سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) رویت ہلال کی خبر روزہ رکھنے کے بعد ملے؟

  • 17365
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1109

سوال

(39) رویت ہلال کی خبر روزہ رکھنے کے بعد ملے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان شریف کی رویت ہلال کی خبروں کو8یا9بجے اوربعض لوگوں کودن کو دو بجے پہنچی تو اسی وقت  سب لوگوں نےروزہ کی نیت کرلی۔کچھ لوگوں نے قبل خبر ملنے کے کھالیا تھا۔اوربعض نےکچھ نہیں کھایا تھا تو کھانے والوں کو روزہ کی قضا لازم ہوگی یا نہیں اورکیا فرضی روزہ کی نیت بعد فجر کےکرنے سے روزہ ہوتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شک جن لوگوں نےرویت ہلال کی شہادت ملنے سےپہلے کھالیا ہے ان کے اس دن کےروزہ کی قضا لازم ہے۔

قال فى المقنع فى فقه الامام احمد1/360:واذاقامت برؤية الهلال فى اثناء النهار لزمهم الامساك والقضاء قال فى الشرح الكبير: وهذا قول عامة اهل العلم:فرض روزہ کےلئے جس شخص کورات میں نیت کرنے پر قدرت ہوا اس کو نیت کرنی ضروری ہے اگربغیر نیت کے صبح کرلیا توروزہ نہیں ہوگا۔ارشاد ہے:من لم يجمع االصيام قبل الفجر فلاصيام له(ابوداود ترمذى نسائي ابن ماجه احمد خزيمه ابن حبان دارقطنى)ہاں اگر رات نیت کرنےپر  قدرت نہ ہوتو دن نیت کرنی کافی ہوجائے گی اورروزہ صحیح ہوجائے گا۔

قال شيخنافى شرح الترمذى(2/49) إنما صحت النية فى النهار فى صورته شهادة الأعرابى برؤية الهلال لأن الرجوع الى الليل غير مقدور والنزاع فيما كان مقدورا فيختص الجواز بمثل هذه الصورة اعنى من انكشف له فى النهار ان ذلك  اليوم من رمضان وكمن ظهر له وجوب الصيام عليه من النهار كالمجنون ليضيق والصبى يحتلم والكافر يسلم انتهي

محدث

عزیز مکرم مولوی محمد امین صاحب رحمانی زادکم اللہ علما وفضلا

السلام علیکم

آپ کاکارڈ مورخہ29ستمبراکتوبر کو موصول ہوا جس کاجواب5/1اکتوبر کو اور اس کےبعد طلاق والا رسالہ بک پوسٹ کےذریعہ بھیج دیاگیا ۔ امید ہےخط اوررسالہ دونوں آپ کو مل گئےہوں گے۔خط بھیجنے کےبعدادارہ الحسنات کی طرف سے3/عدد روزہ والارسالہ بذریعہ رجسٹری پہنچا۔ آپ کے لکھنےکےمطابق ایک عدد حاجی عبدالسلام اور حکیم صاحب کےیہاں بھیج دیا کاگیا۔امید ہےحکیم صاحب نے رسالہ کی رسید آپ کو لکھ دی ہوگی اوررسالہ کےمتعلق اپنا تاثر  بھی لکھ دیا ہوگا۔رسالہ عجلت میں من اولہ الی آخرہ پڑھ لیا گیا ہے۔ جہاں جوچیز کھٹکی اور اپنی تحقیقی مسلکہ اہل حدیث کےخلاف معلوم ہوئی اسے مختصر الکھا جارہاہے ۔کاش آپ نےچھپوانےسےپہلے کسی اہل عالم کودکھلالیا ہوتا جوآپ کےنزدیک معتمد ہوتا۔رسالہ کی کاپی اورپروف تصحیح کی بنظر غائر نہیں کی گئی ہے اس لئےچھاپہ کی متعد غلطیاں رہ گئی ہیں۔رسالہ آپ کی تالیف کانقش اول  ہےامید ہےدوسرے نقوش اس سےبہتر ہوں گے۔

آپ نے نے صفحہ :24تا27چاند دیکھنے کی شہادت کےعنوان کےتحت جمہور علماء کاجو مسلک رمضان عید الفطر اورعید الاضحی کے چاند  کےبارے میں مع دلیل کےلکھاہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن صفحہ:32تا34میں رویت ہلال کی خبر شہادت  ہےیاروایت کے زیر عنوان مدیر زندگی کی تحقیق کی روشنی میں آپ نے جوکچھ لکھا ہے وہ آپ کےمحولہ بالا تحریر کےبالکل خلاف اورمناقص ہے۔

پہلے آپ نےعید وبقر عید اوررمضان کےچاند کےدرمیان فرق کرتے ہوئے عید وبقر کےچاند کےلئے دوآدمیوں کی گواہی ضروری ہےاوردوسر ی جگہ مدیر زندگی کی تحقیق سےاتفاق کرتے ہوئے اس فرق کواڑا دیا ہےاو سب چاندوں کےلئے ایک آدمی کی شہادت یاخبر کو کافی قرار دے دیا ہے۔آپ نےتحریر کایہ تضاد بالکل کھلا ہوا ہے۔ہمارے نزدیک فرق والامسلک جس پر ابو ثور کےعلاوہ پوری امت کااتفاق ہے وہ ہی صحیح ہےیعنی :عید بقر عید کےلئے دوآدمیون کس شہادت یاخبر ضروری ہے۔ہمارے نزدیک اس فرق کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رمضان کےلئے رویت ہلال کی خبر روایت اورعیدین کے لئے رویت ہلال کی خبر شہادت ہے۔ بلکہ اس فرق کی بنیاد اس بارے میں روایت کردہ احادیث مرفوعہ ہیں جوکتب احادیث مسند احمد نسائی ابوداود ترمذی صحیح ابن حبان مستدرک حاکم دارقطنی وغیرہ میں مروی ہے ۔آپ کایہ لکھناکہ: اس فرق کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے میرے لئےسخت تعجب کاباعث ہے۔

مدیر زندگی نےفروری 1971کےشماروں  میں فرق والی حدیثوں پر کیابحث کی ہے؟ اس وقت میرے سامنے وہ ومحولہ شمارہ نہیں ہے کہ اس میں اس کےمتعلق کچھ لکھوں البتہ  انہوں نےشوال کے چاند کےثبوت میں ایک شخص کی رویت کی خبر قبول کرکےعید کرنے کے ثبوت میں حضرت عمر جواثر مسند احمد اورکنزالعمال سےپیش کیا ہےوہ میرے سامنے ہے۔حضرت عمر﷜ کاپہلا اثر مسنداحمد28/1/144اوردارقطنی ص: 232میں مروی ہے۔یہ اثر سند انقطاع کی وجہ سےضعیف ہے۔عبدالرحمن بن ابی لیلی کی عمر حضرت عمر﷜ کی  وفات کےوقت کل 6برس کی تھی جیساکہ خطیب نے تاریخ بغداد میں حافظ نےتہذیب االتہذیب میں صراحتہ ذکر کیا ہے۔ ان کا سماع حضرت عمر﷜ سےثابت نہیں ہے۔اس روایت میں کنت مع عمر کےلفظ کامدار عبدالرحمن کےشاگر د عبدالاعلیٰ بن عامر ثلعبی پر ہےاور مذکورہ لفظ کےذکر کرنے میں ان وہم ہوگیا ہے اوردوسرا اثر قطنی اوربیہقی کےحوالہ سےمذکور ہے۔علی المتقی نےاس کےبعد یہ لکھا ہے:وضعفاہ اس اثر کامدارو وہی عبدالاعلی بن بن عامر ثعلبی ہیں۔ دارقطنی اس اثر کوروایت کرنے کےبعد لکھتے ہیں: كَذَا رَوَاهُ عَبْدُ الْأَعْلَى عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , وَعَبْدُ الْأَعْلَى ضَعِيفٌ , وَابْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يُدْرِكْ عُمَرَ وَخَالَفَهُ أَبُو وَائِلٍ شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ , فَرَوَاهُ عَنْ عُمَرَ , أَنَّهُ قَالَ: «لَا تُفْطِرُوا حَتَّى يَشْهَدَ شَاهِدَانِ» , حَدَّثَ بِهِ الْأَعْمَشُ , وَمَنْصُورٌ عَنْهُ ثم ذكر روايتهما بنحو ذلك تكلم البيهقى فى سننه

صفحہ:26سطر:4میں امام ثوری کےبجائے ابو ثور ہونا چاہئے۔

صفحہ30کی آخری سطر میں کی ہے اوروہ یہ ہے کہ بجائے کی ہےہوناچاہئے ۔ریڈیو کےذریعہ چاند کی خبر کااعتبار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی دوسری شرط کےبیان میں ص:30کی پہلی اوردوسری سطر میں جولکھا گیا ہے اس سےمجھے اتفاق نہیں ہے۔اس صفحہ میں اختلاف مطالع کےزیر عنوان آپ نے یہ لکھا ہے:

جہاں تک ہمیں معلوم ہےہمارےملک ہندوستان میں مطالع کاکوئی قابل لحاظ اختلاف نہیں ہے۔ اس لئےیہاں کسی مقام پربھی رویت ہلال ثابت ہوجائے توپورےملک کےلئےقابل اعتبار عمل ہوگا۔

 آپ کی اس رائےسے مجھے سخت اختلاف ہے۔میرے نزدیک کم وبیش 500میل کی مسافت  پر مطلع اس حد تک مختلف ہوجاتا کہ اس بعید مسافت  بر اس شب میں طلوع  ہلال ضروری نہیں۔ لہذا مدارس یا مشرقی پنجاب یادہلی کی رویت بہار اورہندوستان کی دوسری مشرقی ریاستوں کےلئےمعتبر نہیں ہوگی۔

ص:48میں عنوان رمضان میں روزے کی قضا ء کاوقت میں میں بجائےکےہوناچاہئے۔

ص:49میں رواہ ابوداود کے بعدبجائے ترمذی نسائی ابن ماجہ کے والترمذی والنسائی  وابن ماجہ ہوناچاہئے۔یا پھر تخریج میں صرف اس قدر لکھناچاہئے (ابوداود ترمذی نسائی ابن ماجہ)۔

ص:54یوم شک کاروزہ صرف مکروہ ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ معصیت ہونےکی وجہ سےبالکل ممنوع ہے۔

ص:60شب برات کےروزے کے بجائے شب برات کاروزہ کا عنوان ہوناچاہئے شب براب کے اس روزے کےبارے میں حضرت علی کی مذکورہ حدیث سخت ضعیف ہےاس سے اس روزہ کےاستحباب یاسنت کااثبات غلط ہےوہ اس لائق ہے ہی نہیں کہ اس سے کوئی حکم شرعی ثابت کیا جاسکے۔روزے کےبارے میں اس روایت کےعلاوہ کوئی دوسری روایت موجود نہیں ہے اگر کوئی دوسری حدیث یامذکورہ اس روایت کاکوئی دوسرا طریق میں ہے تو اس سےمجھ کومطلع کیجئے۔

ص:67یہ کہنا کہ تروایح کی رکعتیں کتنی ہیں؟ اس بارےمیں نبی ﷺ سےکوئی بات ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ہمارے نزدیک غلط ہےآگے ابو سلمہ بن عبدالرحمن عن عائشہ کی حدیث  کوآپ نےخود  ہی آٹھ رکعت تروایج کےثبوت میں پیش کیا ہے۔سلف اس سےزیادہ رکعتوں کوبطور نقل  پڑھ لیا کرتے تھے اس سے یہ کیوں ثابت ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ سےعملا تعداد رکعات تروایح کےبارے میں کچھ منقول  پڑھ لیا کرتے تھے تواس سے یہ کیوں ثابت ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ سےعملا تعداد رکعات تروایح کے بارے میں کچھ منقول نہیں ہے۔یہ کہنا بھی غلط ہےکہ بیس رکعت کےبارے میں متعدد روایات موجود ہیں:عبداللہ بن عباس ﷢ کی سخت متفقہ ضعیف حدیث کےسوا دوسری کونی سی روایت موجود ہے؟ آٹھ رکعتوں کےحق میں بخاری ومسلم کی یہ صحیح روایتیں ہیں اس عبارت میں روایتیں کےبجائے روایت یاحدیث کالفظ ہوناچاہئے۔

ص:28تروایح کی نماز میں ہر چار رکعت کےبعدتھوڑی دیر بیٹھ کر جسم کوذرا آرام پہنچادینے کی ہدایت کسی حدیث مرفوع یااثر صحابی میں مذکور ہے؟ بیس رکعت پڑھنے والوں کاعمل اورچیز ہےاور اس کاآں حضرتﷺ یاصحابہ سےمنقول ہونا اورچیز اورجب یہ منقول نہیں ہےتو مقلدین کابے دلیل تعامل کوئی شرعی چیز نہیں نیز جامع الرموز سےمنقولہ ذکر کو تروایح کی دعاکہنابھی ٹھیک نہیں ہے۔

ص:74:اعتکاف اپنی بستی  کی جامع  مسجد کےلفظ سےذہن جمعہ  مسجد کی طرف  متبادر ہوتا ہے اور اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اعتکاف جمعہ مسجد میں کرنا چاہئے اوریہ صحیح نہیں ہے۔چنانچہ آپ اس صفحہ کی آخری سطر میں لکھتے ہیں اعتکاف کےلئے ایسی مسجد کا ہونا جس میں پانچویں وقت باجماعت نماز ہوتی ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کےلئے جمعہ مسجد شرط نہیں ہےاوریہی صحیح ہے۔

ص:76مسجد کےبجائے جامع مسجد کےاندر اس عبارت میں جامع مسجد کے بجائےکسی دوسری مسجد کالفظ ہوناچاہئے۔ کیوں کہ جامع مسجد کےلفظ سےجمعہ مسجد طرف ذہن جاتا ہے چنانچہ آپ  نےبھی بعض اس کےبعد یہ لکھا ہے جمعہ کی نماز ادا کرنےکے لئے جامع مسجد اس قدر پہلے جانا اورصفحہ کےحاشیہ پر آپ نےلکھا ہےبعض حدیثوں کی رد سےجامع مسجد کے علاوہ ایسی مسجدوں میں اعتکاف کیا جاسکتا ہےجن میں پنجگانہ باجماعت ہوتی ہو۔

  وہ کونسی حدیث ہے جس میں اس قسم کی تشریح موجود ہے؟ یہ تو حضرت عائشہ ﷜ کےقول :لاإعتكاف إلا فى مسجد جامع كی ایک توجیہ وتاویل ہے۔

﴿وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ...﴿١٨٧﴾... سورةالبقرة

میں مساجد کاعموم واطلاق اعتکاف کےلئےجمعہ کی تخصیص کےمنافی ضرورہے۔

ص:79سطر:6 میں جامع مسجد کے بجائے کوئی دوسرا لفظ ہوناچاہئے۔کیوں کہ اس سے جمعہ کی مسجد کی طرف ذہن متبادر ہوتا ہے ۔

ص:92سطر7میں سورہ اعلیٰ سورق کےبجائے سورہ اعلیٰ یاسورہ ق ہونا چاہئے۔

ص:102جب گہیوں سےصدقہ فطر کےبارے میں کوئی حکم اورارشاد نبوی بسند معتبر منقول نہیں ہے اوراس نصف صاع نکالنےکی بنیاد حضرت معاویہ اوردیگر صحابہ کرام کامحض فتوی اورعمل ہےاور انہوں نےیہ فتوی صرف اس وجہ سےدیاتھاکہ ان دنوں گیہوں....

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 135

محدث فتویٰ

تبصرے