سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) گیہوں، دھان، چنا وغیرہ کے عشر کی جگہ قیمت ادا کرنا

  • 17331
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2094

سوال

(05) گیہوں، دھان، چنا وغیرہ کے عشر کی جگہ قیمت ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)گائے کی زکوۃ میں جتنی راسیں نکل سکیں ان کی اصلی اور مناسب قیمت دے جائے اور ان  راسوں کو اپنے گلہ ہی میں دینا اور غلہ کواپنے پاس باقی رہنے دینا جائز ہوگا یا نہیں؟

(2) گیہوں دھان چنا جووغیرہ میں بصورت نصاب عشر یا نصف عشر کاجس قدر غلہ ہو اس کی قیمت مناسب نرخ سے لگا کردے دینا اور غلہ کو اپنے پاس ہی باقی رہنے دینا جائز ہوگا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(او2) زکوۃ میں واجب شدہ چیز کی قیمت نکالنے کادستور عہد نبوت میں نہیں تھا۔زمانہ نبوت کادستور یہ تھا کہ اصحاب نصاب زکوۃ والٰے مال کی زکوۃ اس مال میں سے یا اس جنس سے ادا کرتے تھے بشرطیکہ وہ مقرر شرعی مقدار کے مطابق ہو الا زكوة الابل الى اربع وعشرين فان الواجب فيها الشاة لا الابل بنا بریں میرے نزدیک صاف اور سیدھا اورحق مسلک یہ ہے کہ بغیر عذر کے زکوۃ میں قیمت نہ ادا کی جائے پس صورت مسؤلہ میں گائے کی زکوۃ میں واجب شدہ راس اور عشر میں غلہ کی بجائے بغیر عذر کےجائز نہیں ہوگی۔

علامہ شوکانی  فرماتےہیں:الحق ان الزكاة واجبة من العين لايعدل عنها الى القثيمة الاالعذر(نيل الاوطار4/216)وقال صاحب حدائق الازهار: وتجب فى العين ثم الجنس ثم القيمة حال الصرف قال الشوكاني فى شرحه السيل الجرار

هذا صواب لما قدمنا من الادلة الدالة على وجوب الزكاة في العين فإذا تلفت العين فالعدول إلي الجنس هو اقرب إلي العين من القيمة لان جنس الشيء يوافقه في غالب الأوصاف فإذا لم يوجد الجنس اجزأت القيمة لان لذلك غية ما يمكن من التخلص عن واجب الزكاة وقال صاحب الحدائق فى بيان صدقة الفطر:انما تجرى القيمة للعذر قال الشوكانى :هذا صحيح لان ظاهر الاحاديث الواردة بتعين قدر الفطر من الاطعمة ان اخراج ذلك مماسماه النبى صلى الله عليه وسلم متعين واذا عرض مانع من اخراج العين كانت القيمة مجزئة لان ذلك هو الذى يمكن من عليه الفطرة ولايجب عليه مالايدخل تحت امكانه انتهى

امام احمد امام مالک امام شافعی داود ظاہری وامام ابن حزم کامذہب یہ ہے کہ زکوۃ فطرہ میں قیمت نکالنی جائز نہیں وقد احتج لهم موفق الدين ابن قدامة فى المغنى وشمس الدين ابن قدامة فى الشرح الكبير(6/448)بثمانية وجوه فارجع الى هذين الكتابين ان شئت الوقوف عليها

اور امام ابو حنیفہ کےنزدیک زکوۃ کفارہ فطر عشر خراج نذر میں قیمت ادا کرنی جائز ہے ۔ امام بخاری کی تحقیق  واجتہاد بھی مسئلہ زکوۃ میں حنفیہ کے موافق ہے ۔چنانچہ اپنی صحیح میں اس مسئلہ پرباب الفرض فى الزكاة کے تحت چار دلیلیں ذکر کی ہیں:

قَالَ مُعَاذٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأَهْلِ اليَمَنِ: «ائْتُونِي بِعَرْضٍ ثِيَابٍ خَمِيصٍ - أَوْ لَبِيسٍ - فِي الصَّدَقَةِ مَكَانَ الشَّعِيرِ وَالذُّرَةِ الخ وقد أجبيب عن هذا الأثر بستة وجوه ان شئت الاطلاع عليها فارجع إلى عمدة القارى أوفتح البارى لحافظ الدنيا للعسقلانى وارشاد الساري للقسسطلانى والمحلى للامام ابن حزم الظاهرى

(2)احتبس خالد أدراعه واعتده فى سبيل الله قال العيني :مطابقة للترجمة من حيث للترجمة من حيث أن أدراع خالد واعتده من االعرض ولولاأنه وفقها لاعطى مما فى وجه الزكوة اولما صح منه صرفهما فى سبيل الله قد خلا فى احد مصارف الزكاة الثمانية المذكورة فى قوله عزوجل: اما الصدقات للفقراء الخ فلم يبق عليه شى انتهى

قلت : قوله عليه السلام هذايحتمل ثلثة معان كما لايخفى على المتامل ولايظهر وجه المطابقة بين الحديث والترجمة لاعلى احد معانيه الثلثة ومع احتماله للمعنين الاخرين كيف يصح الاستدلال

(3)قال النبى صلى الله عليه وسلم .... للنساء تصدقن ولومن حليكن قلت : الحديث ليس بواضح فى جواز أخذ االعرض اور القيمة فى الزكاة كما نبه عليه القسطلانى فى ارشاد السارى

(4)حديث ابي بكر فى اعطاء سن من الإبل بدل سن آخر وقد أجاب عنه الجمهور بأنه يدل على ان الزكوة واجبه فى العين ولوكانت القيمة هى الواجبه لكان ذكر عينا لانها تختلف باختلاف الازمنة والأمكنة قتقدير الجبران بمقدار معلوم لايناسب تعلق الوجوب(نيل االاوطار4/211)وقدبسط الحافظ هذا الجواب فى فتح البارى(3/313)فارجع اليه وأنما اأجملنا الكلام واكتفينا بالاشارات والايماء ات لأن المقام لايحتمل التطويل والإطناب واالتفصيل فعليك أن تراجع الكتب المذكورة(محدث)

عشر کے احکام

مولاناعبدالرؤف

علامہ غزالی نےاحیاء العلوم کےایک باب میں علوم دینیہ کی ترویج واشاعت کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے۔ اس  سے بالوضاحت معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کااقبال دو روہ زریں دور تھا جب کہ دینی ادارے شرعی بیت المال اور شاہی خزانوں سے روز افزوں عروج وارتقاء کے مراحل طے کررہے تھے مگر کون کہہ سکتا تھا کہ دو رغلامی میں تاج وتخت سے محروم اور فکر معاش میں کھوجانے والی مسلم قوم مسجد ومکتب اور دینی ضروریات کے مالی قربانی کا حق ادا کرےگی لیکن یہ معلم حکمت جناب محمد رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے اسلامی نظام اور اس کے اہم اصول زکوۃ وعشر ہی کی معجز نمائیاں ہیں کہ محکومی کےدور میں بھی مکتب کے بوریہ نشینوں نےتعلیمی ودینی نظام کو برقرار وقائم رکھا ہے۔

آج جب عشر وزکوۃ کےمسائل پر قلم اٹھایا تو والدی المحترم جناب حاجی نعمت اللہ خان کی پیکر ایثار ہستی کی یاد تازہ ہوگئی جنہوں نےزکوۃ وعشر کےفروغ کے کر بستی وگونڈہ اور نیپال کی ترائی میں ایک اسلامی وتعلیمی فضا برپا کردیہ کہ مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر کےقیام سے پیشتر ہمارا علاقہ زکوۃ وعشر  کےنام سےقطعا ناآشنا تھا۔رسمی طور پر کھلیانی اور برائےنام بھیک وصدقہ وغیرہ دے کر اہل مال زکوۃ وعشر سے خود کو سبکدوش سمجھتے تھیے اور یہی وہ زمانہ تھا کہ نیاز وفاتحہ کےچڑھاویے سے قبر ودرگاہ کےجواز میں ہن برستا تھا لیکن مساجد ویران اور صداقت ٖآمود مکاتب بے نام ونشان تھے۔

میرے والد نےجماعت کےاکابر علماءسے عشر وزکوۃ کےمسائل پوچھ پوچھ کر زمین داروں اور کاشتکاروں کوآگاہ کردیا کہ زمین کی ہر پیدوار میں اللہ کےبندوں کاحق ہےاس طرح اس دور کے قوم وجماعت کےسردار حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب محدث مبارکپوری کی شارح ترمذی صاحب تحفۃ الاحوذی مرحوم کی سرپرستی میں مدرسہ کودے کر زکوۃ عشر کے نظام کوفروغ دینے  کی مزید صورت پیدا کی ان کی اس طرخ قربانیوں کا ثمرہ آج قوم وجماعت کوحاصل ہے کہ ہمارے علاقہ میں گاؤں گاؤں زکوۃ وعشر کاچرچاہے دینی ادارے مالیاتی سقائی سے سیراب ہیں اللہ تعالی  توحید وسنت اوردینی خدمت کےاس شیدائی کو غریق رحمت کرے جوزکوۃ وعشر کی پابند کانمونہ بن کر اور اسے ہرڈھنگ سےفروغ دے  کر علاقہ میں نظام عشر وزکوۃ کابانی اول قرا ر پایا۔

آنےوالے صفحات میں آپ بانی مدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر (حاجی نعمت اللہ خان صاحب مرحوم) کےاستفتاء کو ملاحظہ کریں گے جو انہوں نےغلہ اور زمینی پیدوار کےعشر کےسلسلہ میں اس دور کےعلمائے کبار کی خدمت میں بھیجا تھا اس جواب لکھنے والے اور یہ دینی مسئلہ بتانے والے اس دور کےوہ ممتاز علماتھے جن کےعلم فضل وکمال سے کم بیش ہند پاک کاہٰ دیندار مسلمان واقف ہے شارح القاسم صاحب سیف بنارسی رحمہم اللہ جیسے اکابر واجلہ علماء ملت پر پوری طرح اعتماد وثوق کیا جاسکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 38

محدث فتویٰ

تبصرے