السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کافی دنوں تک سعودی عرب کےایک فارم میں ملازم تھا مگر کسی مجبوری کےپیش نظر نوکری چھوڑ کر وطن آگیا اورصورت حال یہ ہے کہ جس کمپنی میں ملازم تھااس کمپنی میں میرے نوے ہزار کی رقم جمع تھی جس کو کئی سال کاعرصہ ہوگیا اب اس اگست 1989کے مہینےمیں وہ نوے ہزار کی رقم آگئی ہےتو آن محترم سےدریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ اب اس رقم پر زکوۃ واجب الاد ہےیا نہیں؟
اگر ہےتو کس حساب سے؟
اور نہیں ہےتو اس کی دلیل کیا ہے؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کمپنی کی ملازمت چھوڑنےکےکئی سال بعد اس کمپنی کی طرف سے آپ کےنام جورقم نوے ہزار کی آئی ہے آب نےاس آمد رقم کی بابت کوئی تفصیل نہیں لکھی کہ وہ کس نوعیت کی ہے۔
وہاں کام کرنےکےزمانےمیں کمپنی ہرماہ آپ کی تنخواہ سےایک معین مقدار وضع کرکےآپ کےکھاتےمیں جمع کرتی رہی ہےتاآنکہ وہ نوے ہزار تک پہنچ گئی اوراب کمپنی نےاسے آپ کے یہاں بھیج دیا ہےاگر مذکورہ رقم کی نوعیت یہی ہے تو آپ اس پوری رقم کےمالک ہیں البتہ اس سے پہلے اسے وصول نہیں کرسکتے اور نہ اس میں کسی قسم کاکوئی تصرف اورنہ اس سےکوئی فائدہ اٹھاسکتے تھے۔
اس رقم کی دوسری نوعیت یہ ہوسکتی کہ آپ کی کٹوتی کی کل رقم آمدہ رقم نوے ہزرار کا مثلا دوتہائی ہواور بقیہ ایک تہائی کمپنی نےآپ کےی حسن کارکردگی کی وجہ سے بطور انہام دی ہو۔اگر مذکورہ آمدہ رقم کی نوعیت یہ ہے توآپ انعام والی رقم کےاس کی وصول ہی کےدن مالک ہوئے بخلاف کٹوتی والی رقم کےکہ ےپ شروع ہی سےہرجمع ہونےوالی رقم کےمالک رہے گواس میں تصرف نہیں کرسکتےتھے۔
مذکوررہ آمدہ رقم نورے ہزار کی تیسری نوعیت یہ ہوسکتی ہےکہ آپ کی تنخواہ سےکمپنی ہرماہ کٹوتی کرکے جورقم آپ کھاتے میں جمع کرتی رہی ہےکمپنی نےاس پر اتناسود دیا ہو کہ کل مجموعی رقم نوے ہزار تک پہنچ کئی ۔اگر واقعہ یہی ہےتو آپ اس صورت میں صرف کٹوتی والی رقم کےمالک ہیں اور سود والی رقم کےمالک نہیں اور آپ کےلئےاس سےکسی قسم کافائدہ اٹھانا جائز ہے۔
تینوں صورتوں میں آپ کی اصل رقم یعنی: کٹوتی والی شرعا زکوۃ واجب ہےیانہیں؟ اورکیامال ضمار کےحکم میں ہے؟ اورضمار کا کیامعنی مفہوم ہے؟ اور ضمار مال میں شرعارکوۃ ہےیا نہیں اورکیا وہ مال ضمار کےحکم میں ہے؟ اورضمار کاکیا معنی ومفہوم ہے؟ اورضمار مال میں شرعا زکوۃ ہےیانہیں ؟اور اگر اس میں زکوۃ واجب ہےتوصرف وصولی کےسال کی تمام گزشتہ سالوں کی ؟پہلے ضمار کےمعنے معلوم کیجئے
ابن الاثير الجزرى النهاية فى غريب الحديث(3/100)ميں لکھتے ہیں:
المال الضمار: الغائب الذى لايرجى واذا رجى فليس بضمار من اضمرت الشئى :اذا غيبته فعال بمعنى فاعل او مفعل انتهى
اور شاہ ولی اللہ دہلوی مصفى شرح فارسي موطا امام مالك میں لکھتے ہیں:
الضمار: مايتعذر وصوله كمالمغضوب والضال والمجود انتهى معربا
ان عبارتوں سےمعلوم ہواکہ مال ضمار غائب ہے جسے کےملنےاوروصول ہونے کی امید نہ ہو۔مثلا :جس کے پاس وہ مال ہے وہ اتنا تنگ دست اورمفلس ہے کہ اپنے مال کاقرض ادا کرنےکی بوجہ تنگ دستی ومفلسی کےقدرت ہی نہیں رکھتایاقرضدار قرض کااقرار واعتراف نہیں کرتا اور اصل مالک کےپاس کوئی گواہ نہیں ہے یاکسی نےغصب کرلیا ہے یاوہ گم ہوگیا ہےیاچرالیا گیا ہاے۔
اور مال ضمار میں زکوۃ کے وجوب وعدم وجوب کےبارے میں فقہاء کےتین قول ہیں: ایک :یہ کہ اس کی وصوب کے بعد تمام گزشتہ سالوں کی زکوۃ دینی ہوگی امام شافعی کااظہر القولین یہی ہے۔ اور اس بارے میں دوسرا قول: یہ ہےکہ مال ضمار میں زکوۃ واجب نہیں ہے یہی مذہب حنفیہ کاہے اور اس بارے میں تیسرا قول یہ ہے کہ مال ضمار میں صرف ایک سال یعنی وصول کےسال کی زکوۃ دینی ہوگی۔
شاولی اللہ صاب المسوی شرح الموطا1/227میں لکھتے ہیں:
اظهر قولى الشافعى أن فى الضمار والدين المؤجل والمتعذر أخذه ان يجب فيه اذ وجد للا حوال كلها وقال مالك عليه زكوة حول واحد مثل قول عمربن عبدالعزيز وعند ابى حنيفة لاتجب الضمار انتهى
وفى المصفى: فى الضمار ثلاثة اقوال مشهورة :الاول: تجب الزكوة لجميع السنين الماضية اذارجع الى صاحبه والثانى: لاتجب مطلقا والثالث تجب لسنه واحدة قال : ومنظور الاول ظهور الملك ومنظور الثاني:تعطل النماء ومنظور الثالث: خوف لاجحاف اذا وجبت لجميع السنين انتهى معربا من الفارسية
وقال ابن قدامه
الضَّرْبُ الثَّانِي، أَنْ يَكُونَ عَلَى مُعْسِرٍ، أَوْ جَاحِدٍ، أَوْ مُمَاطِلٍ بِهِ. فَهَذَا هَلْ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ؟ عَلَى رِوَايَتَيْنِ؛ إحْدَاهُمَا، لَا تَجِبُ، وَهُوَ قَوْلُ قَتَادَةَ، وَإِسْحَاقَ، وَأَبِي ثَوْرٍ، وَأَهْلِ الْعِرَاقِ؛ لِأَنَّهُ غَيْرُ مَقْدُورٍ عَلَى الِانْتِفَاعِ بِهِ، أَشْبَهَ مَالَ الْمُكَاتَبِ.
وَالرِّوَايَةُ الثَّانِيَةُ، يُزَكِّيه إذَا قَبَضَهُ لِمَا مَضَى. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَبِي عُبَيْدٍ، لِمَا رُوِيَ عَنْ عَلِيَّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي الدَّيْنِ الْمَظْنُونِ، قَالَ: إنْ كَانَ صَادِقًا، فَلْيُزَكِّهِ إذَا قَبَضَهُ لِمَا مَضَى. وَرُوِيَ نَحْوُهُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. رَوَاهُمَا أَبُو عُبَيْدٍ وَلِأَنَّهُ مَمْلُوكٌ يَجُوزُ التَّصَرُّفُ فِيهِ، فَوَجَبَتْ زَكَاتُهُ لِمَا مَضَى، كَالدَّيْنِ عَلَى الْمَلِيءِ.
وَلِلشَّافِعِيِّ قَوْلَانِ كَالرِّوَايَتَيْنِ، وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَالْحَسَنِ، وَاللَّيْثِ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكٍ يُزَكِّيه إذَا قَبَضَهُ لِعَامٍ وَاحِدٍ.
وَالْحُكْمُ فِي الْمَغْصُوبِ وَالْمَسْرُوقِ وَالْمَجْحُودِ وَالضَّالِّ وَاحِدٌ، وَفِي جَمِيعِهِ رِوَايَتَانِ؛ إحْدَاهُمَا، لَا زَكَاةَ فِيهِ.
نَقَلَهَا الْأَثْرَمُ، وَالْمَيْمُونِيُّ. وَمَتَى عَادَ صَارَ كَالْمُسْتَفَادِ، يَسْتَقْبِلُ بِهِ حَوْلًا. وَبِهَذَا قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ فِي قَدِيمِ قَوْلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ مَالٌ خَرَجَ عَنْ يَدِهِ وَتَصَرُّفِهِ، وَصَارَ مَمْنُوعًا مِنْهُ، فَلَمْ يَلْزَمْهُ زَكَاتُهُ، كَمَالِ الْمُكَاتَبِ. وَالثَّانِيَةُ، عَلَيْهِ زَكَاتُهُ؛ لِأَنَّ مِلْكَهُ عَلَيْهِ تَامٌّ، فَلَزِمَتْهُ زَكَاتُهُ، كَمَا لَوْ نَسِيَ عِنْدَ مَنْ أَوْدَعَهُ، أَوْ كَمَا لَوْ أُسِرَ، أَوْ حُبِسَ، وَحِيلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَالِهِ، وَعَلَى كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ لَا يَلْزَمُهُ إخْرَاجُ زَكَاتِهِ قَبْلَ قَبْضِهِ.
