السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتےہیں علماءدین مسئلہ میں ایک سن رسیدہ ضعیف البدن کبیر السن شخص شعبان کےمہینہ میں بیمار ہونصف شوال کےقریب انتقال کرگیا۔بقیہ شعبان اورپورا رمضان اور نصف شوال ایسی علالت میں گذا کہ مذکور کے کبھی شفا ہونے کی امید نہیں ہوئی علالت اورانتہائی ضعف وناتوانی کی وجہ سےمریض مذکورہ رمضان کےروزہ نہ رکھ سکا ۔پس اب اس کےفوت شدہ روزوں کی قضا واجب ہے یانہیں؟ اگر واجب ہے تو کیا اوس کی بیوہ اوراولاد ذکورواناث کچھ کچھ روزے تقسیم کرکے قضا کرسکتے ہیں؟ اوراگرقضا کےبجائے
کھانا کھلانا واجب ہےتو کس قدر اورکس کےذمہ ؟ اوراگرقضا اورکھاناکھلانا کچھ بھی واجب نہیں تو کیوں؟
جوشق بھی شرعا صحیح ہوبراہ کرم مدلل بیان فرمائی جائے۔جواب میں اجمال سےکام نہ لیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قواعد شرعیہ کی روسےنہ قضا آتی ہے نہ کھانا بظاہر اس لئے کہ وجوب قضا کا وقت ملانہیں تفسیر فتح البیان میں ہے:اى فعليه عدة اى فماحكم عدة اوفالو اجب عدة من غير ايام موضعه وسفره واليه ذهب الظاهر وبه قال ابوهريرة كشف القناع(2/390)میں ہے کہ(ولاقضاء إن مات) من أخر القضاء لعذر لأنه حق الله تعالى وجب بالشرع فسقط بموت من وجب عليه قبل إمكان فعله غير بدل كالحج انتهي
پس صورت مذکورہ میں مرض مستمر رھا یہاں تک انتقال ہوگیا اگر زمانہ غیر مرض کاملتا پھر انتقال ہوتا تواس صورت پر قضا لازم آتی لیکن احتیاط اسی میں ہےکہ ولی لوگ روزہ رکھ دیں یا ہر روزہ کےبدلہ کھاناکھلاویں نصف صاع جس کااندازہ سواسیر سےکچھ قدرے زیادہ ہوتا ہےچاول یاآٹا وغیرہ اس کے لوازمات کےساتھ ادا کریں۔
قال النبي صلى الله عليه وسلم: من مات وعليه صوم صام عنه وليه رواه البخارى ومسلم وسئلت عائشة عن القضاء؟ فقالت :لابل يطعم رواه سعيد باسند جيد بخاري كتاب الصوم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب