سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) مدرسین کو صدقہ و زکاۃ دینا

  • 17352
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2551

سوال

(26) مدرسین کو صدقہ و زکاۃ دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گاؤں والے صدقہ زکوۃ عشر اورچرم قربانی جمع کرکے ایک یا دو مدرس رکھ کر گاؤں کےبچوں کوتعلیم دلاتے ہیں۔کیا اس مدرسہ میں مالداروں کےبچے بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟ اورکیا اس قسم کےمال کو مسجد میں لگایا جاسکتا ہے؟یااپنی ہی مسجد کے لئے منع کیا گیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نفلی صدقات وخیرات اور فریضہ عشر وزکوۃ اورچرم ہائے قربانی ان تینوں کاحکم ایک نہیں ہے۔یہ معلوم ہےکہ قربانی اورہدی میں فرق ہے۔بنابریں قربانی کی کھال فقراء ومساکین کےلئےمخصوص نہیں ہوگی۔قربانی کرنےوالا خود بھی اس کو اپنے مصرف میں لاسکتا ہے اوردوسرے کوہدیہ بھی کر سکتا ہے۔ اورمہدی الیہ وموہوب لہ اس کی اپنی ضرورت کے علاوہ تمام مصالح اوررفاہ عام کے کاموں میں صرف کرسکتا ہے اورطلبہ کےوظائف مدرسین کی تنخواہ اورمدرس کی تعمیر وترمیم بدرجہ اولی خرچ کرسکتاہے۔علامہ محب الدین الخطیب العواصم من القواصم کےمقدمہ ص26میں قاضی ابوبکر بن العربی مالکی قاضی اشبیلہ کےمتعلق لکھتے ہیں:

كان ابن العربى اول من خطر على باله الاستفاد من جلود الأضاحى فى المصالح المعامة فحض الناس على ان يتبر عوا بجلود اضاحيهم لبناء هذا السور(اى سواشبيلة)فكان فى ذلك موفقا الا ان اعداءه ومبغضى طريقته اثار والعامة عليه باساليبهم الخبيثة الخ

نفلى صدقات وخیرات محض اختیاری ہوتےہیں اور صرف فقراء ومساکین کودیئے جاتے ہیں اور اس کےدینے سےمحض اخروی ثواب مقصود ہوتا ہے۔ کوئی دنیاوی منفعت مطلوب نہیں ہوتی۔پس نفلی صدقہ کرنے والوں کواپنی خیرات کی رقم اپنےبچوں کی تعلم پریا امیر وغیر یب کےبچوں کی تعلیم پر یاغریب ملازم کی تنخواہ میں صرف  کرنا صدقہ اورخیرات کےمفہوم اورموضوع شرعی کومسخ کردینا ہے۔ فرض زکوۃ کامصرف قرآن میں موجود ہےجو علماء اہل حدیث(فی سبیل اللہ) کومطلق وجود پر محمول کرتے ہیں  وہ زکوۃ عشر کو مدرس کی تنخواہ اور تعمیر مدرسہ ومسجد وغیرہ  میں صرف کرنے کو جائز بتاتےہیں اور جو اس کوجہاد بالسیف بر محمول کرتے ہیں ان کے نزدیک اموال زکوۃ وعشر کاجہاد اوراس کی ضروریات کےعلاوہ دوسرے غیر منصوص وجود میں صرف کرناجائز نہیں  وهذا هوالرجح عندى

بعض علماء اہل حدیث کاخیال ہے کہ زکوۃ وعشر کی رقم سے جس مدرس کومستقلاء غرباء  کےبچوں کوتعلیم کےلئے تنخواہ دی جائے تو زکوۃ دہندگان کےبچے تبعا اس مدرس سےتعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ولایخفی مافیہ

ہر شخص پر اپنےبچوں کی تعلیم وتربیت صحت ولباس کاانتظام ضروری ہے۔ جب عشر وزکوۃ بچوں کوکھلانا جائزنہیں ۔توان کی روحانی ودماغی غذا پر بھی صرف کرناجائز نہ ہوگا۔

زکوۃ عشر نہ اپنی مسجد خرچ کرناجائز ہےنہ دوسری مسجد پر۔ مسجد اور اس کی ضروریات زکوۃ کےمصرف میں داخل نہیں واللہ اعلم بالصواب