وقال فى الهداية:
وَقَالَ مَالِكٌ: إذَا قَبَضَهُ زَكَّاهُ لِحَوْلٍ وَاحِدٍ؛ لِأَنَّهُ كَانَ فِي ابْتِدَاءِ الْحَوْلِ فِي يَدِهِ، ثُمَّ حَصَلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي يَدِهِ، فَوَجَبَ أَنْ لَا تَسْقُطَ الزَّكَاةُ عَنْ حَوْلٍ وَاحِد
ولنا قول علي رضي الله عنه لا زكاة في مال الضمار انتهى
ہمارے نزدیک اس بارے میں راجخ قول یہ ہےکہ مال ضمار میں زکوۃ واجب نہیں ہے نہ گزشتہ سالوں کی نہ صرف ایک سال کی بلکہ وصولی کےبعد جب اس پر ایک سال گذرجائے تب اس میں زکوۃ واجب ہوگی جیساکہ حنفیہ کامذہب ہے۔
جس کمپنی میں آپ ملازم تھے اگر اس یہ دسور ہےکہ ملازمین کو نوکری چھوڑنے کے بعد کٹوتی کےذریعہ ان کی جمع شدہ رقم دیر سویر ضروت دیتی ہے اور ملازمین کواس دستور کی بنا پر جمع شدہ رقم ملنے کی پوری امید ہوتی ہے اور ملتی بھی ہے تو ایسی صورت میں آپ کی وصول ہونےو الی یہ رقم مال ضمار کی قسم سے نہیں ہے۔ آپ کو تمام گذشتہ سالوں کی زکوۃ دینی ہوگی۔ اوراگر کمپنی کا یہ عام دستور نہیں ہے اور تمام ملازمین کوجمع شدہ رقم کےملنے کی امید نہیں ہوتی تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہے اگر کمپنی کسی ملازم کوجمع شدہ رقم خلاف امید دے دے تو اسے اس کی زکوۃ نہیں دینی ہوگی آئندہ جب اس رقم پر ایک سال گزرجائے گا تب زکوۃ دینی ہوگی۔مکاتیب
٭کرایہ اور بھاڑے والے مکان یادوکان سےجوکرایہ کی آمدنی حاصل ہوا اپنی ذاتی یا اس کی مرمت خرچ کرنےکےبعد جب یہ آمدنی نصاب شرعی کے برابر بچ رہے اور اس دن سے اس کانصاب پورا سال گذر جائے تب اس ک نصاب کی زکوۃ ادا کرنی لازم ہوگی یعنی: کرایہ کی آمدنی کی زکوۃ اسی وقت لازم ہوگی جبو وہ خرچ واخراجات کے بعد نصاب کرے برابر رہ جائےاور اس نصاب پور ایک سال گذر جائے۔نصاب سےکم میں یا نصاب پر پورا سال گزرنےسےپہلے زکوۃ نہیں ہوگی واللہ اعلم
گنے میں وجوب عشر کے لئےنصاب کی نوعیت اور کیفییت پر کلام کرنےکے ضمن میں ان امور پر غور کرنامناسب اورمفید ہے:
1: گنےمیں عشر ہے یا نہیں؟
2: اگر اس میں عشر ہے تو اس کےلئے نصاب کی رعایت ضروری ہے یا نہیں؟
3: اگر نصاب کی رعایت لازم ہےگڑیا راب کےاعتبار سے نصاب ملحوظ ومعتبر ہوگا یا نفس گنے میں اور گڑیا راب کا لحاظ نہیں کیاجائے گاظ
4: اوراگر نفس گنےمیں ہی بغیر گڑیا راب کالحاظ کئے ہوئے نصاب ملحوظ ہےتو کسی طرح؟ یعنی: خود اس کے وزن کےاعتبار سےسا اشیا ء مصوصہ اربعہ میں کسی ایک نصاب کی قیمت کےاعتبار سے؟
میرے نزدیک گنےمیں عشر واجب ہےبلکہ زمین کی تمام پیداوار میں جس کوآدمی کاشت کرکے زمین سےحاصل کرے(خواہ وہ ازقسم اقوات ہویا ازقسم ادم۔ازقسم خضراوات ہو یا ازقسم فواکہ۔مدخر مکیل ہو یا غیر مکیل ) عشر لازم ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ...﴿٢٦٧﴾... سورةالبقرة
اور يہ معلوم ہےکہ زکوۃ کو انفاق کےساتھ تعبیر کیاجاتا چنانچہ ارشاد ہے:
﴿عَن سَبيلِ اللَّهِ وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ... ﴿٣٤﴾... سورةالتوبة
دلیل ثانی: ﴿وَهُوَ الَّذى أَنشَأَ جَنّـٰتٍ مَعروشـٰتٍ وَغَيرَ مَعروشـٰتٍ وَالنَّخلَ وَالزَّرعَ مُختَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيتونَ وَالرُّمّانَ مُتَشـٰبِهًا وَغَيرَ مُتَشـٰبِهٍ كُلوا مِن ثَمَرِهِ إِذا أَثمَرَ وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ ... ﴿١٤١﴾... سورةالانعام
قال مالك فى الؤطا: أن ذلك الزكاة والله أعلم
ورى البيهقى بأسانيده: عن ابن عباس فى تفسير قوله تعالى: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ :العشر ونصف العشر
2: وعن انس وطاوس وجابر بن زيد قالو: الزكوة المفروضة قال البيهقى: ويذكر نحو هذا عن سعيد بن المسيب وعن محمد بن الحنفيه ومالك بن انس انتهى
وقال الرازى: اختلفو فى تفسيره على ثلثة اقوال: يريد به العشر ونصفه"والثانى نَّ هَذَا حَقٌّ فِي الْمَالِ سِوَى الزَّكَاةِ ثم ذكر من اختار هذا القول –ثم قال: والثالث: أَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ وُجُوبِ الزَّكَاةِ فَلَمَّا فُرِضَتِ الزَّكَاةُ نُسِخَ هَذَا وَهَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَالْأَصَحُّ هُوَ الْقَوْلُ الْأَوَّلُ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى: وَآتُوا حَقَّهُ إِنَّمَا يَحْسُنُ ذِكْرُهُ لَوْ كَانَ ذَلِكَ الْحَقُّ مَعْلُومًا قَبْلَ وُرُودِ هَذِهِ الْآيَةِ لِئَلَّا تَبْقَى هَذِهِ الْآيَةُ مُجْمَلَةً
وَقَدْ قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ/ وَالسَّلَامُ: «لَيْسَ فِي الْمَالِ حَقٌّ سِوَى الزَّكَاةِ»
فَوَجَبَ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ بِهَذَا الْحَقِّ حَقَّ الزَّكَاةِ.
