السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اب اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشر کس چیز کے اعتبار سے نکالیں۔گڑ کاوزن معتبر ہےیاگنا کا اس لئے میں ایک استفتاء مرتب کرکے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب کی خدمت میں بھیجا سوال یہ ہےکہ:
ہمارے اطراف میں گناشوگر فیکٹڑیوں میں فروخت کردینے کا رواج ہے تو عشر کےلئے خود گنا میں نصاب ہے یا اس کےگڑو شکر میں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
گنے میں وہی نصاب ہےجو اورغلہ جات گیہوں جودھان مٹڑ چنے مسور ماش مونگ کاہے البتہ میرے نزدیک گنے نصاب گڑیا راب کےاعتبارسے معین کرنا راجح ہے۔ جس طرح(ماأخرجنا من الارض)رطب اور عنب ہے تمریة وزبيةبعد میں عارضی ہوتی ہے مع ہذانصاب میں اسی حالت ثانیہ کا اعتبار ہےنہ حالت اولی کااس طر ح(ماأخرجنا من الارض) گنا ہے اور قندیت اور شکر یت فعل عبدسے اس میں حادث ہوتی ہے۔ پس یہاں بھی نصاب کےاعتبار میں اس کی حالت ثانیہ کالحاظ ہوناچاہئے نام وشکل کافرق مؤثر نہیں ہونا چاہئے اگر آپ کےاطراف میں گنا بارانی نہیں ہےبلکہ کنویں وغیرہ سےسیراب کرنےسےتیار ہوتا ہے اور پھرشوگر فیکٹریوں میں فروخت کردیا جاتا ہے اورخود گڑیاراب نہیں بنایا جاتا ہے تو اس کانصف عشر اس طرح نکال دیا جائے کہ گنے کی جتنی مقدار سےپختہ ساڑھے اکیس من گڑیاراب تیار ہوسکتی ہےاتنی مقدار کابیسواں حصہ قبل فروخت کرنے کےمصارف زکوۃ صرف کردیا جائے یا فروخت کرکے اس کےبیسیوں حصہ کی قیمت ادا کی جائے دونوں جائز ہےدوسری صورت کے حق میں بہتر ہے۔واللہ اعلم۔
نوٹ: اس فتوی پر علماء ہندو پنجاب وعلماء پاکستان کےفتاوی اور ان کےدستخط ثبت ہیں۔
اس فتوی میں اندازہ لگانے کاجوذکر ہوا اس کےمتعلق میں خاص طور پر کیمسٹ افسران سےمعلوم کیاتو پتہ چلا کہ ہر پختہ سو من گنا میں دس من گڑتیار ہوتا ہے اور بارہ من پختہ راب اورکین ڈیپارٹمنٹ کےاسی ڈی او انسپکٹر صاحب سےملنے پر معلوم ہوا کہ صوبہ یوپی میں اگر کولہو عمدہ بیل مضبوط اور قوی ہوں تو ان کےذریعہ اچھی طرح رس نکالنے پر بھی سو من گنا دس سے زائد گڑ نہیں ہوسکتا۔
پس تحقیق بالا کےمطابق ظاہر ہےکہ پختہ ساڑھے اکیس من گڑ پختہ دوسو پندرہ من گنا میں تیار ہوتا ہے جس کابیسواں حصہ ایک تین سیر پختہ گڑ ہوا اور پختہ ساڑھے اکیس من راب پختہ پونےدوسومن گنا تیا ہوتا ہے بس ادنی نثاب پونےدوسومن گنا ہے اس پر عشر بیسواں حصہ نکالنا واجب ہے اب خواہ گڑ اور راب کو عشر میں نکالئے یا اس کی قیمت کو حساب سےمعاملہ یکساں ہوجاتا ہےاموال زکوۃ میں دونوں صورتیں صحیح ہیں البتہ مصارف کےحق میں قیمت کی ادائیگی بہترہے۔
عام طور سے سونا چاندی میں زکوۃ کااور چوپایہ میں صدقہ اورپھلوں اورغلوں میں عشر کا اطلاق ہوگیا ہےحالانکہ رسول اکرم ﷺ نے ان سب چیزوں میں مقدار واجب نکالنےکو زکوۃ سےبھی تعبیر فرمایا ہے۔
امام بیہقی لکھتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نےفرمایا : مامن رجل يموت ويترك عنها غنما أوأبلا وبقر لم يؤد زكاتها إلا جاء تها أعظم مايكون(فسمي الواجب فى الماشية زكاة)
يعني جو شخص گائے اونٹ بکری کازکوۃ نہ دے گا تو یہ جانوردن قیامت میں اور موٹی تازی ہوکر اس آدمی کو روندے گی اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نےجانوروں میں واجب مقدار کےنکالنے کانام زکوۃ رکھا اسی طرح پھلوں کے متعلق آں حضرت نےفرمایا کہ انگور کی زکوۃ میں منفی اور تازہ کھجور کی زکوۃ میں خشک نکالے جائیں گے۔ امام بیہقی لکھتے ہیں:فسمي العشر فى الكرم والنخل زكاة پس پھلوں میں مقدار واجب یعنی عشر کوآنحضرت ﷺ نے زکوۃ سےتعبیر فرمایا ۔(سنن کبری بیہقی7/5)
پس جو لوگ زکوۃ کےبارہ میں آئی ہوئی وعیدوں کو سن کر صرف چاندی سونااوروپیہ کےزکاۃ کوزیادہ اہم سمجھتے ہیں اور عشر وصدقہ کو معمولی سمجھ کر تساہلی اور غفلت کرتے ہیں انک اس حدیث کی روشنی میں اچھی طر ح معلوم کرلایناچاہئے کہ پھلوں اورغلوں کےاند عائد شدہ مقدار واجب نکالنے کانام بھی زکوۃ ہے البتہ اس کادوسرا نام عشر اس پر غالب آگیا ہے ورنہ داراصل یہ بھی زکاۃ الارض وزکاۃ الثماری ہی بہر حال عشر یابلفظ دیگر زکاۃ کا غلہ ادا کرناروپیہ وغیرہ کی زکوۃ کی طرح فرض عین ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب