سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(202)ننگے سر پڑھنا افضل ہےیا ٹوپی وغیرہ پہن کر افضل ہے۔ ؟

  • 17224
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1032

سوال

(202)ننگے سر پڑھنا افضل ہےیا ٹوپی وغیرہ پہن کر افضل ہے۔ ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باوجود گھر میں ٹوپی موجود ہونےکے ، ننگے سر پڑھنا افضل ہےیا ٹوپی وغیرہ پہن کرافضل ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نےفرمایا :﴿ خذوا زينتكم عند كل مسجد ﴾ (الاعراف :31) اس آیت سےثابت ہواکہ ٹوپی یاعمامہ وغیرہ کےساتھ نماز پڑھنی  اولی وافضل ہےکیونکہ  ٹوپی اورعمامہ باعث زیب وزبنت ہیں ۔ اورنمازی کواچھی ہئیت میں کھڑا ہونا چاہیے  لیکن اگر کوئی شخص بلا عذر ننگے  سرنماز پڑھ لےتو جائز ہےاورکوئی مضائقہ نہیں کیونکہ مردوں کےلیے نماز میں سرڈھانکنا ضروری نہیں ہےآنحضرت ﷺ فرماتےہیں :

(1)لا يصلى أحدكم فى الثوب الواحد ، ليس على عاتقه شئى ،، (بخارى عن ابى هريرة).(كتاب الصلاة  باب إ ذا صلى فى ثوب واحد 1/95 )

(2) ’’عن أبى سعيد الخدرى قال : دخلت على النبى صلي الله عليه وسلم فرأيته يصلى على حصير يسجد عليه ................ قال :ورأيته يصلى فى ثوب واحد متوشحابه،، (صحيح مسلم) ( كتاب الصلاة فى ثوب واحد وصفة لبسه (519)1/369).

(3)عن  محمد بن المنكدر قال : صلى جابر فى إذارقد عقده من قبل  قفا ه ، وثيابه موضوعة على المشجب ، فقال له قائل : تصلى فى ازار واحد ، فقال : إنما صنعتذلك ليرانى أحمق مثلك ، وأينا كان له ثوبان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحيح بخارى ) ( كتاب الصلاة باب عقد الازار على القفا فى الصلاة 1/ 93 ) .

ان تینوں حدیثوں سےصاف ظاہر ہےکہ نماز میں سرڈھانکنا ضروری ہے ۔ہاں اولیٰ اورافضل یہ ہےکہ کوٹوپی یاعمامہ یارومال سےسرچھپا کرنماز پڑھے۔ پس جولوگ ٹوپی یاعمامہ یارومال ہوتے ہوئےننگے سرنماز پڑھتےہیں ، ان کی نماز بلاشک وشبہ صحیح اوردرست  ہوتی ہے۔کیونکہ کہ آنحضرت ﷺ نےاس بات کےبیان کرنےکےلیے کہ صرف ایک کپڑے ( چادر یاتہبند ) میں بھی نماز ہوجاتی ہے ایک کپڑا میں نماز ادا فرمائی ۔اور ظاہر ہےکہ جب صرف ایک تہمد یا ایک چادر باندھ کرنماز ادا کی جائے گی تویقینا سرکھلا ہوارہےگا ۔لیکن ٹوپی ہوتے ہوئے سستی اورغفلت اور لاپراہی سےبرہنہ سرنماز پڑھنے کی نماز نہیں ڈالتی چاہیے ۔

(محدث دہلی ج: 8ش : 5رجب 1359ھ ؍ستمبر 1940ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 317

محدث فتویٰ

تبصرے