سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207)عورت و مرد کےدرمیان نماز کےقواعد میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟

  • 17229
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1533

سوال

(207)عورت و مرد کےدرمیان نماز کےقواعد میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت ومرد کےدرمیان نماز کےقواعد میں کوئی فرق ہےیا نہیں ؟ مفصل بیان کیا جائے۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  فقہائے حنفیہ مرد اورعورت کے درمیان نماز اورمتعلقات نماز کےپچیس سےزائد حکموں میں فرق ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن  خاص نماز کےافعال اوراس کےادا کرنےکی ہئیت  اورکیفیت میں مندرجہ ذیل فرق لکھتے ہیں :

(1)   جہری نمازوں میں عورت  کےلیے جہرسے قرات کرنا غیر مستحب ہے۔بخلاف  مرد کے ۔

(2)   مرد نما ز شروع کرنے کےوقت دونوں ہاتھ  کانوں تک اٹھائے اورعورت کندھوں تک ۔ دلیل میں یہ حدیث پیش کرتےہیں ۔ آنحضرت ﷺنےوائل بن حجر سےفرمایا :’’ إذا صليت فاجعل حذاء أذنيك ، والمرأة تجعل حذاء يديها ،، (طبرانى كبير ) ( مجمع الزوائد 2؍101) یہ حدیث ضعیف  وناقابل اعتبار ہے۔ صاحب ’’ جامع ازہر ،، اس حدیث کی بابت فرماتےہیں :’’ أخرجه الطبرانى فى الكبير عن وائل بن حجر من طريق ميمونة بنت حجر بن عبدالجبار عن عمتهام ام ايحي بنت عبدالجبار ولم تعرفها ، وبقية رجاله تقات ،، انتهى اورچوں کہ رفع  یدین کی حد میں فرق کرنے کی حدیث ضعیف  وناقابل استدلا ل  ہےاس لیے علامہ شوکانی فرماتےہیں :’’ لم يرومايدل على الفرق بين الرجل والمرأة  فى مقدار الرفع ، وروى عن الحنفية أن الرجل يرفع إلى الأذنين والمرأة إلى المنكبين ، لأنه أسترلها ،ولا دليل على ذلك ،، (نيل الاوطار 2/73 ) .

(3)   مرددونوں ہاتھ ناف سےنیچے باندھے اورعورت سینہ پریا اس سے نیچے لیکن ناف سےاوپر کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔

جن ضعیف، غیر صحیح ، غیرثابت حدیثوں میں یہ مذکورہےکہ آنحضرت ﷺناف سےنیچے ہاتھ باندھتے تھے ان کومردوں پرمحمول کردیا  اورجن صحیح ، ثابت ، محفوظ  حدیثوں سےآنحضرت ﷺ کاسینہ  پرہاتھ باندھنا ثابت ہےان کوعورتوں کےحق میں مخصوص کردیا  ہے اس لیے کہ مراعاة الستر أولى من مرعاة السنة فياللعجب .

(4)   عورت ركوع  میں تھوڑا اور کم جھکے (بلادلیل ) بخلاف مرد کےکہ وہ پورے طورپر جھکے اس طرح سےکہ پیٹھ بالکل سیدھی رہے اورسرپشت سےجھکاہوانہ ہو ، نہ اونچا ہو، بلکہ سراورپیٹھ دونوں ہموار ہوں ۔

(5)    مردرکوع میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کوپھیلا کراور ایک دوسرے سےالگ  رکھ کر گھٹنوں سےٹیکے اورعورت انگلیوں کوملی ہوئی رکھے ،مرد کی طرح جدا اورالگ نہ رکھے ۔

(6)   عورت اپنے دونوں ہاتھوں کوکہنیوں (ذراع ) تک سجدہ میں زمین پر بچھادے (بلا دلیل ؟ ) بخلاف مرد کےکہ وہ زمین سے الگ اوراونچا رکھے ۔

(7)  عورت سجدہ میں دونوں بغلوں کوکشادہ نہ ہونے دے یعنی : دونوں  بازوں اورکہنیوں  کوپہلو سےملائے رکھے (بلادلیل ؟) بخلاف مرد کے ۔

(8)   عورت سجدہ میں پیٹ کودونوں رانوں پررکھ  دے یعنی : اس کاسجدہ بالکل

پست ران سےجدانہ رکھے بخلاف مرد کے،دلیل میں یہ دو حدیث ذکر کرتےہیں :

(1)    روى أبوداؤد فى مراسيلة : ’’ أن رسو ل الله صلى الله عليه وسلم مرعلى امراتين تصليان فقال : إذا سجدتما فضما بعض اللحم الأرض  ، فإن المرأة ليست فى ذلك كالرجل ،، یہ حدیث  مرسل ہےاورحدیث مرسل حجت اور دلیل نہیں بن سکتی ۔

(2)   إذا سجدت المرأة الصقت بطنها بفخذها كأن استرمايكون لها ،، أخرجه البيهفى (السنن الكبرى 2/ 222 ) وابن عدى فى الكامل  عن ابن عمر مرفوعا ۔ یہ حدیث بھی ضعیف ہے

(9)   دونوں سجدوں کےدرمیان اورقعدہ اولی وثانیہ میں عورت   تورک کرےیعنی : دائیں جانب دونوں پاؤں نکال کربائیں سرین پربیٹھے بخلاف مرد کے کہ وہ ان تینوں جگہوں میں دایاں پاؤں کھڑا رکھے اورپائیں پاؤں کوبچھا کر

اس پر بیٹھے ۔جن صحیح حدیثوں سےیہ ثابت ہےکہ آنحضرت  ﷺصرف قعدہ اخیرمیں سلام سےمتصل قعدہ میں تورک (دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اوربایاں پاؤں نکال کردائیں جانب  نکال کربائیں سرین پربیٹھنا (بخاری )( کتاب الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشہد 1؍201 ) یادونوں پاؤں دائیں جانب نکال کربائیں سرین پربیٹھنا ۔(ابوداؤد ( کتاب الصلاۃ باب من ذکر التورک فی الرابعۃ (965)1؍490 ) کرتےتھے ، ان حدیثوں کومندرجہ ذیل آثار کی وجہ سے عورتوں کےحقت میں کردیا گیا :  عن نافع عن ابن عمر ، أنه كيف كا ن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال :كن يتربعن ثم أمرن أن تحتقرن ،، (مسند ابوحنيفه ) ، قال القارى : ’’ أى يضممن من اعضاء هن بأن يتوركن ،،انتهى ،’’  وعن نافع أن صفية كانت تصلى وهى متربعة ن وعن نافع قال : كن نساء ابن عمر يتربعن فى الصلوة، ، (مصنف  ابن ابى شيية) معلوم ہواکہ عورت اورمرد کےبیٹھنے کی ہئیت میں فرق ہےلیکن صحیح بخاری ( کتاب الاذان  باب سنۃ  الجلوس  فی التشہد1؍202 ) میں ہے:’’كانت ام الدرداء تجلس فى صلوتها جلسة الرجل وكانت فقيهة،، يعنى ،،  حضرت ام الدرداء کبرے صحابیہ  یاصغریٰ تابعیہ مردوں کی طرح (قعدہ اولیٰ  میں افتراش اورقعدہ اخیرہ میں تورک)قعدہ  کیا کرتی تھیں ،، معلوم ہواکہ ان کے نزدیک عورت اورمردکےدرمیان نماز کےاندربیٹھنے کی کیفیت میں فرق نہیں ہے۔ ان کےعلاوہ علمائے حنفیہ اورفرق بھی ذکرکرتےہیں  لیکن واقعہ یہ ہےکہ مرداورعورت کےدرمیان نماز کےاحکام میں اوپرذکر کیےہوئے فروق کسی صحیح روایت سےثابت نہیں ہوتے۔فقط ۔

   (محدث دہلی ج :8ش:12ربیع الآخر1359ھ؍جون 1040ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 321

محدث فتویٰ

تبصرے