السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابوالقاسم از مٹانچری کوچین
8؍دسمبر1941مطابق 18 ذی قعدہ
بخدمت شریف عزیزم مولوی عبیداللہ صاحب ؍ أنبتكم الله نباتاحسنا.
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته :
چندکتابوں کی یہاں ضرورت ہےجس کی وجہ سے یہ خط لکھ رہاہوں کتابوں کواچھی طرح اور صحیح دیکھ کر، ہمارے نام وی پی کرکےبھیج دیجیے گا۔کتابوں کی فہرست الگ کاغذ پراسی خط کےہمراہ بھیج رہا ہوں ۔ اس جگہ خط کےاندر اپنےشکوک درج کرکےاپنی تشقی چاہتا ہوں ۔ چونکہ یہاں کتابیں بہت مختصر اوروہ بھی صرف مختصراوروہ بھی مختصرات ہیں ، اور جدید مطبوعات فن جدیث توبالکل ہی نہیں ہیں ۔اس لیے بحث ونظر کےلیے گنجائش کم بلکہ کالعدم ہے۔
شکوک یاسوالات ذیل ہیں :
(1) سینہ پرہاتھ نماز میں رکھنے کی کوئی حدیث صحیح مع سند صحیح ہو،تومع اسناد نقل فرماکرممنون فرمائیں ؟
(2) قنوت فی الوتر قبل الرکوع کوصحیح روایت بہ سند نسائی ( کتاب قیام اللیل وتطوع النہار باب کیف الوتر بثلاث 3؍235 ) ابن ماجہ ( کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فہیا (1182) 1؍374 )میں ابی بن کعب کی موجود ہے، ابوداؤد ( کتاب الصلاۃ باب القنوت فی الوتر 2؍135 )نےبھی اس کا تذکرہ کیا ہے،پھر صحاح ستہ کی تین کتابوں میں بہ سندصحیح ہوتےہوئے، غیر صحاح سےامام
حسن کی روایت قنوت بعدالرکوع کوترجیح دینا کس محدثانہ اصول کےماتحت ہے؟
ہمارا اصول ہےکہ صحاح ستہ کی روایت غیرصحاح پرمقدم ہے۔ خصوصاشیخین کی ۔مگر حنفیہ میں ابن ہمام اس اصول کےمخالف ہیں جن پرہمیشہ برستے رہتےہیں ۔پھر یہی گناہ ہم خود کیوں کرتےہیں ؟
اگر یہ کہا جائے کہ امام ابودؤاد نےاس حدیث میں اس حصہ کووہم قراردیا ہےتوکیا آپ کےنزدیک بھی طعن درست ہے؟ اوریہ ہی طعن کیام امام حسن کی روایت پرواردہوسکتا؟ اورکیا جن وجود کی بناء پرابوداؤد نےاس قنوت کی زیادت کی ضعیف قراردیاہے یہ وجوہ آپ کی تحقیق میں بھی کافی ہیں ۔ خصوصا امام موصوف کایہ روایت لانا کہ ابی بن کعب 15 رمضان کےبعد قنوت کرتے تھے ،کیا یہ روایت اوراس کےرواۃ امام حسن کی حدیث کےروایت ورواۃ کےبرابر ہیں ؟ اورکیا اس حدیث سےابی بن کعب کی پہلی روایت باطل یاضعیف ہوجاتی ہے؟ اورکیا 15 رمضان والی روایت کےرواۃ ’’ كان يقنت قبل الركوع ،، كى روایت کےساتھ سے اعلی ہیں یاکم درجہ کے ہیں؟
(3) عراقی کےقو ل پر قنوت بعدالرکوع کوترجیح دینا کہاں کی محدثیت اورفقاہت ہے؟ کیاخلفائے اربعہ سےقنوت فی الوتربعدالرکوع کسی صحیح حدیث میں
آیا ہے؟ کیاحدیث قنوت فی الفجر کی روایت سےقنوت فی الوتر کوبعدالرکوع مرجح بتلاناایسی حالت میں کہ سنن کی تین کتابوں میں قنوت قبل الرکوع بہ تصریح موجود ہے۔اوراس کی سند بھی صحیح ہےبعد اس کی تائید دواورحدیثوں سے بھی ہوتی ہےپھربھی قنوت فی الفجر بعدالرکوع پرقیاس کرکے قنوت فی الوتر کوبعد الرکوع مرجح بتلانا محدثانہ اصول کےماتحت ہے؟
(4) کیا اما م حسن کی روایت میں ایساکوئی لفظ ہےجس سےیہ مفہوم یامعلوم ہوتا
ہے امام حسن کوخود آنحضرت ﷺ نےیہ تعلیم دی تھی کہ تم یہ دعاقنوت میں بعدالرکوع پڑھا کرنا ؟ آپ نے رسالہ ’’محدث ،، میں ابن حبان وغیرہ کی جرح کولایعبا بہ قرار دیا ہےجس سے معلوم ہوتا ہےاس حدیث زبان رسالت سےیہ بتلایا گیا ہےکہ تم اس دعا کوقنوت میں بعدالرکوع پڑھنا ۔ اگراس حدیث میں کوئی اشارہ ہےتوبراہ کرم مطلع فرمادیں ورنہ ابن حبان وغیرہ کی جرح کوتسلیم کریں یاآپ تردید کرکےدکھادیں یاکم ا زکم یہ یہی ثابت کردیں کہ امام حسن کامحض فعل بھیاابن ماجہ ، نسائی وغیرہ کی مرفوع روایت کارافع ہوسکتا ہے۔
آپ نےکن وجوہ پرقنوت بعدالرکوع کوقبل الرکوع پرجیح دی ہے ؟ کیاشیخ مرحوم کی تقلید میں یا خود آپ کی بھی تحقیق اوراب بھی یہ تحقیق ہے؟ براہ کرم مطلع فرمادیں ۔
(5) سالہ گذشتہ کےرسالہ محدث میں یہ بتلایا گیا ہےکہ عیدین کی نماز میں بارہ تکبیرکےعلاوہ تحریمہ کی تیرہویں تکبیر بھی ہےیعنی بارہ کےبجائے عیدین کےتکبیریں تیرہ ہیں ، کیا یہ مسئلہ صحاح ستہ کی ان کتابو ں کےخلاف نہیں
جو’’ سنن ،، میں ہے’’كان يكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنى عشرة تكبيرة ...،، اگر خلاف ہے، تویہ کس روایت میں آپ نےدیکھا ہےکہ آنحضرت ﷺ تکبیرتحریمہ کےعلاوہ اولی میں سات اوردوسری میں پانچ کہتے تھے ،اگر دارقطنی کی ضعیف ومضطرب المتن والا اسناد سےآپ کا یہ استدلال ہے،توکیایہ محدثانہ روش واصول کےخلاف نہیں ہے؟ خصوصاایسی صورت میں کہ امام احمد، امام مالک دونوں اول وآخرمحدث وامام بہ تصریح مع تکبیر تحریمہ کل سات تکبیریں رکعت اولی میں بتلائی ہیں۔ اب آپ نےکس تحقیق کی بنا پریہ فتوی یایہ مسئلہ تحریر کیا ہےیااپنی نگرانی میں شائع ہونے کی اجازت دی ہے؟ براہ کرم مطلع فرمائیں ۔
(6) کیا جن زیادات غیر معتبرات کےامام شافعی قائل ہیں ، آپ بھی تکبیرات عیدین کےسوااور مسائل میں بھی امام شافعی کی ہمنوائی کرسکتے ہیں ؟
(7) قنوت فی العصر کےبارے میں حضرت علی سےجوروایت آئی ہےکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام كان يقول فى آخروتره الله انى اعوزبرضاك من سخطك الخ – اس کےمتعلق شراح حدیث لکھتےہیں کہ مستدرک حاکم میں قنوت کالفظ وارد ہے۔ براہ کرم مستدرک حاکم کی یہ روایت جس میں اس دعا کی بوقت قنوت پڑھنا مذکورہے، پوری حدیث مع مالہ وماعلیہ ارقام فرماکر ممنون فرمائیں ۔یہاں مستدرک حاکم نہیں ہے، امید کہ جملہ شکوک مسائل محدثانہ حیثیت میں مفقح فرماکرممنون فرمائیں گےوالسلام ۔
مولانا بشیر صاحب وغیرہم تما م احباب کوسلام عرض ہےفقط۔ ابوالقاسم قدسی عفی عنہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابی بن کعب کی یہ حدیث جس میں قنوت قبل الرکوع کی تصریح ہےاگرچہ اس میں قنوت کی زیادت کوامام احمدبن خزیمہ ابن المنذر ، بیہقی ، تلخیص الحبیر (2؍18 رقم الحدیث : 832 ) ان کے تقلید میں ............ مولوی عبداللہ صاحب روپڑی نےضعیف بتایا ہے، لیکن میرے نزدیک یہ حدیث حافظ عراقی کوتصریح کےمطابق صحیح ہے۔ قال العراقى : ’’ كلاهما روى حديث ابى بن كعب وعبدالرحمن بن أبزى عندالنسائي بإسناد صحيح ،، انتهى- امام احمد ، ابن خزیمہ ، ابن المنذر کےاس حدیث کی ضعیف کہنے کی وجہ معلوم نہیں ۔ امام ابوداؤد نےتضعیف زیادۃ مذکورہ کی جووجہ بیان فرمائی ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔
ان کےبیان کردہ سبب سےاس حدیث میں قنوت کی زیادۃ کاوہم اورخطا ہوناثابت نہیں ہوتا ۔انہی وجوہ کوبعینہ امام بیہقی نے اپنی سنن میں ذکردیاہے۔جس کاجواب ابن الترکمانی نےالجوہر النقی 3؍39 میں دیدیا ہے۔ جومیرے نزدیک بہت درست ہے۔اس جواب سےمولوی عبداللہ روپڑی کی تنقید بھی ہباء منثوراہوجاتی ہے۔ابوداؤد کےپیش کردہ دونوں اثرضعیف ہیں ۔ پہلے میں ایک مجہول راوی ہےاوردوسرا اثرمنقطع ہے، اور قیام اللیل ص 133 میں حضرت ابی بن کعب کااثر بابت قنوت بعدالرکوع سندامروی نہیں ہے۔اس لیے اس حدیث مرفوع کامعارض نہیں ہوسکتا ۔اوراگر بسند صحیح مروی بھی ہوتب بھی دلیل ضعیف ووہم نہیں بن سکتا لابن الحجة رواية الراوى ومروية ، لارأيه وعمله .
جس طرح سنن کی اس صحیح حدیث سےقنوت الرکوع فی الوتر کاثبوت ہے،اسی طرح صحیح بخاری کی اس حدیث سےثہ ثابت ہوتاہےکہ قنوت معتادقبل الرکوع ہے۔روى البخارى ومسلم من حديث عاصم الاحول قال: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنِ القُنُوتِ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ القُنُوتُ قُلْتُ: قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَهُ؟ قَالَ: قَبْلَهُ، قَالَ: فَإِنَّ فُلاَنًا أَخْبَرَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ: «كَذَبَ إِنَّمَا قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّكُوعِ شَهْرًا، أُرَاهُ كَانَ بَعَثَ قَوْمًا يُقَالُ لَهُمْ القُرَّاءُ، زُهَاءَ سَبْعِينَ رَجُلًا، إِلَى قَوْمٍ مِنَ المُشْرِكِينَ دُونَ أُولَئِكَ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَقَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَيْهِمْ»، ، هذا اللفظ البخارى.قال الحافظ:’’وَقَدْ وَافَقَ عَاصِمًا عَلَى رِوَايَتِهِ هَذِهِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْمَغَازِي بِلَفْظِ سَأَلَ رَجُلٌ أَنَسًا عَنِ الْقُنُوتِ بَعْدَ الرُّكُوعِ أَوْ عِنْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ قَالَ لَا بَلْ عِنْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَمَجْمُوعُ مَا جَاءَ عَنْ أَنَسٍ مِنْ ذَلِكَ أَنَّ الْقُنُوتَ لِلْحَاجَةِ بَعْدَ الرُّكُوعِ لَا خِلَافَ عَنْهُ فِي ذَلِكَ وَأَمَّا لِغَيْرِ الْحَاجَةِ فَالصَّحِيحُ عَنْهُ أَنَّهُ قَبْلَ الرُّكُوعِ ،، انتهى ( فتح 2/491 ) .
