السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہےکہ بغیر تجوید مروجہ کےجانے کسی کی نماز نہ ہوگی اورہرشخص پرتجوید سیکھنا فرض ہے، کیا واقعی وہ عالم یاحافظ یاغیر حافظ جوتجوید نہیں جانتے ان کی نماز نہیں ہوتی ؟ اور کیا ﴿ورتل القرآن ترتيلا ﴾ (المزمل : 4)سےفرضیت تجوید القرآن ثابت ہےیانہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہوکہ لغت میں ’’ تجوید ،، کےمعنی : تحسین کےہیں ۔ اورقراء کی اصطلاح میں : تجوید تمام حروف کوان کےمخارج سے مع جمیع صفات کےادا کو کہتےہیں (فوائد مکیہ قاری عبدالرحمنٰ مکی ) ۔ ’’ التجويد : هولغة : التحسين ، واصطلاحا إعطاء الحروف ماتسحقة من الصفات ، ، (مفتاح التجويد لعبدالله بن ابراهيم المكى ). د
وهو اعطاء الحروف حقها من صفة لها ومستحقها
ورد كل واحد لأصلها وللفظ فى نظيره كمثله
مكملا من غير ماتكلف باللفظ فى النطق بلا تعسف
(متن الجزریہ للشیخ ابن الجزری الشافعی )
علم قراءت میں تجوید کےتین مرتبے ہیں ( الترتيل : وهو التأتى بالقراءة (2) الحدر ، وهو الإسراع بها (3) التدوير : وهو مرتبة بينهما ، علماء قرات قواعد تجوید کےمطابق قرآن پڑھنے کونہایت ضروری قراردیتے ہیں ۔ تجوید سےنہ پڑہنے والے کوگنہگار کہتےہیں :’’العمل به فرض على كل مكلف قارى ،،(مفتاح التجويد ) .
والأخذ بالتجويد حتم لازم من لم يجود القرآن آثم
لأنه به الإله أنزل وهكذا منه إلينا وصلا
وهو ايضا حلية التلاة وزينة الاداء القراءة
(متين الجزريه ملاعلى قارى ص: 17، 18، شيخ الاسلام زكريا انصارى :63)-
اورعلماء حنفیہ اپنے فتاوؤں میں : تنضید وتنسیق یعنی : ترتیب وتنظیم کےہیں ’’الترتيل النتضيد والتنسيق وحسن النظام ، يقال ثغررتل ، اى حسن التنضيد كنور الأقحوان ، وقيل مستوى البنيان ، وقيل مفلج الأسنان ويقال رتل الشئى ، : تناسق وانتظم انتظاما حسنا،،مفسرين نے (رتل القرآن ترتیلا) کی قریب قریب ایک ہی تفسیر کی ہے۔
قال بعضهم :’’ بين حروفه وتان فى ادائها ، وقيل اقراءه على مهل تدبر ، وقيل : اقراء ه على تؤدة بتبيين الحروف وحفظ الوقوف وإشباع الحركات ، بحيث يتمكن السامع من عدها، قال الزجاج ،: ترتيل القرآن وهو أن تحصيل إلا بتبيين الحروف وإشباع الحركات،، اورتفسیر ابن جریر (14؍126) میں ہے: ’’ قال مجاهد : ترسل فيه ترسلا-،، ان تمام معنوں کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کومداوروقوف وحرکات کی پوری رعایت کرتے ہوئے، اس طرح ٹھہرٹھہر کرپڑھا جائے کہ تمام حروف اپنے مخارج سے اداہوکر ایک دوسرے سےممتاز ہوجائیں ۔ یہاں تک کہ سننے والا اگرحروف کوشمار کرناچاہیے توشمار کرسکے ۔چنانچہ آنحضرت ﷺکی قراءت ایسی ہی ہوتی تھی ۔
(1)عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «كَانَ يَمُدُّ صَوْتَهُ مَدًّا» ،، أخرجه البخارى-
(2) عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَاتِهِ، قَالَتْ: «مَا لَكُمْ وَصَلَاتَهُ، ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا» ،، أخرجه النسائى –
(3)روى الترمذى عنها ’’ قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقطع قراءته يقول ، الحمدلله رب العالمين ، ثم يقف ، الرحمن الرحيم ثم يقف ، وكان يقول مالك يوم الدين ثم يقف ، وقالت عائشة رضى الله عنها : كان يقراء السورة فيرتلها حتى تكون اطور من اطول منها،،
’’ ترتیل ،، اور’’ تجوید ،، دونوں ایک چیز ہےیادونوں میں فرق ہے؟
حضرات قراءنے دونوں کوایک قرار دیا ہےاوروہ آیت مذکورہ بالا سے’’ تجوید،، کی فرضیت پراستدلال کرتےہیں ۔میرے نزدیک دونوں میں فرق ہےاوروہ یہ کہ ترتیل میں تأنى تمهل ، تثبت ، ترسل يعنى : ٹھہر ٹھہر کرپڑھنا مطلوب وملحوظ ہے،اورتجوید میں اسراع بھی جائز ہےبشرطیکہ حروف وحرکات وسکنات اورصفات حروف میں خلل نہ واقع ہو،پس ’’ تجوید اصطلاحی ،، عام ہےاور ’’ ترتیل ،، خاص ۔
ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ تیرتیل ضروری اورلازم ہے’’ وتأكيد الفعل بالمصدر ، يدل على المبالغة وايجاب الأمر على وجه لا يلتبس فيه بعض الحروف ببعض ، ولا ينقص من النطق بالحروف من مخرجه المعلوم ، مع إستيفاء حركته المعتبرة ، وانه لابد منه اللقارى ،، (فتح البيان : 10/ 91 ) ، وكذا فى النيسابورى وتفسير الفخرالرازى ، قال الحافظ فى ’’الفتح،،9/802: و’’دليل جواز الاسراع ماتقدم فى احاديث الأنبياء ، م حديث أبى هريرة دفعة : خفف على داود القرآن ، فكان يأمربدوابه فتسرج ، فيفرغ من القرآن قبل أن تسرج ،، انتهى.
عندالحنفيه قدر مايجوز بها لصلوة ’’ تجويد،، کاجاننا فرض ہےاگر قدر مايجوز به الصلوة بغير تجويد کے پڑھے گاتو کنہگار ہونے کےعلاوہ ،نماز میں فساد پیداہوجائے گا ۔
میرے نزدیک قرآن پڑھنے میں حروف کوان کےمخارج سےان کی صفات کےساتھ ادا کرنا ،اور مد ، وقوف وحرکات وسکنا ت کی پوری رعایت کرنا ضروری ہے،پس اگرکوئی عالم جس نے باقاعدہ علم قراءت اورفن تجوید نہیں حاصل کیا ہے،لیکن قرآن پڑھنے میں صحیح طریقے پرحروف کومخارج سےمع ان کی صفات کےاداکرتا ہے،اورمدوقوف وغیرہ کی رعایت کرتا ہے، تو اس کی نماز میں خلل نہیں واقع ہوگا ۔ قرآن کوصحیح پڑھنے کی فرضیت سےکون انکار کرسکتا ہے؟ اورظاہرہےکہ صحیح پڑھنے کےلیے کم ازکم معمولی طور پرمخارج اورصفات حروف اورمدوقوف کاعلم ضروری ہے۔پس ہرمسلمان مردوعورت پراس کی رعایت ضروری اورلازم ہے۔ہاں باوجود کوشش کےکامیابی نہ ہوسکے تووہ عنداللہ معذور ہوگا ۔’’ عن جابر قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نقرأ القرآن وفينا العربى والعجمى ، فقال : اقراؤا كل حسن ، ويجى أقوام يقيمونه كمايقام القدح ، يتعجلونه ولا يتأجلونه (ابوداؤد)
واضح ہوکہ خوش آوازی سےقرآن پڑھنا بالاتفاق امر زائد مستحسن اورمستحب ہے،اورتجوید وترتیل اورحسن صوت میں تلازم نہیں ہے۔ محض خوش آوازی کےساتھ قرآن پڑھنے کوتجوید سمجھ لینا غلط ہے۔ جولوگ نماز میں قرآن صحیح طریقہ پرنہیں ادا کرتے، ان کی نماز کراہت سےخالی نہیں ۔اور افسوس ہےکہ اس زمانہ میں عوام بالخصوص ’ اہل حدیث ،، اس معاملہ میں بہت غفلت برتتے ہیں ۔ انہوں نے غلطی سےتجوید میں اہتمام کوخارجیت یاحنفیت کی علامت سمجھ کراس کی تحصیل تقریبا چھوڑدی ہےجس کانتیجہ یہ ہےکہ ہمارے علماءتک قرآن غیرصحیح پڑھ جاتےہیں اورعوام کاتو پوچھنا ہی کیا ہے!۔انا لله وانااليه راجعون (مصباح بستى شوال وذى العقده 1371ھ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب