سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) زکاۃ کے مال کو کاروبار کے مال میں شامل کرنا

  • 17327
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1502

سوال

(01) زکاۃ کے مال کو کاروبار کے مال میں شامل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں لوگوں کی یہ عام عادت ہے کہ اپنے زیورات اور مال کی زکوۃ نکال کر علیحدہ نہیں کرتے بلکہ کاروبار ہی میں رکھتے ہیں اور اس سے برابر اپنا کام کرتے رہتے ہیں حسب ضرورت خرچ کرتے رہتے ہیں اور زکوۃ کھاتہ بنارکھے ہیں اس میں درج ہوجاتا ہے کیا زکوۃ ادا کرنے کا یہ طریقہ صحیح ہے؟ یا اس کے علاوہ دوسرا طریقہ ہوناچاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوۃ کھاتہ بنانے کس دو صورت ہوسکتی ہے:

(1)جس قدر زکوۃ واجب ہو اس کا بھی درج اور جمع کردیا جائے اورزکوۃ کی یہ درج او رجمع شدہ رقم اپنے ذمہ لازم سمجھی جائے پھر حسب ضرورت وقتا فوقتا اس کے مصارف میں صاحب نصاب بہ نیت زکوۃ خرچ کرتا رہے یہاں تک درج شدہ رقم پوری ہوجائے۔

(2)زکوۃ کی واجب شدہ رقم علیحدہ کرکے پھر اصل نصاب کی طرح تجارت میں لگادی جائے یا یہ خیال کیا جائے کہ رقم اصل نصاب کی طرح تجارت میں صرف ہوگئی اس صورت میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:

(1)کیا زکوۃ کے مال کو اب اس مال کا امین بن کر تجارت میں لگاناجائز ہے؟

(2)اگر جائز ہے تو اصل رقم  کی طرح اس کانفع بھی زکوۃ کے مصارف میں صرف کیا جائے گا؟

زکوۃ کھاتے کی   پہلی صورت جائز ہے دوسری صورت بظاہر جائز ہے لیکن سارا نفع مصارف زکوۃ میں خرچ ضروری ہوگا اور زکوۃ کی رقم سے ایسی  ہی تجارت درست ہوگی جہاں خسارہ کا خطرہ بہت کم ہو بلکہ نہ ہو۔واللہ اعلم بالصواب

٭ مجھے جہاں تک علم ہے تمام اہل حدیث علماء اس امر پر متفق ہیں کہ سونے کانصاب ساڑھے سات تولہ  سونا او ر چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔یہی  مقدار نصاب حافظ غازی پوری نے بھی کتاب الزکوۃ میں لکھی ہے ۔ اور اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ دس درہم وزن میں برابر سات مثقال کے ہوتے ساڑھے چار ماشے کے برابر ہوتا ہے۔اس لحاظ سے دو سودرہم  ساڑھے باون تولے ہوتے ہیں(تولہ 12ماشے کا) اور بیس مثقال سونا برابر ساڑھے سات تولے سونے کے ہوگا۔ علماء اہل حدیث کو فرنگی محلی(1) اور مدیر زندگی کی تحقیق سے اتفاق نہیں ہے او ر غالبا شاہ انور صاحب فرنگی محلی تحقیق سے اتفاق نہیں  ہے واللہ اعلم

(مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری ص:75)

جب یہ بتدریج جمع کردہ رقم اتنی مقدار کو پہنچ جائے کہ اس ساڑہے باون تولہ چاندی خریدا جاسکے تو اس بقدر نصاب مجموعی مقدار میں زکوۃ فرض ہوگی لیکن اس زکوۃ(چالیسواں حصہ اس وقت نکالنا فرض ہوگا جب اس پر بقدر نصاب مجموعی  مقدار پر پورا سال گزر جائے۔اگر سالے گزرنے سے پہلے یہ پوری مجموعی رقم یا اس میں سے کچھ خرچ ہوجائے یا تلف ہوجائے اور بقدر نصاب باقی نہ رہے تو اس کی زکوۃ ساقط ہوجائے تو اس میں بھی اس طرح زکوۃ لازم ہوجائے گی لیکن اس کی ادائے گی اس پر پورا سال گذر جانے کے بعد ہی لازم ہوگی۔علی ہذالقیاس۔عبیداللہ رحمانی مکتوب بنام محمد فاروق اعظمی)

شوہر نے شادی کے موقع پر بیوی کو جو زیورات دیئے اگر ان کے بارے میں  دینے کے وقت یا بعد میں اس کی تصریح نہیں کی  وہ ان کو تملیکا دے رہا ہے یا عاریتہ محض پہننے اور برتنے کے لئے تو ایسی صورت میں برادری کے طرف  کا یا مقامی عرف رواج اور دستور کا لحاظ واعتبار ہوگا۔مجملا اور عرفا ان زیورات کی جوحیثیت ہو اوس کے مطابق حکم وفتو ہوگا۔اگر شوہر کی ملکیت سمجھے جاتے ہوں تو ان کی زکوۃ اوسی کےذمہ ہوگی اور اگر بیوی کی ملکیت سمجھے جاتے ہوں تو زکوۃ کی ذمہ دار بیوی ہوگی ۔واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 35

محدث فتویٰ

تبصرے