قال الجصاص:وروى هذا القول عن جابر بن زيد ومحمد بن الحنفيه وزيد بن اسلم وقتاده انتهى
وبسط فى ترجيحه بدالائل ثم قال: وَلَمَّا ثَبَتَ بِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ: {وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} هُوَ الْعُشْرُ، دَلَّ عَلَى وُجُوبِ الْعُشْرِ فِي جَمِيعِ مَا تُخْرِجُهُ الْأَرْضُ إلَّا مَا خَصَّهُ الدَّلِيلُ; لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ ذَكَرَ الزَّرْعَ بِلَفْظِ عُمُومٍ يَنْتَظِمُ لِسَائِرِ أَصْنَافِهِ، وَذَكَرَ النَّخْلَ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ ثُمَّ عَقَّبَهُ بِقَوْلِهِ: {وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} وَهُوَ عَائِدٌ إلَى جَمِيعِ الْمَذْكُورِ، فَمَنْ ادَّعَى خُصُوصَ شَيْءٍ مِنْهُ لَمْ يَسْلَمْ لَهُ ذَلِكَ إلَّا بِدَلِيلٍ، فَوَجَبَ بِذَلِكَ إيجَابُ الْحَقِّ فِي الْخُضَرِ وَغَيْرِهَا وَفِي الزَّيْتُونِ وَالرُّمَّانِ انتهى-
وقال الرازى قوله تعالى:
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ بَعْدَ ذِكْرِ الْأَنْوَاعِ الْخَمْسَةِ وَهُوَ الْعِنَبُ وَالنَّخْلُ وَالزَّيْتُونُ وَالرُّمَّانُ يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِ الزَّكَاةِ فِي الْكُلِّ وَهَذَا يَقْتَضِي وُجُوبَ الزَّكَاةِ فِي الثِّمَارِ كَمَا كَانَ يَقُولُهُ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
فَإِنْ قَالُوا: لَفْظُ الْحَصَادِ مَخْصُوصٌ بِالزَّرْعِ فَنَقُولُ: لَفْظُ الْحَصْدِ فِي أَصْلِ اللُّغَةِ غَيْرُ مَخْصُوصٍ بِالزَّرْعِ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ الْحَصْدَ فِي اللُّغَةِ عِبَارَةٌ عَنِ الْقَطْعِ وَذَلِكَ يَتَنَاوَلُ الْكُلَّ وَأَيْضًا الضَّمِيرُ فِي قَوْلِهِ: حَصادِهِ يَجِبُ عَوْدُهُ إِلَى أَقْرَبِ الْمَذْكُورَاتِ وَذَلِكَ هُوَ الزَّيْتُونُ وَالرُّمَّانُ فَوَجَبَ أَنْ يَكُونَ الضَّمِيرُ عَائِدًا إِلَيْه
دليل ثالث: فيما سقت السماء والعيون او كان عثريا العشر وفيما سقى بالنضح نصف العشر(صحيحن وغيره)وما بمعنى الذي هو من ألفاظ العموم فنحمله على عمومه إلا ماخصه الدليل والادليل على استثناء الخضر والقطان والفواكه والثمار
دليل رابع: ليس فى حب ولاثمر صدقة حتى يبلغ خمسة أوسق(مسلم)
لفظ حب اور ثمر قسم کےحبوب اورپھل کوعام ہے پس خضرا وات وغیرہ مستثنی کرنا صحیح نہیں ہے۔ جولوگ صرف اشیاء منصوصہ(تمر/زبیب/حنطہ/شعیر) میں عشر واجب مانتے ہیں۔(ابن عمر ابو موسی اشعری موسی بن طلحہ حسن بصری ابن سیرین شعبی حسن بن صالح ابن ابی لیلی ابن المبارک ابو عبید القاسم بن سلام سفیان ثوری امیر یمانی علامہ شوکانی) حسب ذیل احادیث وٖآثار سےاحادیث وآیات مذکورہ کےعموم کی تخصیص کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي مُوسَى، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، حِينَ بَعَثَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ يُعَلِّمَانِ النَّاسَ أَمْرَ دِينِهِمْ «لَا تَأْخُذُوا الصَّدَقَةَ إِلَّا مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ، الشَّعِيرِ، وَالْحِنْطَةِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ»
وقال الحاکم:اسناده صحيح
وقال الحافظ فى التلخيص1/178:قال البهيقي :رجاله ثقات وسنده متصل وكذا عزاه الشوكانى فى النيل والا مير لااليماني فى السبل وقال الهيثمى فى مجمع الزوائد بعد ذكر الحديث: رواه الطبراني فى الكبير ورجاله رجال الصحيح وقال العلامة القنوجى فى دليل الطالب: طبرانى كفته رواته ثفات وهو متصل انتهى
وقال االذهبى فى التلخيص1/401:صحيح وقال الحافظ فى الدرايةص164: هو امثل مما فى الباب
ميرے نزدیک یہ حدیث بچند وجوہ صحیح نہیں ہے:
وجہ اول: اس کی سند میں طلحہ بن یحیی ہیں اوروہ مختلف فیہ ہیں۔قال الحافظ فى الدراية: وفى الاسناد طلحه بن يختلف فيه
وجہ ثانی:سندمیں اضطراب ہے۔بعض تلامذہ سفیان نے اس کومرفوعا روایت کیاہےاوربعض نےموقوفا چنانچہ بیہقی میں ہے:
عن أبى موسي الاشعري ومعاذ حين بعثا الى اليمن لم يأخذ الا امن الحنطه والشعير والتمر والزبيب
قال الزيلعي فى نصب الرايه2/389:قال الشيخ فى الامام : وهذا غير صريح فى الرفع انتهى اور الاشجعى عن سفيان الثورى عن طلحة ابى بردة کی اس موقوف روایت کی تائید دوسری روایت سےہوتی ہے۔
روى البيهقى من طريق وكيع عن طلحة بن يحيى عن ابى بردة عن ابى موسى الاشعري انه لما اتى اليمن لم ياخذه الصدقة الا من الحنطة والشعير والتمر والزبيب
معلوم ہوا کہ صرف ان چار چیزوں سے عشر لینا ان دونوں صحابیوں کا فعل تھا۔
وجہ ثالث: ابو عبید قاسم بن سلام الہروی کتاب الاموال ص:470میں اس حدیث کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:
وقد روی مثله عن ابى موسى الاشعرى ايضا يروى ذلك عن سفيان عن طلحة بن يحيى عن ابى بردة عن ابى موسى الاشعرى انتهى ليكن اس مذہب کی ترجیح کی بناء اس حدیث کونہیں قراردیتے بلکہ لکھتے ہیں:فکان حديث موسى بن طلحه(الذى ياتى) مع هذا وإن لم يكن مسند لنا اماما مع اتبعه من الصحابة والتابعين اذ لم نجد عن النبىﷺ ماهو أثبت منه واتم اسناده يرده
معلوم ہواکہ ابو موسی اشعری کی یہ حدیث اگر صحیح ہوتی جیساکہ امام حاکم نےدعوی کیا ہے تو وہ مذہب کی بنا اس حدیث مسند صحیح کی بجائے حدیث منقطع یامرسل پر نہ رکھتے۔فافہم
امام حاکم کی تساہل فی الصحیح مشہور ہےاس لئے اس حدیث کے بارے میں ان کایہ کہنا : اسنادہ صحیح چند اں وزن دار نہیں ہے رہ گئی امام ذہبی کی تصحیح توبظاہر اس کی بناء ان کےنزدیک رواۃ کےقابل وثوق ہونے پر ہے چنانچہ بعض اوقات ائمہ حدیث محض رواۃ کی ثقاہت کی بناء پرحدیث کے صحیح یاحسن ہونےکاحکم لگادیتے اور یہ معلوم ہےکہ رواۃ کی ثقاہت متن کی صحت کومستلزم نہیں ہے اور بیہقی کایہ قول:رواتہ ثقات وسند متصل سنن کبر ی میں مجھ باوجود تتبع کےنہیں ملا۔ نہ معلوم حافظ نےاور ان کی تقلید میں امیر یمانی اورشوکانی نےیہ قول کہاں سے نقل کیا ہے! علامہ قنوجی نےدلیل الطالب میں اس قول کوطبرانی کی طرف منسوب کیا ہے! اب نہ معلوم حافظ سےتسامح ہوا ہےیا علامہ قنوجی سے!!بہر کیف جس قول بھی ہو اتصال سند ثقاہت رواۃ یا رواۃ سند کارجال صحیح سے متن کی صحت کو مستلزم نہیں ہے۔
اور اگر یہ حدیث صحیح بھی ہوجائےتب بھی اشیاء اربعہ منصوصہ میں حصر کی دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ اس کاحصر اضافی ہےیعنی :بہ نسبت خضراوات کےہے حصر حقیقی نہیں ہے۔كمال يدل عليه حديث موسى بن طلحه عن معاذ الذي اخرجه الحاكم وفيه: انما يكون ذلك فى التمر والحنطة والحبوب فاما القثاء والبطيح الخ(وسيأتى)
دليل ثانى: عن عمروبن عثمان عن موسى بن طلحه قال : عندنا كتاب معاذ بن جبل عن النبى صلى الله عليه وسلم انه انما اخذ االصدقة من الحنظة والشعير والزبيب والتمر اخرجه ابو عبيد فى كتاب الاموال ص:768والحاكم فى المستدرك1/401وقال:هذا حديث قد احتج رواته ولم يخرجاه وموسى بن طلحه تابعى كبير لم ينكر له انه يدرك ايام معاذ انتهى واخرجه ابن ابى شيبه ايضا
دليل ثالث: عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْبَعْلُ وَالسَّيْلُ الْعُشْرُ , وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ , يَكُونُ ذَلِكَ [ص:481] فِي التَّمْرِ وَالْحِنْطَةِ وَالْحُبُوبِ». , فَأَمَّا الْقِثَّاءُ وَالْبَطِّيخُ وَالرُّمَّانُ وَالْقَصَبُ وَالْخَضِرُ فَعَفْوٌ عَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :واخرجه الدارقطنى2/97والطبرانى فى معجمه والحاكم فى مستدركه1/40وقال حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه : والبيهقى فى السنن الكبرى