قنوت بعدالركوع فى الوتر کےبعد ثبوت میں حدیث ذیل ذکر کی جاتی ہے: اخرجه الحاكم فى المستدرك 3/172) : عن اسمعيل بن ابراهيم بن عقبة عن عمه موسى بن عن هشام نن عروة عن أبيه عن عائشة عن الحسن بن على ، ’’ قا ل : علمنى رسول الله صلى الله عليه سلم فى وترى ، إذا رفعت رأسى ولم يبق إلا السجود اللهم اهدنى فيمن هديت الى آخره ، قال : هذ ا حديث صحيح على شرط الصحيحين ، إلا أن اإسمعيل بن عقبة خالفه محمدبن جعفر بن أبى كثير فى إسناد ه ، ثم أخرجه الحوراء عن الحسن بن على بمتن السنن وسنده وسكت عنه،، (زيلعى 1/ 290 ) وأخرجه البيهقى ( 3/38 ) قال : ’’ أخبرنا محمد بن عبدالله الحافظ ثنا ابوجعفر بن صالح بن هانى وابومنصورمحمدبن القاسم العتكى قالا ثنا الفضل بن محمد بن المسيب الشعرانى ثنا ابوبكر عبدالرحمن بن عبدالملك بن شيبة الحزامى ثنا ابن ابى فديك عن اسمعيل بن ابراهيم بن عقبة عن موسى به سند الحاكم ومتنه ، قال البيقى : تفرد بهذا اللفظ ابوبكر بن شيبة الخرامى ،، انتهى .
قال الشوكاني : ’’ وقدروى عنه البخارى فى صحيحه ، وذكره ابن حبان فى الثقات فلا يضرتفرده ،،انتهى ( نيل الاوطار 3/ 54 ) .
ایک دوسری حدیث بھی ذکر کی جاتی ہے ’’ عن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقنت بعدالركعة وابوبكر وعمر، حتى كا ن عثمان قنت قبل لركعة ليدرك الناس،،(قيام الليل ص: 133 ) لیکن ظاہر یہ ہےکہ اس حدیث میں قنوت وتر کاتذکرہ نہیں ہے، بلکہ قنوت فرائض فی النازلہ کابیان ہے۔ پس اس کواستدلال میں پیش کرنادرست نہیں ۔
اصول حدیث کی روسے سنن اورصحیحین کی روایت کومستدرک اوربیہقی کی روایت بترجیح ہونی چاہیے ۔ خصوصا ایسی صورت میں جبکہ حدیث ابی بن کعب کی تائید حدیث ابن عمر عندالطبرانی فی الاوسط اورحدیث ابن عباس عندابی نعیم وحدیث ابن مسعود عندابی شیبۃ والبیہقی سےہوتی ہے۔ شوافع (بیہقی ، عراقی قسطلانی وغیرہ ) کےپاس اس اصول کی مخالفت کےالزام کاکوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صبح کی نماز میں قنوت بعدالرکوع دائما ثابت اورمحقق ہے، اسی قنوت وتر کوبھی قیام کرتےہیں ۔قال البیہقی ( 3؍39 ) :
’’ وقد روينا فى قنوت صلاة الصبح بعدالركوع مايوجب الاعتماد عليه ، وقنوت الوتر قياس عليه،،انتهى قال ابن التركماني : ’’الذى فى الصبح أنه عليه السلام ترك القنوت فى الصبح،وعلى تقدير ثبوته ، وأنه بعدالركوع ، كيف يقاس الوتر عليه ، مع وجود حديث جيد فى الوتر ، مروى من وجوه ، وان القنوت فيه قبل الركوع وعلى تقدير أنه ليس فى الوتر حديث، كيف يقاس على الصبح وليس بينهما معنى مؤثر يجمع به بينهما ،،الى آخرماقال.معلوم ہواکہ شوافع کےپاس بجز قیاس کےکوئی دلیل قوی معارض الحدیث ابی بن کعب وحدیث انس موجود نہیں ہے۔ اورمیرے نزدیک بھی ا ن کاقیاس صحیح نہیں ہے، بلکہ بےمحل ہےاوربےموقع ہے۔
ج : (3) خلفاء راشدین سےوتر میں قنوت بعدالرکوع کی صحیح روایت میری نظر سےنہیں گزری ۔ عراقی اوربیہقی کےقو ل کےیہ مطلب معلوم ہوتاہےکہ ان خلفاء سےصلاۃ صبح میں قنوت بعدالرکوع پراستمرار ثابت ہے۔ اسی بنا پرانہوں نے وتر میں قنوت بعدالرکوع کوترجیح دےدیا ہےیعنی :محدثین کےنزدیک متعارض ومخالف حدیثوں میں ایک دوسرے پرترجیح دینے کی ایک صورت یہ بھی ہےکہ کسی ایک حدیث کےموافق خلفاء اربعہ کاعمل ہو۔
مسئلہ متنازع فیہا میں سنن اورصحیحین کےحدیثوں کی مستدرک حاکم اوربیہقی کی روایت معارض نہیں ہوسکتی ، پس خلفاء راشدین کے عمل کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بالخصوص ایسی صورت میں کہ ان سے قنوت فی الوتر بعدالرکوع کی کوئی صحیح روایت نہیں آئی ، اورجوآئی ہےوہ قنوت فی الفجر بعدالرکوع کےبارے میں آئی ہے۔اس بارے میں میری پہلی تحقیق ناقص تھی ، اب مزید تتبع وتفتیش سےمیرے نزدیک ثابت ہواکہ قنوت قبل الرکو فی الوتر اولی ہےقنوت بعدالرکوع سے۔میں آپ کاممنون ہوں کہ آپ نےمجھے مزید تحقیق وتتبع کی طرف توجہ دلائی ۔
ج 4: حضرت حسن کی روایت میں ایسا لفظ موجودہے جس سےیہ مفہوم ہوتاہےکہ آنحضرت ﷺ نےخود حضرت حسن کوقنوت وتر میں بعدالرکوع دعاء مذکور پڑھنے کی تلقین وتعلیم کی تھی كما تقدم من رواية الحاكم والبيهقى .
