سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) عمرو بن مالك الاول لايجتمعان فيه قطعا پر کیا دلیل ہے۔؟

  • 17362
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1019

سوال

(36) عمرو بن مالك الاول لايجتمعان فيه قطعا پر کیا دلیل ہے۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ابوداود کتاب الزکوۃ میں صدقہ ابوطلحہ صحابی کااپنے اقربا پرارض اریحا یا بیرحا کامذکور ہے۔اس میں نسب نامہ ابو طلحہ صحابی اورابی ابن کعب صحابی کاذکر کیا ہے اس پر صاحب عوف المعبود نے مسامحہ کادعوی کیا ہے ۔ پہر اس صاحب بذل الجہود نےتعاقب کیا ہےاورلکھا ہے: وليس فيه شامة مسامحة كما ادعاه صاحب العون میرے خیال میں صاحب البذل کی خود ساخت ہےبلکہ غلطی ہے۔وہ عبارت احباء کواورمقصد صاحب العون کو نہیں سمجھے اوربقول ان کےجب زیادتی عمربن مالک کےبعدزید مناۃ کے نساخ کی غلطی ہے۔تب عمروبن مالک اب تاسع کیسے ہوسکتاہے؟ اوراگر یہ لکھنا کہ عمرو بن مالك الاول لايجتمعان فيه قطعا پر کیادلیل ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے نزدیک بھی ابو طلحہ کےنسب میں زید مناۃ اورعدی بن عمروبن مالک سےدرمیان عمروبن مالک کی زیادۃ وحبانہ سےنساخ کی غلطی ہے۔

اس لئے کہ تہذیب التہذیب اسد الغابہ  استیعاب طقات ابن سعد یہ زیادۃ موجود نہیں ہے۔ اور اس لئے کہ صحیح بخاری میں بھ ابودود اورکتب مذکورہ بالا کی طرح بغیر اس زیادۃ  کےان کانسب نامہ مذکور ہے۔اور  صحیح بخاری کے کسی شارح نےاس عدم زیادۃ پر استدرک نہیں کیاہے۔اور اس لئے حسان بن ثابت(جو ابو طلحہ کےساتھ اب ثالث حرام میں مل جاتے ہیں)کے نسب نامہ میں خود صاحب اصابہ نے اس  زیادۃکوذکر نہیں کیا ہے جس طر ح کہ اوروں نےنہیں کیا ہے۔

(2)غور طلب  اورمحتاج حل ابوداورد کی یہ عبارت  قال الانصاری :بین ابی وابی طلحۃ ستۃ آبا صحیح بخاری ایک نسخہ میں یہ عبارت اس طرح واقع ہے:وابى الى ستة آباء الى عمروبن مالك انتهى فقوله الى عمروبن مالك بدل من قوله  الى ستة آباء عادة الجادهو يتعلق به بمحذوف والمعنى وابى يجامع حسان وابا طلحه الى ستة آباء من آباء الى عمروبن مالك فافهم

صاحب عون کے خیال میں سنن ابوداود کی اس عبارت سےمحمد بن عبداللہ بن مثنی الانصاری کامقصد یہ ہے اوریہ بیان کرناچاہتےہیں کہ: ابی اورابوطلحہ دونوں عمروبن مالک میں مل جاتے ہیں جواب سادس ہیں اسی طرح ابو طلحہ کے بھی اب سادس ہیں۔چنانچہ  صاحب عون لکھتے ہیں:وكلام الانصاري يشيربان عمرو اب سادس لابى طلحة ايضا انتهى ليكن عمروبن مالك كا ابوطلحه کے سادس ہوناواقعہ کےخلاف ہےکمایخفی کیونکہ عمرو بن مالک  ابو طلحہ کے لئےاب سابع ہیں  نہ سادس۔پس اگر انصاری کامقصد وہی ہےجو صاحب عون کےخیال میں آیا ہے اورجس کوانۂں نےپنےلفظوں میں بیان کرنےکی کوشش کی ہےاورجس پر ہمن خط کھینچ دیا ہے توبلاشبہ انصاری سےمسامحہ ہواہے۔کیونکہ عمرو بن مالک ابی کےتو اب سادس ہیں لیکن ابو طلحہ کے اب سادس نہیں ہیں ۔بلکہ اس سابع ہیں۔

اور صاحب بذل کے خیال میں انصاری یہ بتانا چاہتےہیں کہ: طرف اول میں ابی طلحہ اورطرف آخر میں دونوں کو ملانےوالے اب کےدرمیان کتنےاباء آتےہیں ان دونوں طرفوں کےمابین آباء کی تعداد ہے۔ چنانچہ ابو طلحہ اورعمربن مالک کےدرمیان چھ آباء ہیں سہل ےسود حرام عمرو زید مناۃ عدی۔ اسی طرح ابی اورعمر بن مالک کےدرمیان بھی چھ آباء ہونےچاہئیں تاکہ انصاری کےکلام کی تصدیق ہوجائے۔لیکن ایسا  ہےنہیں کیونکہ ابی اورعمربن مالک دے درمیان پانچ ہی آباء ہیں۔ کعب قیس عبید زید معاویہ۔اس لئے صاحب بذل کو انصاری کےقول سبہ آباء کےبعد باعتبارابی طلحہ بڑھانا پڑا تاکہ انصاری کاکلام (اگر ان کامقصد وہی ہےجوصاحب بذل نےسمجھا اورظاہر کیاہے۔دونوں مطلبوں کی بناپر مسامحہ سے خالی نہیں ہے۔صاحب عون نےتو مسامحہ کو صاف بیان کردیا اور صاحب بذل نے باعتبار ابی طلحہ کریہ کوشش کی کہ اس نےمطلب کی صورت میں جو مسامحہ ہےوہ مندفع ہوجائےاورکسی کو یہ وہم وخیال نہ پیدا ہوکہ صاحب بذل کےسمجھے ہوئےمطلت کی بنا پر بھی انثاری کی عبارت میں مسامحہ ہونےکاخیال نہ ہو۔

ہماری اس تقریر سےمعلوم ہواکہ انصاری کاکلام خواہ اس وہ مطلب ہو جوصاحب عون نے سمجھا ہےیاوہ مطلب ہوجوصاحب بذل نےسمجھا اورظاہر کیا ہے۔ دونوں مطلبوں کی بناپر مسامحہ سےخالی نہیں ہے۔صاحب عون نےاس مسامحہ کوصاف بیان کردیا اور صاحب بذل نےباعتبار ابی طلحہ کر یہ کوشش کی کہ اس نئے مطلب کی صورت میں مسامحہ وہ مندفع ہوجائےاورکسی کویہ وہم وخیال نہ پیدا ہوکہ صاحب بذل کےسمجھے ہوئےمطلب کی بنا پر انصاری  کی عبارت مسامحہ ہے۔

حالانکہ مسامحہ کے تصور اورخیال کےبچانےکے لئےباعتبار وابی طلحہ بڑھاکر انہوں نے یہ غلطی کی ہےکہ طرف اورل اورطرف ثانی کےدرمیان چھ آباء آنےکو ابوطلحہ کےساتھ مخصوص کردیا درآنحالیکہ انصاری یہ دعوی ابی کےمتعلق بھی کررہےہیں ورنہ  بین ابی وابی طلحہ الی ستۃ آبا کےکہنےکی کیاضرورت تھی۔صرف یہ کہ دیتےکہ بین ابی طلحہ وعمرومالک الذی یجمع آباء طلحة ستته آباء فافهم

3۔صاحب عون کےنعم علی مافی الاصابہ یصیر عمروبن مالکالخ پر صاب بذل نےجوگرفت کی ہےوہ میرے نزدیک صحیح ہے۔

اصابہ اورصاحب عون کی عبارتوں کامطلب یاورمقصد واضح ہے۔اصابہ کےبیان کردہ نسب نامہ کرروسے (اگر اس کی صحت تسلسم کرلی جائے) وہ عمربن مالک جوزید مناۃ اورعدی بن عمربن ومالک  درمیان زیادہ کیاگیاہےابو طلحہ کا اب سادس توہے لیکن ابو طلحہ اورابی طوقطعا نہیں جمع کرتا۔یعنی: بلاشبہ دونوں کانسب اس عمرو بن مالک اول میں نہیں ملتا بلکہ عدی سےاوپر عمربن مالک ثانی میں میں ملتا ہےاورجوبناء تسلیم صحت نسخہ اصابہ دونوں کوجمع کرنے والایہ عمروبن مالک ثانی ابو طلحہ کا اب ثانی ہے۔اور انصاری( بناء علی مفھمہ صاحب العون) یہ بتاناچاہتےہیں جس عمرو بن مالک میں دونوں کا نسب ملتا ہےوہ ان دونوں کا با سادس ہےنہ مطلق عمربن مالک۔

4۔عمرو بن مالک اول میں دونوں کےعدم اجتماع کی دلیل طلب کرنا ابی اورابوطلحہ کےنسب ناموں سےآنکھیں بند لینے کے مرادف ہے۔ کاش آپ نےاصابہ اور صاحب عون کی عبارتوں کی خود تشریح کردی ہوتی۔ اور ابی  اوبو طلحہ کا عمربن مالک  اول میں اجتماع ثابت کردیا ہواتا ۔علی سبیل اللاجمال دوسرے عدم فہم کا الزام رکھ دینااورخود کچھ نہ کہنا اوٰتشریح سے گریز کرنا معنی الشعر فی بطن الشاعر کے مثل ہےیا کچھ اور مقصود ہے۔محدث

ج:قرآن کےاندر بیان کیے گئے زکان کے ہشتگانہ مصارف میں فی سبیل اللہ کامعنی  اورمفہوم جولوگ (جماعت اسلامی اورابعض علماء اہلحدیث) اللہ کی راہ میں یعنی ہر نیک کام یاوہ نیک عمل جس سے دین اسلام کی نشرواشاعت اورتبلیغ ہوسکےبیان کرتےہیں ۔ کے نزدیک  مسجد وہ مدرسہ اور مسافرخانہویل وشفا خانہوغیرہ کی تعمر ونیز مدرسین ومبلغین وحجاج وائمہ مساجد وغیرہ سب ہی سبیل اللہ میں داخل ہیں۔اگرچہ وہ غنی یعنی صاحب نصاب ہوں۔لیکن ہمارے نزدیک فی سبیل اللہ کا یہ لغوی معنی قطعا مراد نہیں ہے۔بلکہ اس سے جہادبالسلاح اورضروریات جہاد جس میں مجاہدین اورغزاۃ داخل ہیں مرادر ہے۔مجاہد بالسلاح اگرچہ غنی ہو اس  کےلیے جہاد کےوقت زکوۃ کی رقم  اپنے  کام لانااپنےاوپر خرچ کرناجائز اوردست ہے۔ ارشانبوی ہے: لاتحل الصدقة لغنى الالخمسة لغاز فى سبيل الله الخ(1)

محض فقراء ومساكين كي ضروريات علاج كى ليى زكاة كي رقم سے شفاخانہ بنواکر اس میں صرف غریبوں یعنی: فقراء ومساکین کےعلاج کا انتظام کرنا اور ان کو بالاقیمت دوا دینا اور ان کےعلاج کےسلسلے میں زکاۃ کی رقم سے ڈاکٹر  وغیرہ کی تنخواہ دینا جائز ہوگا کہ ایسےشفاخانہ سے صرف وہی لوگ متنفع ہوں گے جو فقیر ومسکین ہونے کی بناپر زکوۃ کے مثرف ہیں۔ اغنیاء کواس سے فائدہ اٹھانےکاحق نہیں ہوگا وہ زکاۃ کامصرف نہیں ہیں۔ہماری مرقومہ احتیاط پر عمل ہوسکےتوزکوۃ کی رقم سےشفاخانہ بنواکر صرف غریبوں کیواس سے فائدہ پہونچانے میںشرعاکوئی کراہت وقباحت نہیں ہوگی۔ہذاماظهر لى وتحقق عندى والعم عندالله تعالى۔مكاتيب

(1)جن مولويو، كى نزديك فى سبیل اللہ عام ہےیعنی ہرکار خیر کوشامل ہے۔ ان کےیہاں عشر زکوۃ فطر کےبارے بڑی گنائش ہےاورجن محققین  کےنزدیک فی سبیل اللہ سےمراد صرف جہاد بالسیف اورمجاہدین بالسف اور ضروریات جہاد کے علاوہ  کسی اورجگہ نہیں حرچ کی جاسکتی ہے۔

٭صدقہ الفطر غیر مسلم کونہیں دینا چاہیے صدقۃ الفطر واجبات وفرائض سے ہےاورواجبات صدقہ کاکسی غیر مسلم کودینا درست نہیں ہے اوس کےمستحق صرف مسلمان فقراء ومساکین ہیں۔

٭زکوۃ کےمصارف ہشتگانہ مذکورہ فی القرآن میں ایک مصرف مؤلفۃ القلوب ہے۔اگر کسی غیر مسلم کےبارے میں یہ توقع ہو کہ وہ مالی معاونت اورداد پیش کی وجہ سے اسلام اورمسلمانوں کی طرف مائل ہوکر اسلام قبول کرلے گایا مسلمان اس کےشر اورفتنہ وایذا سےمحفوظ رہ سکیں گے توایسی صورت میں غیر مسلم کوزکوۃ وعشر اورفطرہ کی رقم بطور تالیف قلب دے سکتےہیں۔

٭تؤخذ من أغنياءهم وترد على فقرائهم كا ارشاد نبوی فقراء مسلمین اورمویشی کی زکوۃ اورغلہ کے بارے میں ہےاوریہی حکم سونےچاندی کی زکوۃ کابھی ہے کہ مسلم اغنیاء سےوصول کر فقراء اوردوسرے مبینہ مصارف میں صرف کی جائےگی اور جوحکم زکوۃ وعشر کا ہے وہی صدقۃ الفطر کابھی ہے۔چرم قرباین اورنذر کےپیسے بھی صرف مسلمانوں کودیئے جائیں گے البتہ ایصال ثواب ہرمحتاج غریب کودے کر کیا جاسکتاہےاپنی زکوۃ وعشر اور فطر نذر ونیاز اور ایصال ثواب کی رقم خود اپنے اوپرخچ کرنادرست نہیں ہے چرم قربانی بغیر فروخت کئےہوئےاپنےکام میں  لاسکتاہے۔ واللہ اعلم۔مکاتیب

٭مدرسہ کےمدرس سےچندہ وصول کرنےکاکام رمضان کی چھٹیوںمیں لینا اوراس کواس کام کی اجرت  میں ایک مہینہ کی پوری تنخواہ رمضان کی مقرر تنخواہ کےعلاوہ یعنی :رمضان کی ڈبل تنخواہ دینا جائز ہے۔ شرعا اس میں کوئی مشائقہ نہیں ہے اور اگر ناظم اراکین مدرسہ کےمشورہ اوررائے سے اپنی نظامت کی ماہانہ تنخواہ معین کرالے اور مدرسین اوردوسرے ملازمین کی طرح مقرر تنخوا لیا کرے توشرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ناظم کایا کسی دوسرے ملازم کایاکسی چندہ وصول کرنے والے کاشدہ چندہ کا1/2/یا3/4/لینادرست  نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ اجرت معلوم نہیں ہےبلکہ مجہول ہےکسی کونہیں معلوم کہ چندہ کتنا وصل ہوگا؟ اور اس کاچوتھائی یاتہائی یا چھٹاں یادسواں حصہ  کتناہوگا اس معاملہ کوزمین کے بٹائی کےمعاملہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔کمالا یخفے

چندہ دہندگان کی طرف سے چندہ وصول کرنے والوں کوجوان کے قریبی ہوتےہیں چندہ وصول کرنےوالوں کو ان کا لینا جائز ہے بشرطیکہ مدرسہ کےچندہ پر اس تبرع کاکوئی اثر نہ پڑے یعنی اس میں کمی نہ کی جائے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 79

محدث فتویٰ

تبصرے