دليل :عن محمد بن عبيد العزرمى عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: انما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكوة فى هذه الخمسة: الحمنظة والشعير والتمر والزبيب والذرة اخرجه ابن ماجه والدار قطنى2/94
یہ چاروں حدیثیں ضعیف ہیں: پہلی حدیث منقطع ہےاوردوسری وتیسری ضعیف ومنقطع اورچوتھی بھی ضعیف ہے۔
قال صحاب التنقيع :وفى تصحيح الحاكم لهذا الحديث أى حديث اسحق بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله عن عمه موسى بن طلحه عن معاذ بن جبل نظر فانه حديث ضعيف واسحق بن يحيى تركه أحمد والنسائى وقال ابن معين: لايكتب حديثه وقال البخارى:يتكلمون فى حفظه قال القطانى:لاشبه لاشئى وقال ابو زرعه: موسى بن طلحه بن عبيدالله عن عمر مرسل ومعاذ توفى خلافه فرواية موسى بن طلحه عنه أولى بالارسال وقد قيل انمُوسَى، وُلِدَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ سَمَّاهُ، وَلَمْ يَثْبُتْ، وَقِيلَ: إنَّهُ صَحِبَ عُثْمَانَ مُدَّةً، وَالْمَشْهُورُ فِي هَذَا مَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ1 عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: عِنْدَنَا كِتَابُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ إنَّمَا أَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالزَّبِيبِ، وَالتَّمْرِ، انْتَهَى. وَقَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ رحمه الله فِي "الْإِمَامِ": وَفِي الِاتِّصَالِ بَيْنَ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، وَمُعَاذٍ نَظَرٌ، فَقَدْ ذَكَرُوا أَنَّ وَفَاةَ مُوسَى سَنَةَ ثَلَاثٍ وَمِائَةٍ، وَقِيلَ: سَنَةَ أَرْبَعٍ وَمِائَةٍ، انْتَهَى.
وقال الحافظ فى التلخيص: فى حديث موسى عن معاذ ضعف وانقطاع انتهى وفى اسناد حديث عمر وعبدالله بن عمر محمد بن عبيداله العزرمى وهو متروك وقال ابن عبدالبر:لم يلق موسى معاذا ولاادركه
دليل:روى الدارقطنى عن جابر أنه قال لم تكن المقائى فيما جاء به معاذ إنما أخذ االصدقة من البر والشعير والتمر والزبيب الحديث وفى سنده عدى بن الفضل وهو متروك الحديث
دليل: عن خضيب عن مجاهد قال: لم تكن الصدقة فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا خمسة اشياء الحنطة والشعير والتمر ووالزبيب والذرة-
دليل: عمرو بن عبيد عن الحسن قال يفرض رسول الله صلى الله عليه وسلم الصدقة إلا عشر أشياء الإبل والبقر والغنم والذهب والفضة والحنطة والشعير والتمر والزبيب قال: ابن عيينة:أراه قال: والذرة فى رواية ذكر السلف عوض الذرة
دليل:ابوبكر بن عياش عن الأجلع عن الشعبى قال :كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم الى أهل اليمن: انما الصدقة فى الحنظة والشعير والتمر والزبيب اخرج هذه الاحاديث البيهقى4/129اوكلها مراسيل وفى مرسل مجاهد خضيف وهو صدوق سيى الحفظ خلط باخره وفى مرسل الحسن عمروبن عبيد وهو متكلم فيه على ماقال الزيلعى فى نصب الراية1/410وفى سند مرسل الشعبى ابوبكر بن عياش وهو ثقة عابد إلاعابد إلا ان لما كبر ساء حفظه وكتابه صحيح
دليل: أحاديث عدم وجوب العشر فى الخضراوات جوكم ازكم خضراوات میں عدم وجوب عشر پر دلالت کرتی ہیں لكن كلها ضعيفة وقد ذكر هاالزيلعى مع بيان ضعفها فى نصب الراية1/408فارجع اليه تلك عشر كاملة)
اس پوری بحث سےمعلوم ہواکہ قائلین حصر کی پیش کردہ احادیث وآثار ضعیف ہیں۔اس لئے حافظ زیلعی نصب الرایہ1/408 میں لکھتے ہیں:
واما احاديث انماتجب الزكوة فى خمسه كلها خمسة كلها مدخوله وفى متنهااضطراب انتهى
پس ان ضعیف احادیث وآثار سے کتاب اللہ کےعموم واطلاق کی تخصیص وتقیید کیوں کردرست ہوگی!! ہاں اگر یہ احادیث صحیح ہوتین (اگر چہ وہ آحاد ہیں اورمتواتر ومشہور نہیں ہیں) تو بلاشبہ ان سے تخصیص درست ہوجاتی جس طرح خمسہ اوسق والی حدیث عمومات آیات واحادیث کی مخصص قرار دی گئی ہے۔ پس میرے نزدیک علامہ شوکانی کا اس تخصیص کےجواز کےمتعلق تائید ی کلام ناقابل التفات ہے۔
وكذا لايكفى لتخصيص ذلك العموم ماذكر ه ابو الوليد فى المنتقى وابن حزم فى المحلى هذا ماعندى والله اعلم
وذهب ابن حزم الى وجوب الزكوة فى الحنطة والشعير والمتمر فقط واستثنى الزبيب وأجاب عن الاحاديث التى تدل على وجوب الزكوة فى أربعة اشياء(الحنطة والشعير والتمر والزبيب)بحيث يضعف به استدلال من حصر الزكوة فى تلك الأربعة ثم تكلف لاثبات مذهبه لم يات بدليل قوى عليه ان شئت الوقوف عليه فارجع الى المحلى
اور جو ائمہ عشر کواشیاء اربعہ میں حصر نہیں کرتے بلکہ خضراوات کومستثنی کرکے مدخر ومقتات پیداوار میں مانتے ہیں کماذھب الیہ مالک واالشافعی یا مدخر مکیل میں مانتے ہیں اگرچہ قوت نہ ہوکماذہب الیہ احمد ان کے پاس ان مذہب پر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔كما يظهر من كلام ابن رشد فى البدايه وكلام الموفق فى المغنى2/3521وكلام ابى عيد القاسم بن سلام فى كتاب الاموال صرف اشارات اورتمثیلات واستنباطات اوراستدلالات پر ان کی بنا ہے۔
وهذا كماترى فلا علينا لوتركناذكر استدلاتهم ثم الرد عليهم وقد كفانا ابن حزم فى الرد عليهم فارجع الى الحلى
دوسرا امر:یہ کہ گنے میں وجوب عشر کےلئےنصاب معتبر ہےیا نہیں؟یعنی قلیل وکثیر میں مطلقا عشر فرض ہےیا معین مقدار میں؟
سو اس کےمتعلق واضح ہوکہ جن علماء کےنزدیک زمین کی پیداورا میں فی الجملہ نصاب محلوز ہے۔ ان کے کئی گروہ ہیں:
ایک گر وہ صرف اشیاء اربعہ منصوصہ میں نصاب معتبر مانتا ہے۔باقی چیزوں میں نہیں ۔ علامہ شوکانی کہتے ہیں:
وحکی عیاض عن داودأن كل مايدخله الكيل يراعى فيه النصاب وما لايدخل فيه الكيل ففى قليه وكثيره الزكاة قال الشوكانى هو نوع من االجمع انتهى(نيل اولاطار4/29)
وقال ابن حزم: وَقَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ دَاوُد بْنُ عَلِيٍّ، وَجُمْهُورُ أَصْحَابِنَا: الزَّكَاةُ فِي كُلِّ مَا أَنْبَتَتْ الْأَرْضُ، وَفِي كُلِّ ثَمَرَةٍ، وَفِي الْحَشِيشِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، لَا تَحَاشَ شَيْئًا.
قَالُوا: فَمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ يَحْتَمِلُ الْكَيْلَ لَمْ تَجِبْ فِيهِ زَكَاةٌ حَتَّى يَبْلُغَ الصِّنْفُ الْوَاحِدُ مِنْهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا، وَمَا كَانَ لَا يَحْتَمِلُ فَفِي قَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ الزَّكَاة
تيسرا گروہ باوجود تعمیم وجوب(فی کل ماینبته آدمى) ہر چیز میں نصاب کی رعایت ضروری سمجھتا ہے۔ میرے نزدیک اسی گروہ کاقول راجح ہے۔
وسق کے ساتھ نصاب کے تعیین مکیلات کےساتھ نصاب کی رعایت کومخصوص نہیں کرتی عام طور پر حجاز ویمن میں عشرے چیزیں مکیلات میں سے تھیں اس لئے وسق کےساتھ نصاب کی تحدید کی گئی ونیز ان اشیاء میں کیل کےساتھ لین دین اورخرید وفروخت کاعرف ودستورتھااس لئےکیل کالحاظ کیاگیا۔ اب یہی اشیاء اکثر جگہ وزن کرکے خریدی اورفروخت کی جاتی ہیں اورموزونات میں شمار کی جاتی ہیں لیکن بایں کہ ان میں نصاب کالحاظ ضرور کیاجاتاہے۔اسی طرخ تمام عشری پیداوار میں نصاب معتبر ہوگا۔احادیث ذیل تمام مزرورعات میں اعتبار پر دلیل ہیں۔
1:روي الدارقطنى عن محمد بن مسلم الطائفى عن عمرو بن دينار عن جابر بن عبدالله وابى سعيد الخدرى قالا:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لاصدقه فى الزرع والافى الكرم ولافى النخل الااذا بلغ خمسة اوسق سنن الدارقطنى2/94واخرجه البهيقى ايضا4/128)
2:وروى ايضا2/98عن يزيدبن سنان عن زيد بن ابى انيبه عن ابى الزبير عن جابر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لازكوة فى شئى من الحرث حتى يبلغ خمسه اوساق الحديث ويزيد بن سنان ضعفه ابن معين واحمد وابن المدينى وقال البخارى :مقارب الحديث
3:وروي ايضا عن ابى سعيد الخدرى مرفوعا: لاتوخذ الصدقة من الحرث حتى يبلغ حصاده خمسة اوسق
4:وعند مسلم فى رواية: ليس فيما دون خمسه اوساق من ثمر ولاحب صدقه
پس گنے میں نصاب معتبر ہوگا اورجب تک کہ اس کی پیداوار نصاب کےبرابر نہ ہو عشر یا نصف عشر لازم نہ ہوگا۔
تیسرا امر: یہ کہ گنے میں کس لحاظ اوراعتبار سے نصاب معتبر ہے؟ سو معلوم ہوکہ میرے نزدیک نصاب گریا راب کےاعتبار سے معین کیاجاناراجح ہے۔
1۔ نفس گنےمیں وزن کے اعتبار سے نصاب کالحاظ کیاجائے تو اس کا معنی یہ ہوگاکہ : کسی کے ہاں بائیس من انگریزی من سے گنا پیدا ہوا تو اس پر عشر یا نصف فرض ہےاورظاہر ہےکہ اس صورت میں فقراء ومساکین ودیگر اصحاب مصارف کی رعایت تو ہوگی لیکن رب المال پر تغلیظ اورتشدید ہوگی جس کی کوئی نظیر شریعت میں نہیں ملتی ۔
2۔اس میں شک نہیں کہ راب پیمانہ سےخرید وفروخت کیاجاسکتا ہےبلکہ بعض مقامات میں ناپ کر خرید ا اوربیچا جاتا ہے اس طرح وہ مکیلات سےہوجاتا ہے پس راب کےذریعہ نصاب بنانے میں لوگوں کےقول رعایت ہوجاتی ہےجوعشر مکیلات میں مانتے ہیں۔
3۔ونیز حدیث کےلفظ:خمیۃ اوسق کر رعایت بھی ہوتی ہے جومکیلات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
4۔گنابظاہر رطب وعنب کی طرح ہےیعنی: رطب وعنب جس طرح قابل انتفاع ہیں اور ان کی بیع وشراء ہوتی ہے اسی طرح گنابھی قابل انتفاع ہے اور اس کی بیع وشراء ہوتی ہے۔بایں ہمہ نصاب میں تمر اورزبیب کالحاظ ہوتا ہے یعنی: نصاب میں ان کی حالت کی رعایت کی جائےگی جب وہ قابل ادخار اور لائق انتفاع بمنفعت ومقصود ہوجاتے ہیں اورجب تکر تمر یازبیب پانچ وسق نہ ہو زکوۃ واجب نہیں ہوتتی ۔ اس طرح گنا میں تعیین نصاب کےلئے اس کی قیمت کی کیفیت کالحاظ کرنامناسب ہے جب وہ قابل انتفاع بمنفعت مقصود ہوجائے اور وہ بدرجہ ادنی گڑیا راب یابدرجہ اعلی شکر ہے۔
مااخرجنا من الارض رطب ہے تمریۃ اورزبیبۃ بعد طاری ہوتی ہے اس طرح ما اخرجنا من الارض گنا ہے اور قندیت وسکریت بعد حادث ہوتی ہے نام اورشکل کافرق موثر نہیں ہوگا۔
میرے نزدیک دھان میں اس کا عشر واجب ہوگا جب کسی کےیہاں اتنی مقدار میں پیدا ہوکہ اس کی قلیل مقدار بقدر پانچ وسق کےہو یعنی : اگر دھان پانچ وسق سے کم پیدا ہوا ہے تو عشر لازم نہیں ہوگا اورشارع نےکچے غلہ اوردانے میں نصاب کااعتبار کیاہے۔ اس لئے پکے ہوئے بھارت یا پسے ہوئے چنے میں نصاب رعایت کرنے کااعتراض لغو اورمبنی بر عناد ہے۔
میرے نزدیک انار وغیرہ تمام فواکہ میں رعایت نصاب عشر لازم ہے کماحققتہ کھر میں زکوۃ نہیں ہےکہ کلو من ثمرہ وآتو حقہ یوم حصادہ کےتحت میں نہیں آتا ۔ونیزارشاد ہے: الناس شرکاء فی الثلاث(الحدیث)
حاصل کلام یہ ہے کہ گنے میں نصاب کی نوعیت کی تعیین اجتہادی امر ہے۔ میرے نزدیک ارجح یہ ہے کہ گڑیا راب میں نصاب کالحاظ کیا جائے اوراگر معترض کے نزدیک نفس گنے میں وزن کےلحاظ سے نصاب کااعتبار اولی ہےتو معترض کواختیار ہےکہ اجتہاد کے موافق فتوی دے۔گنے میں عشر واجب تسلم کر لینے کےبعد نصاب کی تعیین کامسئلہ زیادہ اہم نہیں رہ جاتا۔ گنےمیں نصاب کی نوعیت معین کرنےمیں اشیاء منصوصہ اربعہ میں کسی منصوص کی قیمت کالحاز کرنا مرجوح ہے کہ قیمتیں گھٹتی رہتی ہیں ۔چنانچہ ان دنوں جہاں جو کنٹرول اور راشن نہیں ہے ۔جوگیہوں سےگراں تر فروخت ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب