السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اخبار ’’ اہل حدیث ،، میں آج کل بےنمازی کانماز جنازہ درپیش ہے،یہ بےنمازی جس کاجنازہ مبحوث عنہ ہے، مومن ہے، اللہ تعالی اس کےکل رسولوں پرعموما، اورآنحضرت ﷺ پرخصوصا ایمان رکھتا ہےاورجملہ کتب سماویہ سابقہ اورقرآن وملائک وجن وقیامت وجہنم وجنت و عذاب قبر وغیرہ تمام باتوں پراجمالا اعتقاد رکھتا ہے،ان فرائض کامنکر نہیں ہے، ہاں نماز کاتارک ہےلیکن اس فرضیت کامنکر نہیں ، اورترک نماز کےوجوہات شتی ہیں : غفلت ، تکاسل ، نماز نہ سیکھنا وغیرہ ۔
اس بے نمازی پرحدیث :’’ منت ترك الصلاة متعمدا فقد كفر،، كى رو سے ’’کفر ،،کاالحاق صحیح ہے، اور اس اس آکدوضروری فرض (جواسلام کارکن ہے) کےترک کرنے سے اسکا ایمان بےشک ناقص اورغیر مکمل ہے، اورغیرمکمل ہے، اور مطابق مسلک عام صحابہ وتابعین وائمہ محدثین ’’ ايمانه كايمان جبريل ،، نہیں کہا جاسکتا ہے۔’’مومن ،،کاالحاق اس پربلاشہ صحیح ہے۔اس لیے وہ علماء جن کےفتاوے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کےلیے شائع ہوا ۔ اس کا ترکہ مطابق حکم شریعت تقسیم کرنے کےلیے موجود ہے،اس لیے مسلمانوں کےمقبرہ میں دفن کرنےکےلیے قبربھی تیار کرانے کاحکم دےچکے ہیں ۔ اس کاغسل وکفن بھی مطابق حکم شریعت کیا گیا ہے۔
اس کی بی بی کےچارماہ دس دن عدت بیٹھنے کاحک بھی دیا جاچکا ہے۔اس کی اولاد کوصحیح النسب کہاگیا ہےنہ کہ اولاد زنا۔ اس کی منکوحہ بی بی سےاس کی زندگی میں بلاطلاق نکاح ناجائز ہےبتایا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہےکہ مفتیان اس بےنماز ی کو جس کا ذکر اوپر ہوا ، مرتد، واجب القتل نہیں کہتے، اوریہ نہیں کہتے کہ اس بےنمازی کا نکاح بوجہ اس کےکفر کےجاتا رہا، اس کی بی بی بلاطلاق دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ اس کی اولاد ، اولاد زنا ہے، صحیح النسب نہیں ہے،ان سے مناکحت ترک ہے،اس کاترکہ مسلمانوں میں نہیں تقسیم کرنا چاہیے۔’’لایورث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ،،اس کومقبرہ میں نہیں دفن کرناچاہیے ، اس کی تجہیز وتکفین مطابق شریعت نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ جیفہ کافر کی طرح کپڑے میں لپیٹ کرکسی گڑھے میں ڈال دینا چاہیے ۔
اہل علم کولازم ہےکہ اس مسئلہ کےہرپہلو پرغورکرکے،اس کےمتعلق جس قدر نصوص مل سکیں ان پرکامل غور کریں اوراس مہتم بالشان مسئلہ پرقوی سےقوی دلیل صریح الدلالت پیش کریں ، محتملات سے، یاقیاس وجوہات ، یاضعاف حدیثوں سےجوتفسیروں میں بلاشبہ نقل کی جاتی ہیں کام چلنا مشکل امر ہے۔