ابن حبان اورابن خزیمہ کی جرح حضرت حسن کی اس روایت پرہےجوبسند ابواسحق عن بريد بن أبى حريم عن أبى العوراء عن الحسن بن على بلفظ : علمنى كلمات اقولهن فى قنوت الوتر مروى ہے ۔ ان کااعتراض یہ ہےکہ اس حدیث میں سرے سےقنوت وتر کالفظ ہی محفوظ ہےیعنی : آنحضرت ﷺ نےاس دعاء کوقنوت وتر میں پڑھنے کی تعلیم دی تھی۔یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے مطلق دعا کی تلقین کی تھی اورحضرت حسن اپنے اجتہاد سےاس کوقنوت وترمیں پڑھتے تھے ۔ (قیام اللیل ص : 131بیہقی 2؍310)۔
حدیث حسن مستدرک حاکم وبیہقی کوجوقنوت بعدالرکوع پردلالت کرتی ہے ۔ ابی بن کعب کی روایت کےبظاہر مخالف ہےلیکن دونوں کومختلف احوال واوقات پرمحمول کرناچاہیے تاکہ تعارض باقی نہ رہے۔ہاں قبل الرکوع راجح ہوگا لكثرة ادلته وقوتها-
ج : (5) ائمہ ثلاثہ مالک :شافعی اوراحمد اس امرپرمتفق ہیں کہ نمازعید کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری میں پانچ تکبیریں رکوع کی تکبیر کےعلاوہ ہیں ۔اختلاف اس امر میں ہےکہ سات تکبیریں پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کےعلاوہ ہوں گی یاتکبیر تحریمہ ان ساتوں میں شامل ہے۔
پہلا قول امام شافعی کاہےاوردوسرا مام مالک اوراحمد کا۔
اس مسئلہ میں امام شافعی کی ہمنوائی کرنےوالے یہ کہتےہیں کہ ائمہ ثلاثہ کی مشترک دلیل عبداللہ بن عمر وبن العاص کی وہ حدیث ہےجوصحاح ستہ میں سےسنن کی دوکتابوں میں بالفاظ ذیل مروی ہے:’’ عن عبدالله بن عمروبن العاص قال: قال نبى الله صلى الله عليه وسلم : التكبير فى الفطر سبع فى الاولى وخمس فى فى الآخرة ، والقراءة بعدهما كليتهما ، ، (ابوداؤد مع عون 1/ 446 ) ، وفى رواية :’’ أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يكبر فى الفطر فى الأولى سبعا، ثم يقرأ ثم يكبر ثم يقوم فيكبراربعاثم يقراثم يركع،، قال ابوداؤد : رواه وكيع وابن المبارك قالا : سبعا وخمسا ، ، ( ابوداؤد ، وفى رواية ابن مادجه :’’ أن النبى صلى الله عليه وسلم كبرفى صلاة العيد سبعاوخمسا ،، ( ابن ماجه مع السندهى 1/200)(2) ، اس حدیث کوامام بخاری ، علی بن المدینی ، امام احمد نےصحیح بتایا ہے۔اورعراقی کہتےہیں : اس کی سند صالح ہے۔ان روایات میں تکبیرات زوائد کی مجموعی تعداد یعنی : میزان کل 12یا 13 یا 14 کےساتھ بتائی گئی ہے۔اور نہ اس سےتعرض ہےکہ تکبیر تحریمہ ان سات تکبرات میں شامل ہےیاان سےخارج اورزوائد ہے۔ پس احتمال ہےکہ ان میں داخل وشامل ہواور احتمال ہےکہ ان سےخارج ہو۔
امام شافعی کی ہمنوائی کرنے والے کہتےہیں کہ دارقطنی میں یہی روایت بالفاظ ذیل مروی ہے :’’ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر فى العيدين الاضحى والفطرة ثنتى عشرة تكبيرة ، فى الأولى سبعا وفى الاخيرة خمسا ، سو ى تكبيرة الاحرام ،، وفى رواية اخرى :’’ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر فى العيد يوم الفطرة سبعا فى الاولى وفى الاخرة خمسا ، سو ى تكبيرة الصلوة ،، ( دارقطنى 2/ 48 ) ، اورظاہر ہےکہ دارقطنی کی روایت میں سوی تکبیر ۃ الافتتاح کی زیادۃثقہ سےمروی ہے۔ جو سنن کی روایت کےمنافی اورمعارض نہیں ہےاورنہ اس پرکسی محدث نےوہم وخطا۔ دارقطنی مستدرک حاکم ابوداؤد وابن ماجہ کی حدیث عائشہ سےنہیں ہےجوعبداللہ بن لہیعہ ضعیف مدلس مختلط کےطریق سےمروی ہونیکی وجہ سے ضعیف ہے۔
اورساتھ ہی پس ہمارا استدلال اصول محدثین کےخلاف نہیں ہے۔ہاں جولوگ اس زیادہ کےقائل نہیں ہیں ان پرسخت الزام عائد ہوتاہےاسی لیے مولوی زکریا لکھتےہیں :’’ إن استدلال الشافعية بذلك الحديث ، أرقرب من استدلال الموالك ، للتصريح فى بعض طرقه ، بسوى تكيرة الصلوة كما فى الطحاوى وغيره ،، (الأوجز 2/249).
ج : ’’ (6) کسی مسئلہ میں ہم زیادہ غیرمعتبر وغیرثابتہ میں کسی امام کی موافقت نہیں کرتے خواہ وہ شافعی ہوں یامالک یا احمد یاابوحنیفہ یا کوئی اور امام ومن ادعى ذلك فعليه البيان والافليسك ، ولا يتقول علينا مالم نقله .
ج : (1) علماءاہل حدیث نماز میں سینہ پرہاتھ رکھنے کےثبوت میں تین حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔
پہلی حدیث ان کےنزدیک صحیح مرفوع متصل غیرمعلل اورغیر شاذ ہےجوصحیح ابن خزیمہ میں بلفظ ’’ فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره ،، مروى ہے۔حافظ ابن حجرداریہ (146،1؍128 ) بلوع المرام وغیرہ میں اورحافظ زیلعی نصب الرایہ 1؍164 میں اوردوسرے مصنفین نےاپنی کتابوں میں اس حدیث کوابن حزیمہ کی روایت بتاتے ہیں لیکن اس کی سند نہیں نقل کرتے۔ حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کےنزدیک بظاہر صحیح ابن خزیمہ کی یہ حدیث حسب ذیل سند سےمروی ہے۔عن محمد بن يحينى عن عفان عن همام عن محمد بن حجادة عن عبدالجبار بن وائل عن علقمة بن وائل ومولى لهم عن أبيه انتهى اوراسی سندسے مسلم شریف میں یہ متن بغیر زیادۃ’’علی الصدر ،، بایں لفظ مروی ہے:’’ ثم وضع يده اليمنى على اليسرى ،، (2/173)۔
مولوی انورشاہ نےفیض الباری 2؍ 266میں ، ینموی آثارالسنن ص:46میں ،اورخلیل احمد نےبذل المجہود 2؍ 25 میں ، مولوی زکریا نےالاوجز 7؍118 میں ’’علی الصدر،،کی زیادۃ کومعلل شاذ غیرمحفوظ اورحدیث کومضطرب المتن بتایا ہے۔وجہ معلل ہونےکی مولوی انورشاہ مرحوم کےلفظوں میں ہےکہ :’’ لأنه لم يعمل به أحمد من السلف ، ولاذهب إليه احد من الائمة ،، انتهى اورزیادۃ مذکورہ کےغیر محفوظ اورشاذ ہونے کی وجہ یہ ہےکہ ابن خزیمہ کےعلاوہ اس حدیث کوامام احمد، نسائی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ وغیرہ نےمختلف طرق سےروایت کیا ہےلیکن کسی طریق میں یہ زیادۃ نہیں ہے۔مولوی انوشاہ لکھتےہیں :’’ والحاصل أن رواية وائل رواها غيرواحد، ولم يروها أحدعلى لفظ ابن خزيمة ، وإنما رواها راو بعدمرورالزمان ، فهو ساقط ، فلا يحمد عليها مع فقدان العمل به ،،انتهى –اور مضطرب المتن ہونے کی وجہ نیموی کےلفظوں میں یہ ہے :’’ أخرج ابن خزيمة فى هذا الحديث على صدره ، والبزار عند صدره ، وأخرج ابن ابى شيبة تحت السرة،، انتهى
زیادۃ مذکورہ کےشذوذ اورحدیث مذکورکےاضطراب کاجواب تحفہ 1؍216 اورابکارالمنن ص 101 ؍ 103 میں بسط وتفصیل کےساتھ مذکورہے اورمعلل ہونے کی وجہ کاجواب دینے کی ضرورت نہیں جبکہ امام شافعی سےایک روایت ’’ فوق الصدر،،کی آئی ہے۔جیسا کہ ’’ حاوی ،، میں مصرح ہے۔اوراگر بالفرض کوئی اس کاقائل نہ ہوتو یہ اس کےمعلل اورغیر محفوظ اور ساقط الاعتبار ہونے پردلالت نہیں کرتا لأنه يحمل على أنه لم يبلغ الحديث المذكورأحدامن الائمة الأربعةوغيرهما المشهورين ، وأما إن كان الحديث متروك العمل به فى قرن الصحابة أو التابعين علامة نسخة اوضعحه ، كما يدل عليه كلام المنار، كما صرح به فى التلويج ، فما لايلتفت إليه ، وقدردعليه الشوكانى فى إرشاد الفحول .
دوسرى حديث : مسنداحمد میں بسند ذیل مروی ہے جوعندالحنفیہ بھی حسن ہے: قال الامام أحمد فى مسنده : ’’ حدثنا يحيى ابن سعيد عن سفيان ثنا سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ،، الخ
نيموي نى اس حديث میں بھی ’’ علی صدرہ ،، کوغیر محفوظ بتایا ہےجس کاجواب حضرت شیخ نےتحفہ اورابکار المنن میں بالتفصیل مرقوم فرمایا ہے۔
تیسر ی حدیث مراسیل ابوداؤد میں مروی ہے۔
( اوجز المسالک 2؍118 فیض الباری 2؍266 بذل المجہود 2؍250، نصب الرایۃ للزیلعی 1؍ 164، تحفۃ 1؍215، عون المعبود 1؍ 276 ابکارالمنن ص :97) .
ج : (7) مستدرک حاکم مطبوعہ حیدرآباد 1؍306 میں حدیث مسؤل عنہ بسند ذیل مروی ہے: ’’ وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ - قَالَ الدَّارِمِيُّ: وَهُوَ أَقْدَمُ شَيْخٍ لِحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» قال الحاكم هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ، قال الذهبى : صحيح .
مستدرک حاکم اس کی روایت میں قنوت کالفظ نہیں ہےكما تراه ، ميرے نزدیک حدیث مذکورہ میں اس دعاء کامحل بعد السلام من صلوۃ الوتر ہے۔ قال ميرك : ’’ وفى احد روايات النسائى: كان يقول إذا فرغ من صلوته وتبوأمضجعة ، قاله القارى، وكذا قال ابن القيم قى زاد المعاد ، فما قال السندى فى حاشية النسائي يحتمل أنه اكان يقول فى آخرالقيام ، فصار هو من القنوت ، كما هو مقتضى كلام المصنف ، ويحتمل أنه كا ن يقول فى قعود التشهد ، هوظاهر اللفظ ليس بصواب كانه لم يطلع على رواية النسائي التى فيها كان يقول إذا فرغ من صلوته اسی لیے امام بیہقی نےاس حدیث کوباب مایقول بعدالوتر میں ذکر کیا ہےجس کےشروع کےالفاظ یہ ہیں :’’ كا ن يدعوفى آخروتره يقول اللهم إنى أعوذبرضاك ،،الخ (بيهقى 3/ 42 ) .
مستدرک حاکم میں بلفظ قنوت وتر مجھ کویہ حدیث نہیں ملی پس امام شوکانی کےاس مقولہ’’ اما م حديث على المذكور، فأخرجه أيضا البيهقى والحاكم وصححه مقيدا بالقنوت ،، كا محمل بجز اس کےاورکچھ نہین ہوسکتا کہ امام حاکم نےاس حدیث کوبقید قنوت اپنی دوسری مستقل تصنیف کتا ب القنوت میں روایت کیا ہو۔افسوس ہمارے پاس ان کی یہ کتاب نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر کےاپنی کتاب شرح نحبہ کےاندر تصریح سےعام طورپریہ مشہور ہےکہ زیادۃ ثقہ کےقبول کرنےکےلیے صرف یہ شرط ہےکہ مزید غلبہ کےمنافی نہ ہو، لیکن واقعہ یہ ہےکہ اس قدر تفصیل کافی نہیں ہے۔علماء اصول حدیث نےکچھ اورشرطیں بھی لگائی ہیں علامہ سخاوی شرح الفیہ عراقی 1؍213 میں لکھتےہیں :’’ وقيده ابن خزيمة باستواء الطرفين فى الحفظ والإتقان، فلوكان الساكت عددا واحد ا أحفظ منه، أولم يكن هو حافظا، ولوكان صدوقافلا ، وممن صرح بذلك ابن عبدالبر فقال فى التمهيد:إنما تقبل إذا كا روايها أحفظ واتقن ممن قصر ، مثله فى الحفظ ، فإن كانت من غيرحافظ ولا متقن فلا التفات اليها، ونحوه قول الخطيب الذى نختاره ، القول إذا كان راويها عدلا حافظا ومتقنا ضابطا ، وكذا قال الترمذى : إنما تقبل ممن يعتمد على حفظه ، ونحوه عن ابى بكر الصيرفى ، وقال ابن طاهر: إنما تقبل عندأهل الصنعة من الثقة المجمع عليه ، وابن السبعانى ومن وافقه بما إذا لم يكن الساكتون ممن لايفعل مثلهم عن مثلها عادة ،، انتهى ملخصا.
معلوم ہواکہ عدم منافات کی شرط کےساتھ زیادۃ والے ثقہ راوی کااحفظ یاحافظ ضابط متقن ہوناضروری ہے، صرف صدوق ہونا کافی نہیں ۔ لیکن ان دونوں شرطوں کےتحقق کی صورت میں بھی زیادۃ ثقہ مطلقا مقبول نہیں ہوا کرتی ۔اگر مطلقامقبول ہوتوکسی حدیث میں زیادۃ پرمعلول کاحکم لگانا صحیح نہ ہو، حالاں کہ محدثین بسااوقات ایسی حدیث کومعلل کہہ دیا کرتےہیں جس میں ثقہ ، حافظ ، ضابط سےکوئی زیادۃ مروی ہوتی ہےمعلوم ہواکہ ثقہ حافظ کی زیادۃ کبھی مقبول ہوتی ہےاورکبھی بعض جگہ نہیں مقبول ہوتی ،لأن الثقة قديهم ويلغظ .
علامہ زیلعی لکھتےہیں : ’ ’ فَإِنْ قِيلَ: قَدْ رَوَاهَا نُعَيْمٌ الْمُجْمِرُ، وَهُوَ ثِقَةٌ، وَالزِّيَادَةُ مِنْ الثِّقَةِ مَقْبُولَةٌ، قُلْنَا: لَيْسَ ذَلِكَ مُجْمَعًا عَلَيْهِ، بَلْ فِيهِ خِلَافٌ مَشْهُورٌ، فَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَقْبَلُ زِيَادَةَ الثِّقَةِ مُطْلَقًا، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْبَلُهَا، وَالصَّحِيحُ التَّفْصِيلُ، وَهُوَ أَنَّهَا تُقْبَلُ فِي مَوْضِعٍ دُونَ مَوْضِعٍ، فَتُقْبَلُ إذَا كَانَ الرَّاوِي الَّذِي رَوَاهَا ثِقَةً حَافِظًا ثَبْتًا، وَاَلَّذِي لَمْ يَذْكُرْهَا مِثْلُهُ، أَوْ دُونَهُ فِي الثِّقَةِ، كَمَا قَبِلَ النَّاسُ زِيَادَةَ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَوْلَهُ: مِنْ الْمُسْلِمِينَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ، وَاحْتَجَّ بِهَا أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ، وَتُقْبَلُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ لِقَرَائِنَ تَخُصُّهَا، وَمِنْ حَكَمَ فِي ذَلِكَ حُكْمًا عَامًّا فَقَدْ غَلِطَ، بَلْ كُلُّ زِيَادَةٍ لَهَا حُكْمٌ يَخُصُّهَا، فَفِي مَوْضِعٍيُجْزَمُ بِصِحَّتِهَا، كَزِيَادَةِ مَالِكٍ، وَفِي مَوْضِعٍ يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ صِحَّتُهَا، كَزِيَادَةِ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ فِي حَدِيثِ: جُعِلَتْ الْأَرْضُ مَسْجِدًا، وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا، وَكَزِيَادَةِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ فِي حَدِيثِ أَبِي مُوسَى: وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَفِي مَوْضِعٍ يجزم بخطأ الزيادة، كَزِيَادَةِ مَعْمَرَ، وَمَنْ وَافَقَهُ، قَوْلُهُ: وَإِنْ كَانَ مَائِعًا فَلَا تَقْرَبُوهُ، وَكَزِيَادَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ - ذَكَرَ الْبَسْمَلَةَ - فِي حَدِيثِ قَسَّمْت الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، وَإِنْ كَانَ مَعْمَرُ ثِقَةً. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ ضَعِيفًا، فَإِنَّ الثِّقَةَ قَدْ يَغْلَطُ، وَفِي مَوْضِعٍ يغلب على الظن خطأها، وفى موضع يتوقف فى الزياة ، ، انتهى ( نصب الراية 1/ 175) .
معلوم ہواکہ ہرزیادۃ ثقہ کاایک حکم نہیں ہے، بلکہ ہرمقام میں زیادۃ کاحکم دوسرےےمقام کی زیادۃ سےجدا گانہ ہوتاہے، اور اس حکم کی بناء قرائن وآثار پرہوتی ہے۔جسے ماہرین فن حدیث وعلل اوراصحاب فہوم ثاقبہ اورعلوم حدیث کےطبیب کامل اسباب جرج وتعدیل کی معرفت تامہ اورمہارت کاملہ وملکہ راسخہ رکھنےوالے محدثین ہی پہچان سکتےہیں ۔خلاصہ یہ کہ زیادۃ ثقہ حافظ ( غیرمنافیۃ ) اس وقت مقبول ہوتی ہے جب اس زیادۃ پرمحدثین نےجو اس فن کاماہرین قرائن کی وجہ سےوہم کاحکم نہ لگایا ہو، اوراس کی تضعیف نہ کی ہو، اگر متقدمین محدثین نےوہم کاحکم لگایادیا ہے تو مقبول نہیں ہوگی ، اوراگرکسی زیادۃ کےمتعلق یہ صورت حال ہےکہ دوایک محدث اس کوصحیح کہتے ہیں ، اورجم غفیر محدثین کااس کوضعیف اوروہم قرار دیتاہے ، تو وہ زیادۃ معتبر ومقبول نہیں ہوگی جیسے :’’ واذا قرأ فانصتوا ،، كى ابوموسی اشعری کی حدیث میں ۔
مہلب اوروائل بن حجر کی حدیث میں ’’علی الصدر،، کی زیادۃ ثقہ سے مروی ہے، اورکسی محدث نےاس پروہم ہونے کاحکم نہیں لگایا ہےاورنہ اس کی تضعیف کی ہے۔اسی طرح عمروبن العاص کی حدیث میں ’’ سوى تكبيرةالافتتاح ،، کی زیادۃ بھی ثقہ سے مروی ہے: اورخاص اس کےوہم ہونےکا حکم کسی محدث نےنہیں لگایا ہےپس یہ دونوں زیادۃ مقبول ہونگی ۔
امام ابوداؤد کی اپنی سنن میں بحث وکلام سےظاہرہوتاہےکہ وہ ابی بن کعب کی حدیث میں قنوت قبل الرکوع کی زیادت کووہم اورضعیف سمجھتے ہیں ۔بیہقی نےاس کلام اوربحث کومعرفۃ السنن میں ذکر کرکےزیادۃ مذکورہ کووہم اورضعیف ہونے پرمہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ تلخیص 1؍118 میں حافظ کی اس عبارت سے’’ حدیث ابى بن كعب : أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقنت قبل الركوع ، ابوداؤد والنسائي وابن ماجه وابوعلى بن السكن فى صحيحه ، ورواه البيهقى من حديث ابى بن كعب وابن مسعودوابن عباس وضعفها كلها وسبق إلى ذلك أحمد ، ابن خزيمة وابن المنذر ،، معلوم هوتاہے کہ ابی بن کعب کی حدیث کی امام احمد، ابن خزیمہ اورابن المنذر نےبھی تضعیف کی ہےلیکن وجہ تضعیف ظاہر نہیں کی غالباًُ ان تینوں ائمہ نےبھی ابوداؤد اوربیہقی کی طرح اس زیادۃ کو ضعیف بتایا ہے ۔ امام نسائی کےسنن کبری کےاندر حدیث مذکور کےبعد اس کلام ( وقد روى هذا الحديث غيرواحد عن زبيداليامى فلم يقل فيه : ويقنت قبل الركوع ) انتهى (نصب الرايه 1/279 ) سےمترشح ہوتاہےکہ وہ بھی اس زیادۃ کوغیرمحفوظ اوروہم سمجھتے ہیں ، اس طرح حدیث زیادۃ مذکورکوغیرمحفوظ اوروہم ومعلل کہنے محدثین کی تعداد چھ تک پہنچ جاتی ہے، لیکن امام نسائی کی سنن صغری میں اس حدیث کوبغیر کلام کےذکر کرنے سےیہ مفہوم ومعلوم ہوتاہےکہ یہ حدیث ان کےنزدیک مع زیادۃ کےصحیح ومعتبر ہے۔بقیہ معللین میں صرف امام ابوداؤد وامام ابن خزیمہ کی تضعیف قابل توجہ ولائق التفات ہےاورابن المنذر شافعی وبیہقی شافعی کی تضعیف چنداں لائق اعتنانہیں ہے۔بہرحال ان تمام معللین زیادۃ مذکورہ کےنزدیک وہم پرقرینہ صرف یہ ہےکہ ایک جماعت اس زیادۃ کوذکرنہیں کرتی لیکن میرے نزدیک یہ قرینہ کافی نہیں ہےجیسا کہ ذیل کےنقشہ سےظاہرہوتاہے۔
ذكروالقنوت قبل الوتر :
1- عيسي بن يونس بن اسحق عن سعيد ابن ابى عروبة عن قتادة عن سعيد بن عبدالرحمن بن أبزى عن أبيه عن ابى بن كعب مرفوعا.
عيسي بن يونس : ثقة مأمون (تقريب ) ثقة حافظ (ابوزرعة) بخ ثقة مأمون ( ابن المدينى)(تهذيب ) .
سعيد ابن ابى عروبة : ثقة حافظ ، كان من أثبت الناس فى قتادة (تقريب،تهذيب4/63) .
سكتوا عن ذكر القنوت :
1- يزيد بن زريع ، عن سعيد بن ابى عروبة عن قتادة عن سعيد.......
يزيد بن زريع : ثقة ثبت (تقريب : تهذيب 11/325).
2- عبدالاعلى بن عبدالاعلى عن سعيد بن ابى عروبة عن قتادة عن سعيد........
عبدالاعلى : ثقة (تقريب تهذيب ) 6/6 ) .
3- محمد بن بشرالعبدى عن سعيد بن ابى عروبة عن قتادة عن سعيد......
محمد بن بشرالعبدى : ثقة حافظ ( تقريب ، تهذيب 9/74).
سكتا عن ذكر القنوت :
1- شعبة عن قتادة عن سعيد بن عبدالرحمن بن أبزى عن أبيه عن ابى بن كعب مرفوعا:
شعبة : ثقة حافظ متقن (تقريب ، تهذيب 4/334 ) .
2- هشام الدستوائى عن قتادة عن سعيد بن عبدالرحمن.........
هشام الدستوائى : ثقة ثبت (التقريب : تهذيب 11/43) .
ذكر والقنوت قبل الركوع :
1- عيسى بن يونس عن فطربن خليفة عن زبيد عن سعيد بن عبدالرحمن أبزى
عن ابيه عن أبى بن كعب مرفوعا عندأبى داؤد:
فطربن خليفة : صدوق (تقريب ) ، ثقة حافظ كيس (نسائي ) تهذيب 8/301.
1- حفص بن غياث عن زبيد .......................
حفص بن غياث : ثقة فقية تغير فى الآخرقليلا ( تقريب ).
مسعربن كدام عن زبيد .......عندالبيهقى .
مسعربن كدام : ثقة .
3-مخلدبن يزيد عن سفيان الثورى عن زبيد عن سعيد بن عبدالرحمن بن ابزى ........ عندالبيهقى مخلد بن يزيد: صدوق له اوهام كثيرة ، وثقة ابن معين ويعقوب بن سفيان وأخرج له الشيخان .
(تقريب : تهذيب )
سكتوا عن ذكر القنوت :
1- سليمان مهران الاعمش عن زبيد عن سعيد بن عبدالرحمن بن ابزى عن أبيه ابى بن كعب مرفوعا
سليمان بن مهران : ثقة حافظ ( تقريب ) .
2- عبدالملك بن ابى سليمان عن زبيدعن سعيد بن عبدالرحمن بن أبزى عن ابيه ............
عبدالملك بن ابى سليمان: صدوق له اوهام ( تقريب ) .
3- جرير بن حازم عن زبيد عن سعيد الرحمن بن أبزى عن أبيه .......
جرير بن حازم : ثقة له اوهام اذاحدث من حفظه ( تقريب ) .
4- شعبة عن زبيد عن سعيد بن عبدالرحمن بن أبزى ..........
س : صبح کی نماز میں دعا قنوت میں قرآنی دعاؤں کومثلا’’ ربنا آتنا ،، وغیرہ پڑھنا جائز ہےیاناجائز ؟
ج : فجر کی نماز میں قنوت پربلا ناغہ مداومت نہیں کرنی چاہیے ۔ اللھم اھدنا فیمن ھدیت الخ کےساتھ یا اس کےبغیر یہ دعا بھی پڑھنا مناسب ہے’’ اللهم اغفرللمؤمنين والمؤمنات ولمسلمين والمسلمات ، وألف بين قلوبهم ، وأصلح ذات بينهم ، وانصرهم على عدوك وعدوهم ، اللهم العن كفرة اهل الكتاب الذين يكذبون رسلك ويقاتلون أولياءك، اللهم خالف بين كلمتهم وزلزل أقدامهم ، وانزل بهم باسك الذى لايردعن القوم المجرمين ،،
قنوت میں قرآنی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہےکہ حنیفہ قنوت وتر میں مصحف ابی کےمطابق سورۃ الحفد وسورۃ الخلع پڑھنے کےمدعی وقائل ہیں ۔
س : دعا قنوت جوحضرت حسن سےمروی ہےجماعت میں امام جمع کی ضمیر کےساتھ پڑھے یامفرد ضمیر کےساتھ ، جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے ’’ فتاوی ،، میں لکھا ہےکہ جماعت میں بضمیر جمع پڑھی جائے۔ بضمیر جمع پڑھنا ثابت ہےیانہیں ؟ حکیم ابوالخیر خریدار1828، ڈیرغازی خان
ج : حضرت حسن کی حدیث میں واردشدہ دعاءقنوت نماز باجماعت میں امام جمع کی ضمیر کےساتھ یعنی ’’ اللهم اهدنى وعافنى وتولنى الخ کےبجائے اللهم اهدنا وعافنا وتولنا ......پڑھ سکتا ہے۔ دعا ء مذکور بضمیر جمع بھی وارد ہوئی ہےپس جماعت میں جمع کی ضمیر کےساتھ پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ۔ روى البيهقى فى سنة الكبرى 2/210بسنده عن عبدالله بن عباس قال : ’’ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا دعاء ندعوبه فى القنوت من صلوة الصبح ، اللهم اهدنا فيمن هديت ، وعافنا فيمن عافيت ،،الخ امام ابن تیمیہ نےاپنےفتاوی 23؍117 میں دعاء قنوت بضمیرجمع پڑھنے کوحدیث ثوبان ’’لايؤم قوم فيخص نفسه بدعوة دونهم ، فإن فعل خانهم ،، (ابوداؤد ، ترمذى ، ابن ماجه ، كامحمل ومصداق ٹھہرایا ہےتاکہ اس حدیث کی مخالفت نہ لازم آئے قال الحافظ ابن القيم :’’سمعت شيخ الإسلام ابن تيمية يقول : هذا الحديث عندى فى الدعاء الذى يدعوابه الإمام لنفسه وللمأمومين ، ويشتركون فيه كدعاء القنوت ونحوه ،، انتهى .قلت : وعليه حملة الشافعية والحنبلية . (محدث ج : 9 ش : 11صفر 1361ھ ؍ مارچ 1941ء،)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب