سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(277) میت اور اس کے کفن کو لوبان وغیرہ کی دھونی دی جا سکتی ہےکہ نہیں ؟

  • 17299
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1922

سوال

(277) میت اور اس کے کفن کو لوبان وغیرہ کی دھونی دی جا سکتی ہےکہ نہیں ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت اور اس کےکفن کولوبان وغیرہ کی دھونی دی جاسکتی ہےکہ نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کےکفن کی دھونی دینے کےبارے میں کسی کااختلاف نہیں ہے، یہ بالاتفاق جائز ہے، بیہفی ( 3؍ 405 ) میں حضرت جابر سےمرفوعاً مروی ہے: ’’اجمروا كفن الميت ثلاثا ،، اورحضرت اسماء بنت ابی بکر سےمروی ہےکہ انہوں نےاپنے گھروالوں سےکہا:’’ أجمروا ثيابى إذا مت ، ثم حنطونى ، ولا تذروا على كفنى حنوطا ،، اورابن قدامه مغنى 3؍ 4382 ) میں لکھتےہیں : ’’ وأوصى [أبوسعيد وابن عمر وابن عباس أن تجمرأكفانهم بالعود ،، .

مردے کوحنوط یامشک  یاکوئی بھی عطر لگانا مسنون ہے، اس بارے میں کسی کااختلاف نہیں ہے، لیکن خود مردہ کواگر یالوبان وغیرہ کی دھونی دینے کےبار ےمیں (جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے) کہ  : جس چار پائی پرمردہ کوغسل دیا جائے یاجس پراسےکفنا نے کےلیے رکھاجائے ، اس چارپائی کوچاروں طرف سےاوراس کےنیچے دھونی دی جائے،یا خود میت کےچاروں طرف دھونی والی چیز(لوبان یااگر وغیرہ ) گھما اورپھرادی جائے اس میں علماء کااختلاف معلوم ہوتاہے،حنابلہ خود میت کوبھی دھونی دینے کےقائل معلوم ہوتےہیں ۔

ابن قدامہ لکھتے ہیں ( 3؍ 382  ) : ’’ أَبُو هُرَيْرَةَ: يُجَمَّرُ الْمَيِّتُ. وَلِأَنَّ هَذَا عَادَةُ الْحَيِّ عِنْدَ غُسْلِهِ، وَتَجْمِيرِ ثِيَابِهِ، أَنْ يُجَمِّرَ بِالطِّيبِ وَالْعُودِ، فَكَذَلِكَ الْمَيِّتُ،، انتهى۔ اوریہ لوگ اپنی دلیل میں ایک مرفوع حدیث پیش کرتےہیں جومسند احمد 3؍ 330 ۔ 331 اورسنن کبری بیہقی 3؍ 405 میں مرفوعاً بایں الفاظ مروی ہے: ’’ إذا أجمرتم الميت فأجمروه ثلاثا،،ليكن امام بیہقی  نےاس روایت کےبعد یحیی ین معین سےان کایہ کلام نقل کیا ہے:’’ لم يرفعه إلا يحىى بن آدم ، ولا أظن هذا الحديث إلا غلطا،، یعنی : اس حدیث کامرفوع مروی ہونا غلط ہے، صحیح یہ ہےکہ یہ روایت حضرت جابر سےموقوفامروی ہے،یہ لوگ یہ بھی کہتےہیں کہ  جس روایت میں ’’ اجمروا المیت ،، کا لفظ ہےاس سےمراد’’ اجمروا کفن المیت ،،، ہےجیسا کہ بعض روایات میں آگیا ہے، والروايات يفسربعضهما بعضا ۔  لیکن علامہ ماردینی نےالجوہر النقی میں ابن معین کےمذکورہ کلام پریہ تنقید کردی ہے: ’’كان ابن معين بناه على قاعدة اكثر المحدثين انه إذا روى الحديث مرفوعا وموقوفا فالحكم بالوقف والصحيح الحكم بالرفع لانه زيادة ثقة ولا شك في توثيق يحيى بن آدم كذا ذكر النووي والحاكم صحح هذا الحديث  ،،انتهى.

ہمارے نزدیک اگرمیت کوبھی دھونی دےدی جائے جس کاطریقہ اوپربیان کیاگیا ہےتواس میں کوئی مضائقہ نہیں  ۔ (محدث بنارس شیخ الحدیث نمبر1997ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1۔کتاب الجنائز

صفحہ نمبر 431

محدث فتویٰ

تبصرے