استدلال سےمسئلہ ثابت ہونا اورشئ ہے، اورمصلحت یاتنبیہ کےلیے کوئی کام کرنا شئی دگرہے، دیکھو آنحضرت ﷺ کا وہ صحابی جوقرض چھوڑ کرانتقال فرمایا تھا ، اوربقدر وفائے دین ، مال نہیں چھوڑا تھا، آپ ﷺ نےاس کےلیے فرمایا:’’ صلوا على صاحبكم،،جس کاصریح مطلب یہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھ لو، میں نہیں پڑھوں گا۔اسی طر ح اگر مقتدی لوگ یاعلمائے دین تنبیہات خود نماز نہ پڑھیں اورمعمولی لوگ پرھ لیں، توکیا یہ تنبیہ میں داخل نہیں ؟ ، ہم نصوص پرغور کرتےہیں اور ان کےطرق استدلال کو جانچتےہیں ۔
مولانا عبیدالرحمن صاحب نےپہلی آیت یہ پیش کی ہے:﴿واتقواه وأقمواالصلوة ولا تكونوا من المشركين﴾ (الروم : 31 )، يعنى : ’’اللہ تعالی سےڈرواورنماز قائم کرواورمشرک مت بنو،، ۔
مولانا عبیدالرحمٰن صاحب فرماتےہیں :’’ اس سےمعلوم ہوا کہ تارک صلوۃ مشرک ہے،، مولانا نے’ ’ ولا تکونوا من المشرکین ،، سےواؤ کاترجمہ چھوڑدیا ہے، کوئی وجہ ہوگی ! ہم اس کےآیت کےسیاق وسباق سےقطع نظر کرتےہیں ،تویہی معلوم ہوتاہےکہ اس آیت میں دوحکم توایجابی ہے:’’ واتقوه وأقيموا الصلاة ، ، اورتیسری نہی ہے’’ ولا تکونوا من المشرکین ،، نہ کہ مشرکین کاوجود پہلے دو کےنہیں پائے جانے پرمرتب ہے۔
دوسری آیت :’’ الذین آمنو ا الذین یقیمون الصلاۃ ،، مولانا صاحب فرماتےہیں کہ:ایمان کی علامت اورتعریف یہ بیان ہوئی کہ’’ ایمان والے وہ ہیں جونماز قائم کرتےہیں ،، پوری آیت یہ ہے:﴿ إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقمو ن الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون ﴾ (المائده : 55 ) یعنی :’’ اس کےسوا نہیں کہ تمہاراناصرالللہ ہےاور اس کارسول اوروہ لوگ جوایمان لائے جوکہ نماز قائم کرتےہیں اورزکوۃ دینے والے ہیں اور وہ خشوع کرنےو الے ہیں ،، یہ ویسے ہی ہیں جیسے کہ دوسری جگہ فرمایا گیا :﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾. (الروم : 2 ) .
کیا کوئی کہہ سکتا ہےکہ خدا کےذکر کےوقت جس کا دل نہ دھڑکے،اورآیتوں کوسن کرایمان نہ بڑھے ، جو خدا پر توکل نہ کرے ، اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ، دوسری جگہ فرمایا :﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿1﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿2﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ﴾ (المومنون : 2/2/3) ظاہر ہےکہ ان آیتوں میں ایمان سےایمان کامل اورمومن سےمراد کل مومن مراد ہے۔
مولانا صاحب نےحدیث سےاستدلال پیش کرتےہوئے پہلی حدیث یہ پیش کی ہے:’’وحدانیت اوررسالت کی گواہی دینا، نماز پنجگانہ قائم کرنا ، اور رمضان کےروزے رکھنا استطاعت ہوتوزکوۃ وحج بھی ادا کرنا اسلام ہے،، انتہی .
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث سےاسلام کاذکر ہےاوراسلام اورایمان بسااوقات دونوں ایک معنی میں نہیں بولےجاتے ،بلکہ اسلام کےمعنی ظاہری انقیاد ،اورایمان کامعنی تصدیق قلبی ہوتا ہے: قال اللہ تعالی :﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ﴾ (الحجرات : 14 ).
دوسری حدیث یہ پیش کی ہے:’’ آنحضرت ﷺ نےفرمایا کہ مجھکو حکم ربانی یہ ہےکہ لوگوں سےجہاد وقتال کروں ، جب تک کہ وہ وحدانیت اوررسالت پرگواہی نہ دیں اورنمازقائم کریں ،، الخ اس حدیث میں بھی قتل کاذکرہے۔ اس کانماز جنازہ سے تعلق ہی نہیں ۔ نماز نہ قائم کرنے میں قتل کیا جاسکتا ہے، اس کوسزا دی جاسکتی ہے،لیکن مرنے پرنماز جنازہ نہ پڑھی جائے اس کاثبوت چاہیے ، آگے آپ نےیہ آیت :’’ ولا تصل على أحدمنهم مات أبدا ،، (التوبه : 284 ) پیش کی ہے،جوخاص منافقین کےبارےمیں نازل ہوئی ، حالانکہ بظاہر نماز روزہ وغیرہ کرتےتھے ۔دل میں ایمان نہ تھا ۔یہاں معاملہ برعکس ہے۔
پھر مولانا نےیہ مقدمہ لگا کرکہ نماز جنازہ سفارش ہےاور نافرمانوں کےسفارش منع ہے۔قال تعالی : ﴿ ولا تخاطبنى فى الذين ظلموا إنهم مغرقون ﴾ (هود : 37 ) ، ,,نافرمانوں کےبارےمیں ہم سےبات چیت نہ کرو ، وہ ڈوبائے جائیں گے،، ۔
حجرت واسعاياً مولانا ! آيت کریمہ میں قوم نوح کاذکر ہےجوشقی اورپکے کافرومشرک تھے، یہاں مومن تارک صلوۃ کاذکر ہے فأین من ذلک ؟ پھر مولانانے آیت :﴿ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ﴾ (المنافقون : 6 ) سے استدلال پیش کیا ہے جومنافقین کےبارےی میں بالخصوص نازل ہوئی جوکافر حقیقی اور’’فى الدرك الأسفل من النار ،، (النساء : 145 ) ہیں ، اور یہاں مبحوث عنہ مومن ہےجوتارک صلوۃ ہے۔
اس کےبعد آپ نےمقدمہ جوڑکر کہ اگربےنمازی کا جنازہ پرھاجائے گا، تواورلوگ اوردلیر ہوجائیں گے۔ اس لیے بےنمازی کی نماز جنازہ پڑھنا معاونت علی المعصیۃ ہوجائے گی ، اللہ اس سےمنع فرماتا ہے:﴿ تعاونو ا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان ﴾ (المائده : 2 )۔
یہ استدلال جیسا ضعیف ہے، ظاہرہےمقتدی لوگ تنبیہات دوررہیں گے اورمعمولی لوگ پڑھ دیں گے ، تو اس طرح نہ معاونت علی المعصیۃ ہوگی نہ مومن کاجنازہ ہوگا ،اوربسا اوقات اس کی نماز جنازہ بالخصوص معاونت علی البر ہوگی ۔جبکہ نماز جنازہ پڑھنے سے اس کےاعزہ واقربا اس کاخیال رکھیں گے اوراحسان مانیں گے ،اس کی پابندی ان میں آئےگی اوران کی ضد نہ بڑھے گی، علاوہ بریں اگرکسی کنہگار کابھلا ہماری نماز سےہوجائے توخیر ہم کیوں روکیں یہ تو دنیا سےجاچکا ، اس کی تنبیہ رہی دوسروں کےلیے ، اس کے ساتھ ہم خیرنہ کریں جبکہ اس کا آخری معاملہ ہے۔ کبھی اسلام ہم کوایسی ہدایت نہیں کرتا ،نہ اسلام کا یہ منشا ہے۔
صاحب منتقی نے اس بحث میں بالخصوص چند حدیثیں لکھی ہیں ، جن کوہم بحث کےاستعمال کےلیے یہاں لکھ دیتےہیں :
(1) عن جَابِرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ . رواه الجماعة الا البخارى ،،یعنی :’’ آدمی اورکفرمیں فرق ، نماز ترک کرنےکاہے،،۔
(2) ’’ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ، رواه الخمسة،، یعنی :’’ہمارے اورتمہارے درمیان عہد نماز ہے، جونماز ترک کرےگا، کافر ہوگا،،۔
(3)’’ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ العُقَيْلِيِّ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاة، رواه الترمذى ،،
يعنى :’’ اصحاب رسول اللہ ﷺ بجز نماز اور کسی عمل کےترک کرنے کوکفر نہیں جانتےتھے،،.
ان حدیثوں کی تاویل میں صاحب منتفی نےاس طرح لکھا ہے:’’ وحملواأحاديث التكفيرعلى كفرا النعمة ، أو على معنى : قد قارب الكفر، وقد أحاديث فى غيرالصلاة أريدبهاذلك ،،یعنی : لوگوں نے احادیث تکفیر کومحمول کیاہے، اس معنی پرکہ یہاں کفرسےمراد کفران نعمت ہے، یاکفر سے مراد یہ ہےکہ قریب کفرہوگیا نہ کفر حقیقی ،اوریہاں تاویل متعین ہے۔ کیوں کہ علاوہ ترک نماز کےاورباقی میں بھی کفر اطلاق کیاگیا ہے اورتاویل متعین ہے،، چنانچہ متفق علیہ حدیث میں وارد ہوا :’’ سباب المومن فسوق وقتاله كفر،، مومن کوگالی دینا فسق ہےاوران سےلڑنا کفر،، حالانکہ کہ قرآن میں وارد ہوا :﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ﴾ (الحجرات :9) ، يعنى:’’اگرایمان والوں کی دوجماعتیں باہم لڑپڑھیں ، توان میں انصاف کےساتھ صلح کرادؤ ،،۔ اس آیت می باوجود قتال کے(جس سےکفر کااطلاق باعتبار حدیث صحیح ہوگیا تھا ) اللہ نےدونوں جماعتوں لڑنےوالیوں کو’’ مومن ،، کہا۔لہذا جملہ قتال کفرکی تاویل خود قرآن نےمتعین کردی ۔
ایک دوسر ی حدیث میں حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت ہے:’’قال قال رسو ل الله صلى الله عليه وسلم: ليس من رجل ادعى لغير أبيه ، وهو يعلمه إلا كفر،،یعنی : جوشخص اپنےباپ کوچھوڑ کر دوسری طرف اپنی نسب کی نسبت کرے گاوہ کافرہوگا ،،۔
تیسری حدیث میں وارد ہوا: ’’عن ابى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :اثنتان فى الناس، وهما بهم كفر،الطعن فى النسب ، والنياحة على الميت ،، یعنی :’’ دوشئی ایسی ہیں جولوگوں میں موجود ہیں، حالانکہ وہ کفر ہیں ایک: لوگوں کےنسب میں طعن وتشنیع کرنی ۔دوسری :میت پرنوحہ کرنا ہے،،۔
کیا کوئی نماز ی مسلمان ،زکوۃ دینے والا ،حج کرنے والا ،سارے احکام بجالانےوالا ،اگر اپنےباپ کوچھوڑ کردوسرے کی طرف اپنےنسب کی نسبت کرے، یاکسی کےنسب میں طعن کرے، یا میت پرنوحہ کرےتواس کوکافر مرتد کہا جائےگا، اوراس پرجنازہ نماز نہ پڑھی جائے گی ؟ ۔
ایک تیسری حدیث منع صلوۃ کی اورتائید کرتی ہے:’’ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: ذَكَرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَقَالَ: " مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا؟ كَانَتْ لَهُ نُورًا، وَبُرْهَانًا، وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ، وَلَا بُرْهَانٌ، وَلَا نَجَاةٌ ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ، وَفِرْعَوْنَ، وَهَامَانَ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ ،، . رواه احمد .
یعنی :’’ عبداللہ بن عمرو بن العاص سےروایت ہےکہ ایک دن رسول للہ ﷺ نےنماز کاذکر فرمایا ، تو فرمایا کہ: جوشخض نماز پرمحافظت کرےگا اس کےلیے نماز قیامت کےدن نور ، دلیل اورنجات کاباعث ہوگی ، اورجوشخص اس پرمخافظت نہ کرےگا،تونہ اس کےلیے نور ہوگا ، نہ دلیل ، نہ نجات ، اورقیامت کےدن قارون فرعون وہامان وابی ابن خلف کےساتھ ہوگا ،، ۔
اس حدیث کی بھی جس میں تارک الصلوۃ کی فرعون وہامان وابی بن خلف کی معیت کا ذکر ہے،تاویل کر نی ہوگی اس سبب سےکہ اس کےمعارض روایتیں موجود ہیں ،کما یأتی .
اب فریق ثانی کےدعوی اوردلائل کوبغور ملاحظہ فرمائیں :
فریق ثانی کادعویٰ یہ ہےکہ جوشخص مومن ہے، اسلام اورمسلمانوں سےمحبت رکھتا ہے، عقائد اسلامیہ کامقرہے، اپنے آپ کوکافریا غیرمسلمان نہیں کہتا ، ایسا سمجھتا ہےجیساکہ آگ میں ڈالا جانا، مسلمانوں کی مدد کےلیے تیار،اسلام کی ہربات سےخوش،اسلام اورمسجد ونماز کادل سےاحترام ، حج وشوق ،رسولوں اوربزرگان دین کا معتقد ، اللہ تعالیٰ کی توحید کاقائل لیکن نماز کاپابند نہیں ۔کبھی کبھی جمعہ وبقرعید پڑھ لیتاہے ، ترک نماز کی وجہ ، معاندت نہیں ، استہانت ، نہ استخفاف بلکہ غفلت یاتکاسل یابعض مسلمانوں کاخیال کہ نماز بڑی چیز ہے، بڑے لوگوں ، مولویوں کاکام ہے،ہم چھوٹے ناپاک ہیں ، ہم کس طرح پڑھیں ! یانماز سیکھاہی نہیں اوربوڑھے ہوگئے،اب خیال یہ جماکہ قرآن کی سورتیں اوردعا اورالتحیات یاد نہیں ، نماز کیوں کر پڑھیں ، یااس ارادہ میں رہا کہ آج شروع کرتا ہوں ،کل شروع کرتا ہو ں ، آچ کپڑےصاف نہیں ، نہایا نہیں وغیرہ وغیرہ ،اور نہ ان کوکوئی تعلیم دینےوالا ملاکہ ہربات کی تعلیم دے،ان کے خیالات کودور کرے، پس ایسا شخص اگرمجائے توتنبیہ کےلیے مقتدی اورعلماء لوگ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں ، بلکہ ایسے موقع پراقتداء للسنۃ النبویہ غصہ اوررنج ظاہرکریں۔ لیکن معمولی لوگ پڑھیں توخود چشم پوشی اورتامح کریں ، اگرکوئی پڑھنے والا نہ ملے توبعد رنج وغصہ ظاہر کرنے کےپڑھ لیں ۔ لیکن جیفہ کافر کی طرح بےنماز جنازہ نہ گاڑدیں ۔ دلائل پرغور کرو :
(1) عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ،، .
یعنی : عبادۃ بن الصامت سےروایت ہےکہ آنحضرتﷺ نےفرمایا :کہ پانچ نمازیں فرض ہیں بندوں پر، جوشخض ان کواد ا کرےگا اورکسی کوضائع نہ کرےگا خفیف سمجھ کر، تواس کےلیے اللہ کاعہد ہےکہ اس کوجنت میں داخل کرے، اورجوشخص اس کونہ ادا کرے گا، تواللہ کی طرف سےاس کےلیے جنت میں داخل کرنے کاعہد نہیں ہے،اگر چاہیے تو اس پرعذاب کرےاور چاہے مغفرت کردے،،۔
(2) ’’ عن ابى بكر قلت: يارسول الله مانجاة هذاالأمر ؟، فقال رسو ل الله صلى الله عليه وسلم : من قبل منى الكلمة اللتى عرضت على عمى فردها ، فهى له نجاة،،.
یعنی : ’’ حضرت ابوبکر سےروایت ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےپوچھا کہ اس عذاب الہی سےنجات کیوں کرملے گی ؟ اس پرآپ ﷺ نےفرمایا:کہ وہ کلمہ جس کومیں نے اپنےچچا ابوطالب پرپیش کیا تھا جس کوانہوں نے رد کرکیا۔ جوشخص اس کوقبول کرے گا اس کےلیے نجات کاباعث ہوگا ،،۔
(3) ’’ عن عبادة بن الصامت قال: سمعت رسو ل الله صلى الله عليه وسلم يقول: من شهد ان لا إله الا الله وان محمد ا رسول الله حرمه الله على النار ،، رواه مسلم ،
یعنی : ’’ جوشخص گواہی دےگا اس بات کی کہ کوئی معبود نہیں سوااللہ کے، تحقیق کہ محمدﷺ اس کےرسول ہیں ، تواللہ اس کوآگ پرحرام کردے گا،، ۔
(4) ’’ عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ،، .
یعنی :’’ جوشخص یہ یقین کرکےمرےگاکہ سوائے اللہ کےکوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوگا ،، ۔
(5) حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ، وَابْنُ أَمَتِهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ الجنة على ماكان من العمل ،، ( متفق عليه).
(6) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ» قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ» قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ» قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهَا فَيَسْتَبْشِرُوا، قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا»، فَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذُ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا (متفق عليه ) .
(7) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا،، (مسلم ) .
(8)وعنه أيضا ’’ ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: أسعدالناس بشفاعتى من قال: لااله الا الله خالصا من قلبه ،، .
حديث اس لونڈی کی کہ جس سےآپ ﷺ نےسوال کیا ’’ این اللہ ؟،، خداکہاں ہے؟ ،، فأشارت إلى السماء ، ، ’’ اس نےآسمان کی طرف اشارہ کیا۔ پھر سوال کیا :’’من انا؟،، میں کون ہوں ؟ ، اس نےکہا :’’ انت رسول اللہ ،، آپ خدا کےرسول ہیں،،۔یہ سن کر آپ ﷺ نےفرمایا :’’ اعتقها فإنها مؤمنة ، ، اسےآزاد کردو یہ مومنہ ہے،، ۔
اس حدیث سےمعلوم ہواکہ مومن ہونے کےلیے اللہ تعالی اور رسالت کااقرار کافی ہے، اتنے ہی سےاس پراسلامی احکام جاری کئے جائیں گے، یہ نہیں کہ اسلامی احکام جاری کرنے کےلیے نماز کاسوال بھی کیا جائے،اگر کوئی کہے کہ آنحضرتﷺکواس کےنماز پڑھنے کاعلم تھا اس واسطے سوال نہیں کیا ۔لیکن واضح رہے کہ اگر آپ کواس کےنماز پڑھنے کاعلم تھا ، تو أین اللہ ومن انا کاسوال ہےمعنی تھا گو اس عاجز عبدالسلام کواس معاملے میں کوئی کلام کرنے کا نہ تھا لیکن مان نہ مان میں تیرا مہمان ۔یہ چند کلمے عرض کردئیے گئے ہیں اہل علم اس طرف توجہ فرمائیں اورسطحی نظرسےکام نہ لیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب