سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(285) میت مرد یا عورت کے لیے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہیں؟

  • 17307
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1139

سوال

(285) میت مرد یا عورت کے لیے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت مرد ہویاعورت کےکفن کےلیے کتنے کپڑے چاہئیں ؟ قبرستان میں گھاس وغیرہ پیدا ہونے کی وجہ سے لوگوں کوتکلیف ہوتی ہے، اورقبر کی بھی بےحرمتی ہوتی ہےکیونکہ گائب بیل  چرتے ہیں کیا ایسی صورت میں آگ لگا کرصاف کیا جاسکتاہے؟سیلاب کی وجہ سے یاکسی مجبوری کی بناء پر قبرستان کےبجائے مکان کی ایک خشک جگہ میں میت کودفن کیاگیا، کیا اب قبرکی مٹی وہڈی وغیرہ کوقبرستان میں منتقل کرسکتےہیں ۔ کیونکہ قبرکی بےحرمتی ہوتی ہےاور لوگوں کو تکلیف بھی ہورہی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کےکفن کےلیے پانچ  کپڑے مسنون ہیں ، تہبند ، کرتا ، خمار جس کودامنی کہتےہیں یعنی : سربند، دولفافے : یعنی : دوچادریں ۔ ابوداؤد میں لیلٰی سےروایت ہے:’’ «كُنْتُ فِيمَنْ غَسَّلَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ وَفَاتِهَا، فَكَانَ أَوَّلُ مَا أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحِقَاءَ، ثُمَّ الدِّرْعَ، ثُمَّ الْخِمَارَ، ثُمَّ الْمِلْحَفَةَ، ثُمَّ أُدْرِجَتْ بَعْدُ فِي الثَّوْبِ الْآخَرِ»، قَالَتْ: «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عِنْدَ الْبَابِ مَعَهُ كَفَنُهَا يُنَاوِلُنَاهَا ثَوْبًا ثَوْبًا،، حديث میں اس کی تصریح آئی ہےکہ آپ نےام کلثوم کےکفن میں اپنا تہبند دیا ہے،جس سےمعلوم ہوتاہےکہ کفن میں عورت کےتہبند کالمبان چوڑان بقدر تہبند شرعی کےہونا چاہیے اورکرتہ مونڈھے سےقدم تک ہوناچاہیے کہ زندہ عورت کواتنا لمبا  کرتہ پہنا مشروع ہےاورخمار یعنی :سربند کاطول وعرض اس قدرہونا چاہیے کہ عورت کا سرمع اس کےبالوں کےاس چھپ جائے ۔عورت کوپہلےتہبند میں لپیٹیں اورتہبند کوزندہ کی طرح کمر سےنہ باندھیں  بلکہ  بغل سےلےکر سینہ اورکمر اورران وغیرہ بدن کےجس قدر حصہ پرلپیٹ سکیں لپیٹیں پھر کرتا پہنائیں پھرخمار یعنی : سربند اس کےسراوربالوں کوچھپائیں ۔پھر دونوں لفافوں میں لپیٹیں پھرسر اورپیر کفن کوگرہ دےدیں ۔

قبرستان کی خشک گھاس اس طرح کاٹ لی جائے درست ہےکہ قبرستان پاؤں سےروندنےمیں نہ آئیں اوران کی بےحرمتی  نہ ہو۔ آگ لگاکر جلانا اورصاف کرنا مناسب نہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر و انصاری ﷜ جواحد کی  لڑائی میں شہید ہوئےتھے،ایک دوسرے  شہید حضرت  عمروبن الجموع ﷜ کےساتھ قبرمیں دفن کردیئےگئے تھے،پھر برساتی پانی کےبہاؤ نےقبرکوکھود ڈالا ۔حضرت عبداللہ کےصاحبزادہ حضرت جابر نے اپنے با پ کوچھ مہینہ کےبعد  عہدرسالت میں قبرسےنکالا توان کی نعش علی حالہ درست تھی ، صرف کان کےذرےسےکنارے میں تغیر ہوگیا تھا ، پھر دونوں کودوسری جگہ دفن کردیا گیا(بخاری 2؍ 95 ، موطا مالک ص : 313) واقعہ سےمعلوم ہوجائے  کی صورت میں قبر کھودتےوقت ہڈیوں کےٹوٹنے کااندیشہ ہےجس میں میت کی بےحرمتی ہوگی ۔ اوراشاد نبوی ہے:’’ کسرعظیم المسلم میتاً ، ککسرہ وھو حی ،، (ابوداؤد ، موطا ) پس بغیر سخت مجبوری کی نبش  نہیں کرنا چاہیے ، اور بوقت ضرورت بڑی احتیاط سےیہ کام ہونا چاہیے . ’’ وَسُئِلَ أَحْمَدُ عَنْ الْمَيِّتِ يُخْرَجُ مِنْ قَبْرِهِ إلَى غَيْرِهِ فَقَالَ: إذَا كَانَ شَيْءٌ يُؤْذِيهِ، قَدْ حُوِّلَ طَلْحَةُ وَحُوِّلَتْ عَائِشَةُ وَسُئِلَ عَنْ قَوْمٍ دُفِنُوا فِي بَسَاتِينَ وَمَوَاضِعَ رَدِيئَةٍ.

فَقَالَ: قَدْ نَبَشَ مُعَاذٌ امْرَأَتَهُ، وَقَدْ كَانَتْ كُفِّنَتْ فِي خَلَقَيْنِ فَكَفَنَهَا وَلَمْ يَرَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بَأْسًا أَنْ يُحَوَّلُوا ،، (المغنى 3/ 444 ، الشرح الكبير 3/ 393 ) .

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1۔کتاب الجنائز

صفحہ نمبر 449

محدث فتویٰ

تبصرے