سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) کرائے کے مکانوں کی آمدنی پر زکاۃ

  • 17349
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1408

سوال

(23) کرائے کے مکانوں کی آمدنی پر زکاۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کے پاس مختلف مکانات ہیں اور ان کاکرایہ آرہاہےکیا اس شخص پر اس کےمکانات میں زکوۃ واجب ہے؟ اگر نہیں تو زکوۃ سے بچنےکااچھابہانہ ہےاور اگر ہےتو کیا دلیل ہے؟ اور اس کی صورت کیاہے؟ مدلل ارشاد ہو


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان مکانات میںجن کاکرایہ ماہ بماہ آتارہتاہےزکوۃ واجب نہیں ہےکیونکہ کرایہ کی یہ جائداد ان اشیاء میں نہیں ہےجن میں زکوۃ واجب ہے اور نہ اموال تجارت سے ہے

مَالِكٌ؛ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَى عَامِلِهِ عَلَى دِمَشْقَ (1) فِي الصَّدَقَةِ: إِنَّمَا الصَّدَقَةُ فِي الْحَرْثِ، وَالْعَيْنِ، وَالْمَاشِيَة وَلاَ تَكُونُ الصَّدَقَةُ إِلاَّ فِي ثَلاَثَةِ أَشْيَاءَ: فِي الْحَرْثِ، وَالِعَيْنِ، وَالْمَاشِيَةِ قال محدث الهند فى المسوى: وعليه اهل العلم ان صدقة الاموال على ثلثة اقسام وزكوة التجارة انما توخد بحساب القيمة وأما صدقة الفطر فهى صدقة الروس انتهى

ہاں کرایہ کی آمدنی  کا روپیہ جب نصاب کوپہونچ کر ایک سال تک مالک  کےپاس بارقی رہے تو اس میں حولان حول کےدن زکوۃ کی ادائیگی واجب اور فرض ہوگی پھر نصاب کی مقدار کوپہنچنےکےبعد ماہ بماہ جس قدر کرایہ آتارہےاس میں ہر ایک  کا الگ الگ حول اعتبار کرنےکی ضرورت نہیں یعنی ان کرایہ ہائے مستفادہ کا علیحدہ حساب نہیں رکھاجائے گابلکہ پہلے نصاب کے ساتھ ضم کرکے ہی ان کی زکوۃ بھی ادا کردیں۔

لان فى اعتبار الحول لكل مستفاد حرجا عظيما وهو مدفوع بالنص

روبیہ خرچ کرکے کرایہ کےمکانات تعمیر کرانازکوۃ سےبچنے کاحیلہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کی آمدنی یعنی کرایہ کے روپوں کی میں بشرط نصاب زکوۃ واجب ہوگی اور اگر صورت مذکورہ حیلہ مذمومہ میں داخل ہےتوراضی مزروعہ یا سکونتی مکان وغیرہ خریدنےکوبھی حیلہ کہنا پڑے گا ہذا کما تری۔محدث

٭پراویڈینٹ فنڈ کی زکوۃ کاحکم اس فنڈ کی حیثیت اورحقیقت معلوم ہونے پر ہی متعین اور واضح ہوسکتا ہےاگر اس فنڈ کی رقم امانت ودیعت کی طرح ہے تو جس کی رقم اس فنڈ میں جمع ہوتی ہےاس کوقبل وصول ہونےکی بشرط نصاب حولان حول سال بسا زکوۃ ادا کرنی ہوگی اوراگریہ رقم قرض کی طرح ہے تو اس کاحکم دوسرا ہے۔

امانت ودیعت جس پر شاہد موجود ہواور امین اس کامعترف ہوبشرط نصاب وحولان حول مستودع یعنی مالک کے لئے ہرہر سال اس کی زکوۃ ادا کرنی لازم ہے۔لان الوديعة بمنزلة مافي يده لان المستودع نائب عنه فى حفظه ويده كيده (المغنى4/270) اور دین وقرض دوقسم کاہوتا ہے ایک وہ کہ مقروض اس کے ادا کرنےکی استطاعت رکھتا ہےاو راس کامقر ہےمنکر نہیں ہے۔ ایسے دین کےبارے میں ائمہ کے چار قول ہیں:

(1)وصول ہونے سے پہلے اس کی زکوۃ ادا کرنالازم اورضروری نہیں ہے۔ اورجب وصول ہوجائے توتمام گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنی ضروری ہے۔یہی مذہب ہےامام احمد امام ابوحنیفہ کا لأنه دين ثابت فى الذمه فلم يلزمه الاخراج قبل قبضه كما لوكان على معسر وانما يزكيه لمامضى لانه مملوك له يقدرعلى االانقطاع فلزمته وكونه كسائر امواله

(2)وصول ہونے کےبعد صرف ایک سال  بسال زكوة ادا كرنى ضرورى ہے

روى عن ذلك عن عثمان وابن عمر وجابر رضى الله عنهم واليه ذهب طاؤس والنخعى والحسن والزهرى وقتادة وحمادبن سليمان والشافعى واسحق وابو عبيد لانه قادرعلى أخذه والتصرف فيه فلزمه اخراج زكاته كالوديعة

(3)وصول ہونے کےبعد صرف ایک سال زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔ واليه ذهب مالك وري ذلك سعيد بن المسيب وعطاء بن ابى رباح وعطاء الخراسانى وابى الزناد لانه لووجب لكل سنة فربما احجفته الزكوة لكن عدم الزكاة فى الدين عندالمالكية مقيد بشروط اربعة كماكتب فروعهم –

(4)دین میں زکوۃ ہی نہیں ہے۔قال به عكرمة وري ذلك عن عائشة وابن عمر لانه غير نام فلم تجب زكوة كعروض القنية

ہمارے نزدیک پہلاقول راجح ہے۔

دین کی دوسری قسم وہ جومعسر تنگ دست غیر متطیع کےذمہ ہویا ایسے شخص کےذمہ ہو جواس منکر ہے اور شاہد موجود نہیں ہے یاوہ باربار وعدہ کرکے ٹالتا جاتا ہے حتی کہ اس کےملنے کی امید نہیں رہ گئی ہوایسے مال کواصطلاح فقہاء میں مال  مار کہاجاتا ہے۔وهو الغائب الذي لايرجى اي لايقدربه على اخذه يعني يتعذر اخذ ووصوله كالمسروق والمغصوب والمحجود والضال ایسےمال کےبارے میں تین قول ہیں:

(1)اس میں زکوۃ نہیں ہےے اورجب کبھی وصول ہوجائے یامل جائے اورواپس آجائے تومال مستفاد کےحکم میں ہوگایعنی وصول کےبعد ایک سال گذرنےپر اس میں زکوۃ واجب ہوگی۔واليه ذهب ابو حنيفه وهو القول القديم للشافعي وهو روايه لاحمد والنظر فى ذلك انه غير مقدور على الانقطاع به فاشبه مال المكاتب فى تعطل النماء وهو قول قتاده واسحق وابى ثور

(2)وصول ہوجانے کےبعد تمام گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنی واجب ہوگی اورقبل وصول کے کچھ لازم نہ ہوگا۔لماروى عن فى الدين المظنون ان كان صادقا فيزاذاقبضه لما مضى وروى نحوه عن ابن عباس رواهما ابو عبيد ولانه مملوك يجوز التصرف فيه فوجبت زكوته لمامضى كالدين على الملى وهذا اظهر قول الشافعى وهى رواية عن احمد

(3)وصول ہوجانے کےبعد صرف ایک سال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔لخوف الحجاف اذا وجبت لجميع السنين واليه ذهب مالك ورى عن عمر بن عبدالعزيز والحسن والليث والاوزاعى وفيه  ان هذا المال فى جميع الاحوال على حال واحد فوجب ان يتساري فى وجوب الزكوة اوسفر سقوطهاكسائر الاموال

ہمارے نزدیک دوسرا قول راجح ہے۔اس تفصیل کی روشنی میں پراویڈینٹ فنڈ میں جمع شدہ رقم کازکوۃ سےمتعلق حکم معلوم کرنا امید ہےمشکل نہیں ہوگابلکہ آسان ہوجائےگا۔مکاتیب

٭اس فنڈ(پراویڈنٹ فنڈ) کی زکوۃ نہ توفی الحال واجب ہے اورنہ وصول کےبعد فورا بلکہ جب کبھی یہ پورا فند وصول ہوکر آپ کےقبضہ میں آجائے اورتاریخ وصولی کےبعد اس پر ٖآب کی ملکیت اورقبضہ میں سال پورا ہوجائے اوروصول شدہ فنڈ بقدر نصاب ہوتب اس میں زکوۃ واجب ہوگی اس سے پہلے نہیں۔جیسے مہر مؤجل پر زکوۃ واجب نہیں تاوقتیکہ وہ دین مہر قبضہ میں نہ  آجائے اوروصولی کےبعد اس پر پورا سال نہ گذرجائے۔

سال کےاندر مثلا: رمضان سے دوسرے رمضان تک کےدرمیان میں وقتا فوقتا آپ جس قدر رقم جمع کرتے ہیں اور ضرورت پر بقدر ضرورت نکالتے رہتے ہیں ان کو چھوڑ کر جس قدر  رقم بینک میں سال بھر پڑی رہےاوروہ بقدر نصاب ہوتو صرف اسی رقم پر زکورۃ واجب ہوگی۔ ہر سال حرف ایسی ہی رقم میں زکوۃ ہوگی۔ درمیان سال میں جمع  کی جانے والی اور نکالی جانے والی رقوم کواسی سال نصاب میں محسوب نہیں کیاجائے گا۔مکتوب

٭فنڈ کا ہاف حصہ جو سکول انتظامیہ کمیٹی ابنی طرف سےملائی ہےوہاس کی طرف  ایک طرح کی اعانت اومدار اوراحسان وسلوک ہےاس لئے اس کے قبول کرنےمیں کوئی قباحت نہیں ہے۔البتہ اس جمع شدہ فنڈ بر بینک کی طرف سے سود ملتا ہے وہ شرعا ربو حرام ہے اوسکو لے کر اپنے اورپریاکسی مسلمان پر خرچ کرناشرعا جائز نہیں ہے۔ اس سود کی رقم کوبینک میں نہ چھوڑا جائےبلکہ لے ان سرکاری ٹیکسوں میں صرف کردیا جاےجوشرعا ظلم معلوم ہوتے ہیں۔

یہ فنڈ جب وصول ہوجائے تواوسی وقت اس کی زکوۃ نکالی جائے گی صرف اوس ایک سال کی کہ جس میں وصول ہوا ہےیا تمام گذشتہ سالوں کی کہ جب وہ نصاب کوپہنچ گیاہےیہ امر مختلف فیہ ہے۔احتیاط اس میں ہےکہ تمام گذشتہ سالوں  کی نکالی جائے ویسے امید ارگنجائش اس کی ہےکہ صرف ایک سال کی نکالنے پر اکتفاء کیا جائے۔اس لئے کہ گذشتہ برسوں میں وہ فنڈ اوس کی دسترس سےخارج تھا۔نہ وصول کرسکتا تھا نہ اوس کوکاروبار میں لگاسکتااوروصل کرنےبعدآئندہ جب تک وہ رقم بقدر نصاب رہےہرسال حسال سےزکوۃ نکالنی ہوگی۔مکتوب

٭ملازمت پیشہ لوگ اپنی تنخواہ سےہرمہینہ جوکچھ رقم ڈاک خانہ یابینک میں جمع کرتے رہتے ہیں۔وہ ڈاکخانہ یابینک سے ملنے والی کتاب درج ہوئی رہتی ہے۔اس کودیکھ کرجمع کرنےوالے کومعلوم ہوسکتاہےکہ کس مہینہ میں مجموعی رقم نصاب کویعنی :اس مقدار کوپہنچ گئی ہےجس سےساڑھے باون تولے چاندی خریدی جاسکتی ہے۔ جس دن اورتاریخ کویہ مجموعی رقم نصاب کویعنی :مذکورہ خاص کوپہنچ جائے اوس تاریخ سےجب مقدار پر پورال سال گزرجائے یعنی سال بھر تک بینک یاڈاک خانہ میں جمع رہے یانکال لینے کےبعد گھر میں پڑے رہےتب اوس میں زکوۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔اس مقدار پرپورا سال گذرنےتک درمیان میں جس قدر رقم جمع ہوتی  جائے اور اس کی زکوۃ بھی اگرچہ وہ نصاب کونہ پہنچی ہو۔ساتھ ہی نکال دی جائے۔ اسی طرح سال بہ سال جب تک رقم نصاب کےبرابر رہےیا نصاب سے زیادہ رہےسب کی زکوۃ ادا کی جایا کرے ۔فرض کیجئے کہ اس وقت چاندی  فے تولہ تین روبیہ میں ہےتونصاب 1/2۔52تولے کی قیمت ایک سو ستاون روپیہ پچاس ہوئی ۔پس فی الحال موجود روپیہ سےاوس کا نصاب 157 روپیہ پجاس پیسے ہوا۔ اب زکوۃ میں اس کاچالیسواں حصہ نکال دیاجائے۔پھر اس کانصاب سےزائد جس قدر رقم جمع ہو اس کی زکوۃ بھی اس حساب سےنکالے جائے۔

درمیان سال میں ڈاک خانہ یا بینک سے ضرورت پر جور قم نکالی جائے اورخرچ میںآجائے اوس کوچھوڑ کر بقیہ رقم بقدر نصاب رہ جائے توصرف اس بقیہ بقدر نصاب رقم   زکوۃ ہوگی۔ سال پورا ہونے سےپہلے خرچ کےلئے نکالی ہوئی رقم پر زکوۃ نہیں ہوگی۔جمع شدہ رقم پر ملنے ولاسود جمع کرنے والے کی ملکیت نہیں ہےاور اس کےلئے حلال نہیں ہے پس اوس کی زکوۃ کانکالنے سوال ہی پیدا ہوتا ہے۔

٭ملازموں کی تنخواہ سےکٹ کر جوفنڈ سرکاری خزانہ میں جمع ہوتا ہے اوس پر زکوۃ اس وقت لاگو ہوگی جب وہ جمع ہوتے ہوتےنصاب کو پہنچ جائے لیکن زکوۃ کی ادائے گی اس وقت لازم ہوگی جب وہ وہ وصول ہوجائے۔ وصول ہونے کے وقت جتنے نصاب ہوں اور ان پر جتنے سال گذرے ہوں ان تمام نصابوں کی تمام گذرے ہوئےسالوں کی طرف سےزکوۃ اکھٹی نکالنی ہوگی۔

سود کی رقم جوگورنمنٹ دیتی ہےاسے لے کر سرکاری ٹیکسوں میں خرچ کردیا جا جائے جوشرعا غلط ہوں اورظلم وزیادتی اورجبر کےحدود میں آتے ہوں۔اپنے اوپر یاکسی بھی مسلمان کےاوپر خرچ نہ کی جائےاورنہ حکومت کےخزانہ یابینک میں چھوڑی جائے۔مکتوب

٭خیال تھا کہ دونوں مسئلوں پر تفصیل سے لکھوں لیکن  اب تک اس کی کوئی صورت نہیں نکلی سکی۔اس لئے مختصر اشارہ کرتاہوں آپ خود تفصیل کرلیں۔

(1)اموال ظاہرہ(مویشی زمین پیداوار مال تجارت جس کو مسلم تاجر اسلامی شہروںمیں ایک منڈی سےدوسری منڈی میں لے کر گھومتا رہتاہو) کی زکوۃ کا اخفاء توہی نہیں سکتا۔اس لئےکہ مویشیوں کی زکوۃ اروغلوں اور پھلوں کاعشر یانصف عشر اسلامی حکومت کاعاشر عامل  ساعی خود جاکر علی رؤس الاشتہاد وصول کرتا ہے اور مال تجارت کی زکوۃ مدخل بلد مقرر نگراں عاشر وصول کرتاہے۔

رہ گئی مال باطن یعنی :صامت (سیم وزرا ارونقد سکےاورزیورات) کی زکوۃ توبعض علماء(ابن عباس  وغیرہ) کاخیال یہ ہےکہ مطلقا اس کاابداء افضل ہے ابن کثیر لکھتےہیں(1/432) إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ عامة فى أن اخفاء الصدقة افضل سواء كانت مفروضة اومندوبة لكن روى ابن جرير من طريق على بن طلحة عن ابن عباس فى تفسير هذا الاية قال :جعل الله صدقة السرفى التطوع تفضل علانيتها فقال :بسبعين ضعفاء وجعل صدقة الفريضة علانيتها افضل من سرها فقال :بخمسة وعشرين ضعفا

 ان لوگوں کےنزدیک اخفاء صدقہ کی احادیث وآیات کامحمل صرف نافلہ ہیں۔

میرے نزدیک صدقات تطوع اخقاء افضل ہے۔ہاںاگر برملادینے میں دل ریاء وسمعہ  کی تحریک نہ پیدا ہو اور دوسرےلوگوں کو اس سے ترغیب دلانی مقصود  ہواورتجربہ ا اس کااچھا اثر ہوتاہویااخفاء میں لوگوں کواس کےمتعلق بخل وامساک کی بدگمانی ہوتی ہو توان صورتوں میں صدقہ نافلہ کابھی اظہار اس کےاخفاء سےافضل ہے اورجہاں اسلامی حکومت قائم ہواور اسلامی نظام کےمطابق بیت المال موجود ہو وہاں تو مال صامت کی زکوۃ مفروضہ بیت المال میں جاکر جمع لازم ہےیا مصدق کودینی  ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ نےحضرت عمر کوخالد عباس ابن جمیل کےپاس مال صامت ہی کی زکوۃ وصل٭ول کرنےکے لئے بھیجا تھا۔پھر وہاں بہرحال ابداء کی سواچارہ نہیں اس لئے وہاں ابدا ہی متعین اورافضل ہے۔

رہ گیا ایسامقام جہاں یہ صورت حال نہ ہو  نہ اسلامی حکومت اوربیت المال ہو نہ جماعتی نظم ہوتووہاں بھی اس کااظہار اس صورت میں افضل ہے۔جب کہ ریاء وسمعہ سےمحفوظ رہےاوراخفاء میں لوگوں کواس کےمتعلق یہ بدگمانی ہوکہ یہ صاحب نصاب ہوکر زکوۃ ادا نہیں کرتا البتہ نماز وغیرہ کر طرح اعطاء زکوۃ میں بھی ریاءوسمعہ نیز من واذی سےمحفوظ رکھنےکی کوشش ضروری ہے۔

لیکن میرے نزدیک جماعتی نظم قائم کرکے زکوۃ وفطر اورعشر وصول کرنا اروباقاعدہ ایک نظام کےماتحت مستحقین کاپتہ لگا کر ان میں تقسیم کرنا انفرادادینےسےبہرحال افضل اور بہتر ہے۔یہ مولوی نہ اسلامی حکومت کےقیام کی سعی کریں گے اورنہ جو کچھ ان کےبس میں ہےاس کواختیار کریں گے۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسلامی حکومت یامہدی موعود کاانتظار کریں گے۔ اللہ تعالی ان پررحم کرے۔اصل بات یہ ہےکہ چپکے چپکے زکوۃ دینے کی صورت میں غیر مستحق مولوی چپکے چپکے خود ہی وصول کرلیا کرتے ہیں اورجماعتی نظم کےماتحت بیت المال قائم ہونے کی صورت میں محروم ہوجاتےہیں اس لئے آب کےاس نظام کی مخالفت کررہےہیں۔

خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیز کےزمانہ میں مسلم تاجروں سے عاشر زکوۃ وصول کرکےان کورسید دیاکرتاتھا کہ دوبار بغیر حولان حول کےان سےدوسرا عاشرزکوۃ وصول نہ کرے(کتاب الاموال ص:538’1284)عام طور پر عشر اورمویشیوں اورسیم وزر کی زکوۃ کےدرج رجسٹر کرنے اوراصحاب اموال کورسید دینے کا ذکر نہیں آتا اس لئے کہ عہد نبوت وخلافت راشدہ میں عمال اورساعی محتاط ہوتے اور عوام کو ان پر اعتماد ہوتا ۔اب وہ بات نہیں رہی اس لئے احتیاط درج رجسٹر کرنا اوررسید دینا اورجس قدر کسی کودی جائے اورجس کودی جائے اس کانام درج کرنا مناسب بلکہ ضروری ہے۔دہلی کے امام باڑہ میں بڑے اورچھوٹےامام کوحلقہ والے زکوۃ فطر دیتے۔یہ لوگ جہاں چاہتے خرچ کرتے نہ حساب نہ کتاب من مانی طور خوب اڑاتے۔جب کوئی من چلا سر پھرا باقاعد حساب وکتاب رکھنے کی تجویز پیش کرتا کہہ دیتے کہ آنحضرت ﷺ کےزمانہ میں رجسٹر وغیرہ کہاں تھے؟ان اللہ

ان مخالفین کی مخالفت کی پرواہ نہ کی جائے اورخاموشی کےساتھی کام کیاجائے ان شاء اللہ حسن انتظام دیکھ کر یہ لوگ خود شرمندہ ہوں گے۔مرقومہ تفصیل سےمعلوم ہوگا کہ صدقات نافلۃ کااخفاء ہر حالت میں افضل نہیں ہے۔ اسی طرح زکوۃ مفروضہ کااظہار بعض حالات میں افضل ہےبلکہ ابن عباس کےقول کےمطابق اس کاابداء بہرحال افضل ہے۔ مکاتیب

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 60

محدث فتویٰ

تبصرے