فتاوی علماء اہلحدیث

عالی جناب مکرمی مولانا شیخ الحدیث صاحب /مدظلہ العالی

السلام علیکم  مزاج مبارک ؟

ایک استفتاء بغرض جوباصواب معروض ہے:

(1)کسی ایسے مدرسہ میں جس  میں دینی علوم کارواج ہواس میں عصری علوم ہندی انگریزی یاصنعت وحرفت کےبعض کورس کاداخل کرناجائز ہے یا نہیں؟ اور ایسے دینی علم کےساتھ دنیوی علوم انگریزی وغیرہ سیکھنےوالے طالب علم پر عشر زکوۃ خرچ کرکے تعلیم دلاناجائز ہے یا نہیں؟

(2)ایک طالب علم ہمارے مدرسہ میں اس طرح داخل ہےکہ فارسی جماعت کےاسباق کاپابند ہےاورساتھ ہی انگریزی کےایک قریبی ہائی اسکول میں انگریزی بھی مڈل ...کورس کانویں کلاس میں داخل ہے ذہین ہےدونوں تعلیم پر کنٹرول کرسکتا ہےیہ لڑکاقرآن شریف کا اردووغیرہ کاساتھ ساتھ اچھی تربیت وعلم سب میڈل تک پڑھ چکا تھا اب اس کےوالد کو خیال ہواکہ دینی فضا دینی تعلیم دینی ماحول کےاندر رکھ کر کچھ انگریزی بھی انٹر نس تک حاصل کرلے تو میں اسے داخل کرلیا ہےاگر ہرا کے مولوی عبدالعظیم صاحب نےشرعا اس کوناجائز بتلایا ہے مولاناعبدالغفور صاحب بسکوہری مولوی محمدزماں مولوی محب مولوی عبدالرحمن صاحب بجواوای اور میں بھی ایسی تعلیم کےجواز میں ہیں اور یہ لوگ بھی ایسے طالب علم داخلہ کوجائز اورشرعادرست بتلائےہیں۔آپ  فتوی عنایت فرمائیں کہ ایسے دینی وعلوم کےساتھ دنیوی علوم انگریزی تعلیم بھی حاصل کرنےوالے طالب علم کاداخلہ مدرسہ میں جائز ہےیا ناجائز ہے؟مدرسہ کاطعام قیام اس کےلئےحلال ہوگا یا حرام ؟ والسلام۔سائل

ج:(1)جو مدرسہ دینی علوم کی تعلیم وترویج کر غرض سےقائم کیا گیا ہواوراس غرض کومد نظر رکھتےہوئے اس میں دینی علو م وفنون کی تعلیم واشاعت کاانتظام کیاگیا ہو ا ایسے مدرسہ میں ضمنی اورجزوی طور پر عصری علوم ہندی انگریزی صنعت وحرفت حساب جغرافیہ وغیرہ کےبعض کورس داخل کرناجائز ہے بقدر ضرورت ہندی انگریزی  وغیرہ زبانوں کاسیکھنااوردوسرے دنیاوی جائز علوم وفنون حاصل کرنابلاشبہ شرعامباح ہے پس جب مدرسہ میں اصل مقصود دینی علوم کی ترویج واشاعت ہو  اوراس کاحسب استطاعت انتظام ہو تو اس کے ساتھ اگر جزوی طور پر بعض علوم کونصاب میں داخل کرکے اس کاانتظام کیاجائے توشرعا اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اور ایسے مدرسہ میں دینی علوم کی تحصیل کے ساتھ دنیوی علوم انگریزی وغیرہ پڑھنےوالےطالب العلم پر عشر اورزکوۃ وصدقہ الفطر خرچ کرنااس شرط کےساتھ میرے نزدیک جائز ہےکہ وہ طالب علم عشر وزکوۃ کامصرف ہو یعنی فقیر ومسکین ہو ۔اگر یہ طالب علم فقیر ومسکین نہیں ہے بلکہ غنی ہے بسبب اس کےوہ خود صاحب نصاب زکوۃ ہےیا اس کے والدین ایسے غنی ہیں کہ مدرسہ میں اس کےکھانےاورکپڑے وغیرہ ضروری اخراجات کےمتحمل ہوسکتےہیں توایسے طالب علم پر عشر وزکوۃ وغیرہ خرچ کرناہرگز جائز نہیں۔

 میں آپ کوتفصیل لکھ چکاہوں کہ میرے نزدیک تعمیر مدرسہ وتنخواہ ملازمین مدرسہ اور اصحاب نصاب علماء طلباء نہ فی سبیل اللہ میں داخل ہیں اور نہ عاملین میں۔پس علماء طلباءاگر فقیر مسکین ہیں تو زکوۃ وعشر کےمصرف ہیں اور مصرف ہونے کی حیثیت سےان رقوم کا ان پر خرچ کرناجائز ہے اور اگر غنی  ہیں تو نہ ان کودینا جائز ہے اور نہ ان کےلئے اس لینا جائز ہے۔پس جب مصرف ہونے میں محض اسلام اورفقر ومسکنت کااعتبار ہےتوعشر وزکوۃ کی رقم  جس طر ح ایک دینی علوم کوحاصل کرنےو الے غریب طالب علم پر خرچ کرنی جائز ہے اسی طرح دنیا میں جائز علوم حاصل کرنے والے مسلمان غریب متعلم پر خرچ کرنی جائز ہے۔البتہ اولی اول الذکر پر خرچ کرنا ہے اورجن لوگوں (بعض مجہول فقہا اورموجود دور کےبعض مجتہدین اورامیر یمانی ونواب بھوپالی وسید رشید رضاوآزاد صاحب) کےنزدیک دینی مدرسہ اورعلماء طلبا فی سبیل اللہ میں داخل ہیں یا عاملین کےحکم میں ہیں۔ ان کےنزدیک صرف دنیاوی علوم حاصل کرنےوالٰے طالب علم پر زکوۃ وعشر خرچ کرناجائز نہیں ہوگا........ دینی مدرسہ کے اس مدرس کی تنخواہ میں صرف کرنا جائز ہوگا جس کےذمہ صرف دنیاوی علوم کی تعلیم ہو۔ ہاں اگر مدرسہ میں  مقصود بالذات دینی تعلیم ہو اور ضمنا دنیاوی تعلیم کابھی انتظام کردیا گیا اور استاد کے ذمہ اسباق کےساتھ بعض دنیاوی علوم کےاسباق بھی ہوں اورطالب علم کااصل مقصود دینی علوم کی تحصیل ہواورجزوی طور پر دنیاوی وفنون کےاسباق پڑھتا ہوتو اس صورت میںان سب افراد مذکورین پر گروہ ثانی نزدیک عشر وزکوۃ کا خرچ کرناجائز ہوگا۔

(2)اگر یہ طالب علم غنی نہیں ہےبلکہ فقیر ومسکین ہےتو اس کامدرسہ میں داخل کرکے اس پر زکوۃ وعشر خرچ کرنامیرے نزدیک جائز ہےاوراگڑ وہ صاحب نصاب ہےیا اس کے والدین اورس کےتمام اخراجات کاانتظام کرسکتے ہیں تو اس پر زکوۃ وعشر خرچ  ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ وہ وزکوۃ کامصرف نہیں ہےاور اگر وہ ثانی کےنزدیک اس طالب علم پر زکوۃ وعشر اوس صورت میں جائز ہوگا جب کہ اوس کامقصود اصلی دینی علوم کا سیکھنا اوردینی تربیت حاصل کرناہو اوردنیاوی علوم کاپڑھنا ضمنی اورجزوی...... مقصود اصلی  نہ ہو کیوں کہ اس صورت میں وہ فی سبیل اللہ کامصداق ہوگالاوراگر مقصود اصلی اورس کا یا اوس کے والدین محض دنیاوی علوم کاسکیھنا ہےاور دینی علوم کاحاصل کرنامقصود اصلی نہیں بلکہ محض اس  غرض سےہےکہ اوس کور ہنےسہنےکھانے پینے کاانتظام ہوجائےتو اس پر عشر وزکوۃ کاخرچ کرنادرست نہیں ہوگا واللہ اعلم۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 67

محدث فتویٰ

تبصرے