجائز یاخلاف اولیٰ کہنا ٹھیک ہے؟ اگر ٹھیک ہےتوپھر اس باب میں افضل صورت کیا ہے؟مکتوب

ج:حنفیہ وشافعیہ وغیرہ کےنزدیک تہجد اورتراویح کےدرمیان مصداق اورمفہوم دونوں اعتبار سےفرق ہے۔

العرف االشذى1/234(تقرير ترمذى انور شاه مرحوم)وبين التراويح واالتهجد فى عهده عليه السلام لم يكن فرق فى الركعات بل فى الوقت والصفة اى التراويح بالجماعة فى المسجد بخلاف التهجد وإن  الشروع فى التراويح يكون فى أول اليل وفى التهجد فى آخر الليل انتهى ہوسکتا ہے کہ جولوگ اول شب میں تروایح ادا کرتے ہیں اورآخر شب مین تہجد اوراس طرح تروایح اورتہجد کےدرمیان جمع کرتے ہیں وہ قائلین فرق کےہم خیال ہوں ۔قائلین فرق بین التراویح والتہجد کہتے ہیں کہ حضرت جابر ﷜ کی حدیث مذکورہ فی السوال ضعیف(آثار السنن اللنیموی وغیر ذلک من کتب الحنفیہ) اورحضرت عائشہ ﷜ کی حدیث  میں تہجد کابیان ہے نہ تروایح کا ۔بذالجہود میں ہے:

یشکل هذاراى حديث عائشه المشار اليه فى االسوال بصلوة التراويح فانه صلى الله عليه وسلم ثلث ليال تم تركها فرضيتها والجواب عنه: أن هذا الحديث لاتعلق له بالتراويح لانفيا ولااثباتافكانها صلاة اخرى والاستدلال بهذا الحديث على ان التروايح ثمان ركعات لغو هكذا كتب مولانا محمد يحيى الرحوم من تقرير شيخه انتهي ويعني بشيخه الشيخ رشيد احمد :كنكوهي وقال القاري قوله فى رمضان اي فى لياليه وقت التهجد فلاينافيه زيادة فصلاها بعد صلوةالعشاء من صلوة التراويح انتهي مرقاة

قلت :حديث جابر ليس بضعيف بل هو حسن وقدرد شيخنا فى شرح الترمذى وغيره من عملاء اهل الحديث فى تصانيفهم على من رام تضعيفه من الحنفية واما حمل الكنكوهي والقاري حديث عائشه على غير التراويح  فهو تصانيفهم على من رام تضعيفه من االحنفية  والشافعية ممن مضى كماسياتى فلايلتفت  الى ماقالا به اور عبدالله بن عمر کی حدیث  مذکور فی السوال ان کے مذہب پرمذکور بالاطرز عمل کےمخالف نہیں ہے وهور ظاهر لمن له ادنى تامل همارے نزدیک تراویح اورتہجد کےدرمیان فرق کرنا یعنی دونوں کامصداق الگ الگ بتانا صحیح نہیں لانہ مخالف للاحادیث الصحیحۃ اور اگر بالفرض دونوں   درمیان باعتبار مصداق کےفرق ہوبھی تورسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرام سے تراویح اورتہجد کےدرمیان جمع کرنا کسی ضعیف روایت سےثابت نہیں خود قائلین فرق کوبھی اس کااقرار ہے۔العرف الشذي(1/234) میں ہے فلم يثبت فى رواية من الروايات انه عليه والسلام صلى التراويح والتهجد  علحدة فى رمضان بل طول التراويح (الى ان قال فى بيان معنى قول عمر: والتى تنامون عنها خير مماتقومون الخ ولايتوهم ان مراد عمر ان ياتوبالتهجد ايضا فانه لم يثبت عنه عليه السلام ولا عن الصحابة جمعهم بين التراويح والتهجد انتهى:

ميرے نزدیک :تہجد ۔صلوۃ اللیل۔قیام اللیل۔قیام رمضان ۔تراویح۔ان پانچوں کامصداق ایک ہے ۔غیر رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نما ز تہجد ہوتی تھی۔وہی رمضان میں آنحضرت ﷺ کا قیام رمضان یعنی :تراویح ہوجاتی ۔

(2)آپﷺ نےتہجد رات کےاول وسط اورآخرتینوں حصوں میں ادافرمایا ہےاورچوں کہ تہجد اورقیام رمضان (تراویح) دونوں ایک ہیں اس لئےتراویح بھی رات کےہرحصہ میں ادا کی جاسکتی ہے۔

(3)آں حضرت ﷺ نےخود تراویح اول شب کےبعد بھی بلکہ وسط شب کے بعد ادا کی ہے۔

(4)اسی طرح آپﷺ نےتراویح باجماعت اوربغیر جماعت کے دونوں طرح ادا فرمائی ہے۔

(5)ونیز مسجد میں پھی پڑھی اورگھر میں بھی اورصحابہ کوجماعت کےساتھ یاانفراد گھر میں تراویح پڑھنےکی تاکید فرمائی ۔ارشاد ہے:فصلوأيها الناس فى بيوتكم فان أفضل صلوة المرءفى بيته(1)

(6)غير رمضان میں تہجد بھی آپ ﷺ نےباجماعت ادا فرمایا ہے۔ ان تمام دعوؤں پردلائل حدیثیہ معتبرہ قائم اور موجود ہیں۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ولولا ضیق النطاق لاتینا بہا جمیعا

اصل سوال کاجواب:اگر کوئی شخص اول شب میں جماعت کےساتھ یااکیلا آٹھ رکعت اورکبھی دس رکعت یہ سمجھ کرپڑھے کہ رسول اللہﷺ سےرمضان کی تراویح مسنون (قیام رمضان جس پر مخصوص ثواب کاوعدہ کیاگیا ہے) ادا ہوجائیں گی لیکن ثواب  موعود مخصوص کےعلاوہ محض مزید ثواب حاصل کرنےکی نیت   سے آخر شب کوافضل سمجھ کراس میں بھی کچھ نوافل(جن کےبارےمیں اس کو اختیار  ہے کہ پڑھنے یانہ پڑھے اورجومؤکد نہیں ہیں) ادا کرے بشرطیکہ اول شب میں پڑھی ہوئی رکعتوں کوتراویح اوران زوائد نوافل کوتہجد نہ سمجھے تو اس کا یہ طرز عمل ناجائز ہوگا اور نہ مکروہ ۔اس طرز عمل کےناجائز یاخلاف اولیٰ ہونے پر مذکورہ بالاہر سہ استدلال  مخدوش ہے۔

(الف)حضرت جابر ﷜ کی حدیث مذکور فی السوال میں لفظ:صلی فاوتر سےبظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے وتر تراویح کےبعد بلاتاخر وتوقف ادا فرمائی ۔لیکن یہی حدیث قیام الیل للمروزی میں بایں لفظ مروی ہے: صلى  رسولا ل الله صلي الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات ثم اوتر اورحافظ زيلعى نےنصب الرایہ تخریج ہدہیہ میں بایں لفظ نقل کیا ہے: فصلی ثمان رکعات واوتر

ظاہر ہےکہ یہ الفاظ تراویح کی آٹھ رکعتوں کےساتھ بلاتوقف وتاخیر وتر ادا کرنے پر نہیں دلالت کرتے اوراگریہ ثابت بھی ہوجائےکہ آں حضرت ﷺ نے بلاتاخیر اورکسی شفع کےذریعہ فصل کئےہوئے بغیر تراویح کےساتھ وتر ادا کرلی تھی تو مذکورہ طرز عمل ہوجائے اس حدیث کےخلاف نہیں ہوگاکیوں کہ یہ نوافل بھی تراویح کا ہی حصہ ہیں۔اوراس کےحکم میں ہیں۔مگر اس طرح کہ پڑھنے والا  ان کے بارے میں میں مخیر ہےگویایہ نوافل تراویح  سےخارج اوراس کےعلاوہ نہیں ہیں بلکہ اس کےاجزا زوائد ہیں پس اس شخص کی وتر بھی تراویح کےساتھ بغیر توقف کےادا ہوئی یہ نوافل تراویح سےالگ نہیں ہیں بجائے تراویح کےتہجد کےساتھ وتر کاادا کرنالازم  آئے کیون کہ رمضان میں تراویح  اورتہجد دونوں ایک ہیں یہاں زیادہ سےزیادہ یہ بات پائی گئی کہ اس نےتراویح کےکچھ حصہ اول  آئےکیونکہ رمضان میں تراویح سےالگ  تہجد نہیں ہیں بجائے تراویح کے تہجد کےساتھ وتر کاادار کرنا لازم  آئے کیوں کہ رمضان میں تراویح اورتہجد دونوں ایک ہیں زیادہ سےزیادہ یہ بات پائی گئی کہ اس نےتراویح کےکچھ حصہ کواول شب میں ادا کیا اورکچھ حصہ کوزائد اورنوافل کےدرجہ میں غیر موکد ہےآخر شب میں اداکیا وھذا لاباس بہ  اس حدیث سےاعتراض تو ان لوگون پر پڑے گاجوتراویح اورتہجد میں فرق کریں اوراول شب کی رکعتوں کوتراویح اورآخر شب کی نوافل کوتہجد سمجھیں اوروترکو تراویح کےبجائےتہجد کےساتھ ادا کریں۔وہذالم نقل بہ  فلایرد علینا۔

 ونیز حضرت جابر ﷜ کی حدیث میں طریق عمل مذکور ہےیہ اس شخص کے لئے ہےجواول شب میں تراویح یاتہجد پڑھنےپریہ اس شخص کے لئے ہےجواول شب میں تروایح یا تہجد پڑھنے پر  اکتفا کرے بخلاف اس شخص کے جوترواویح یاتہجد کی کچھ رکعتیں اول شب میں ادا کرنا چاہے اورکچھ آخر میں تو ایسےشخص کےلئے (اجلعو آخر صلوتكم باليل وتر(بخارى كتاب الوتر باب ليجعل آخر صلوته وترا12/12) کی رو سے وتر موخر کرکے آخر شب کی نوافل کےبعد اداکرنا اولی افضل ہے ۔ونیز حدیث جابر ﷜ سےزیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آں حضرتﷺ کی وتر جس قدر تطوع آپ کوادا کرنا تھا اس سے متصل  تھی یعنی : آپ نےاس کومؤخر  نہیں کیاتھا۔اب جوشخص آخر رات میں نفل ادا کرکے وتر پڑھے اس کی وتر بھی تطوع سےمؤخر نہیں ہوگی۔فلا مخالفة بين فعله ومايدل عليه حديث جابر

ونیزحضرت جابر  کی حدیث تروایح کی آٹھ رکعتوں کےساتھ بغیر توقف وتاخیر  کے وتر پڑھنے کےوجوب پر  نہیں دلالت کرتی کہ مذکورہ طرز عمل کوناجائز کہا جائے۔

(ب)حضرت عائشہ ﷜ حدیث میں بلاشک وشبہ تراویح کاہی بیان ہے ملاحظہ ہو فتح القدير لابن الهمام الحنفى11/198نصب الرايه للزيلعى الحنفى 2/153موطا امام مالك (261ص:88)العرف الشذى للمولوى انور شاه الحنفى1/234معرفة السنن للبيهقى الشافعى 4/495صلوة التراويح للسيوطى الشافعي ص19فتح البارى للحافظ ابن حجر الشافعى 4/25/عمدة القارى للعيني الحنفى11/162عارضة الحوذى لابن العرجى المالكى 4/21فتح سر المنان (مخطوطه)للمولوى عبدالحق الدهلوى الحنفي

لیکن یہ حدیث مذکورہ طرز عمل کےخلاف  نہیں ہے۔خلاف اس وقت ہوتی جب گیارہ سےزائد رکعتوں کو جو اخیر شب میں ادا کی جائیں رسول اللہﷺ کاطریقہ  معمولہ اور سنت مسلوکہ اور احادیث میں بیان کردہ مخصوص ثواب کا موجب اورباعث سمجھ کر پڑھا جائے۔اول شب میں معین رکعتوں کو پڑھ چکنے کےبعد آخر شب میں بھی نوافل پڑھنے والا تویہ سمجھتا ہےکہ تروایح کےبارے میں سنت نبوی ثابتہ پرآٹھ رکعت ادا کرنے سےعمل ہوگیا جو آپ  اپنی جگہ  پر کامل  اوراکمل ہے اور وہ ان کےادا کرنےسےثواب  مخصوص زیادہ ملے گے اورگیارہ سےزیادہ ممانعت یاکراہت  بھی ثابت نہیں  ہے محض زیادتی ثواب کےلئےوسط شب یاآخر شب میں کچھ اور نقل (بغیر تعین کے چاریا چھ یاآٹھ یادس یا بارہ علی ہذالقیاس )پڑھ لیتاہے۔ ظاہر ہےکہ یہ سمجھ کر پڑھنے میں نہ حدیث مذکورہ کی مخالفت ہےنہ ارتکاب ہے نہ ارتکاب مکروہ اورترک اولیٰ ۔اس کی مثال توایسی ہےکہ احادیث میں بعض اذکار کے معین  اعداد مخصوص عظیم  اوراجر مذکور ہے اب اگڑ کوئی شخص اس  بیان کردہ ثواب کےلئے اس عدد کوکافی سمجھتے اورحدیث میں اس عدد معین پر ذکر کردہ مخصوص ثواب ملنے کایقین  رکھتا ہو محض ثواب کےلئے اس  ذکر کوچند بار اورکہہ لے ۔ظاہر ہےکہ اس طرز عمل کوحدیث کےخلاف نہیں کہاجائے گا نہ مکروہ اور خلاف اولی۔اس طرح یہاں  بھی مذکور  طرز عمل حدیث  عائشہ ﷜ کےخلاف نہیں ہوگا۔

ونیز نسائی اوراداود کتاب قیام الیل باب نھی  النبی ﷺ عن وتر ین فی لیلة3/229) عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، قَالَ: زَارَنَا أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَمْسَى بِنَا وَقَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدٍ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ، ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلًا فَقَالَ لَهُ: أَوْتِرْ بِهِمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»(حدیث:1679)

اس حدیث سےمعلوم ہوتاہےکہ تراویح کی معین (آٹھ )رکعتوں سے رکعتوں سے زائد نفل پڑھنے کوصحابہ اورتابعین ناجائز اورمکروہ اورخلاف اولی نہیں سمجھتے تھے۔اور اس حدیث میں احتمال کہ تراویح مسنونہ کی بعض رکعتیں ایک جگہ قبل وتر کےاوربقیہ رکعتیں بعد وتر کے کسی مسجد میں اداکیں بعید ہے ولایترك الظاہر بالمحتملات البیعدۃ

(ج) حدیث ابن عمر ﷜ بھی مذکورہ ہے طرز عمل کےخلاف نہیں ہےاس لئےحدیث مذکورہ میں صلوۃ سےمراد فریضہ ہےاورحدیث کامطلب یہ ہےکہ فرض نماز ایک مرتبہ ادا کرلینےکےبعد دوبارہ فرض کی نیت اورجہت سے  نہ دہرائی جائے (نیل 3/189) اور تراویح یاتہجد سنت ہے نہ فرض اوراگر صلوۃ کوعموم پر محمول کیاجائے تب بھی مخافت نہیں ہوگی کیونکہ حدیث کامطلب یہ ہےکہ ایک ہی نماز کو دوبارہ نہ پڑھو چنانچہ نسائی میں یہی روایت:لاتعاداالصلوة فى يومين مرتين اورصحيح ابن حبان ميں:نهانى ان نعيد صلوة يوم مرتين (زيلعى 2/148) كے ساتھ مروی ہے اور آخر شب میں نوافل پڑھنے والے شب میں پڑھی ہوئی رکعتوں کااعادہ نہیں کرتے بلکہ یہ رکعتیں تراویح کی سمجھ کراداکرتے ہیں لیکن نوافل زوائد کےدرجہ میں,وههنا وجهان آخران للرد على من ينظن المخالفة بين حديث ابن عمر هذا والعمل المذكور اعرضنا عن ذكرها لما فيهما من التكلف والبعد عن الاصابة

خلاصه جواب كايہ ہے کہ اوپر بیان کردہ قید وشرط کےساتھ کوئی شخص آخر شب میں نوافل پڑھے اوراس وقت وتر ادا کرے تویہ طرز عمل ناجائز اورمکروہ نہیں ہوگا بلکہ کراہت جائز ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 144

محدث فتویٰ

تبصرے