السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتےہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں ۔
عزوہ خندق کےموقع پرآں حضرت ﷺکی نمازیں قضاہوئی تھیں ۔اس کاسبب کیا تھا ؟ آپ نے جہاد کی تیاری کونماز سےافضل سمجھتے ہوئے نمازپرترجیح دی، اورعمداً ان نمازوں کو ان کاوقت گزارنے کےبعد اداکیا؟ یالڑائی کی شدت کی وجہ سے آپ کوان کی بروقت ادائیگی کاموقع ہی نہ مل سکا؟
براہ مہربانی جواب مفصل ومدلل تحریر فرمائیے نیز یہ بھی لکھیے کہ صرف نماز عصر قضاہوئی تھی اور نماز بھی !! والا جرعنداللہ ۔
السائل ۔ محمد خالدمحمدیوسف پٹیل 35پٹیل محلّہ نظام پور پوسٹ بھیمڑی ،ضلع تھانہ مورخہ 20؍رجب 1395ھ مطابق 30؍جولائی 1975ء
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتب سرومغازی کےمطالعہ سےیہ ثابت ہوتاہے۔کہ عزوہ احزاب کےموقع پرخندق تقریبا بیس دن میں تیار ہوئی تھی ۔ اورقریش کامدینہ کامحاصرہ ایک مہینہ کےقریب رہا تھا۔ محاصرین خندق کوعبور نہیں کرسکتےتھے۔ اس لیے ایک طے شدہ اسکیم کے مطابق قریش کےمشہور جزلوں میں سے ایک ایک جنرل ، ایک ایک دن اپنی اپنی باری میں فوج کولے کرلڑتا تھا، جس کی صورت یہ تھی کہ ان کی فوج خندق کےاس پاردورسےمسلمانوں کی فوج پرتیراورپتھر برساتی تھی ، لیکن اس طریق میں کامیابی نہیں ہوئی ،توانہوں نے مسلمانوں پرعام حملہ کرناطےکیا۔ خندق ایک مقام میں اتفاقا کم چوڑی تھی ۔ عرب کےچند مشہور بھادر شہسواروہاں سےاپنے گھوڑوں کو مہمیز لگا کرخندق کےاس پہنچ گئے اورمسلمانوں کومقابلہ ومبارزہ کےلیے آوازدی۔ حضرت علی نےآگے بڑھ کرعمروبن عبدود اورنوفل کوواصل جہنم کیا ۔ ضرار اور جبیر ہ بھاگ گئے۔ پھر کسی کوخندق عبور کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔
حملہ کایہ دن بہت سخت تھا، دن بھر لڑائی جاری رہی ، کفار ہرطرف سےمسلمانوں پرتیروں کامینہ برسارہے تھے اورایک دم کےلیے یہ بارش تھمنے نہ پاتی تھی ، ان حملوں اورعام لڑائی کےمختلف دنوں میں کسی دن صرف نماز عصر قضا ہوئی جس کا ذکرصحیحین (بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق وهى الاحزاب 5/48/49 وكتاب الخوف باب صلاة عند مناهضة الحصون ولقاء لعدد (1/227 ) ومسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى هى صلاة العصر (631)1/438)كی اس حدیث میں ہے:
’’ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الخَنْدَقِ، فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا صَلَّيْتُ العَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ» قَالَ: فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى المَغْرِبَ بَعْدَهَا.
اورکسی دن دونماز یں ظہراورعصر کی قضا ہوئیں جس کاذکر مؤطا کی اس روایت میں ہے:’’مالك عن يحي بن سعيد عن سعيد بن المسيب (مرسلا) أنه قال : ماصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر يوم الخندق حتى غابت الشمس ،، اوركسى دن تین نمازیں ظہر ،عصر ، مغرب کی قضا ہوئیں ۔جن کا ذکر حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں ہے: ’’ قَالَ: حُبِسْنَا يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَنِ الصَّلَوَاتِ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ هَوِيًّا(من الليل)، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ فِي الْقِتَالِ مَا نَزَلَ، فَلَمَّا كُفِينَا الْقِتَالَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَقَامَ الظُّهْرَ، فَصَلَّاهَا كَمَا يُصَلِّيهَا فِي وَقْتِهَا، ثُمَّ أَقَامَ الْعَصْرَ فَصَلَّاهَا كَمَا يُصَلِّيهَا فِي وَقْتِهَا، ثُمَّ أَقَامَ الْمَغْرِبَ فَصَلَّاهَا كَمَا يُصَلِّيهَا فِي وَقْتِهَا،، وذلك قبل ينزل فى صلاة الخوف :فرجالاأوركبانا’’ والطحاوى والنسائى والطيالسى وعبدالرزاق وابن أبى شيبة والبيهقى وعبدبن حميد والدارمى والشافعى وأبويعلى الموصلى.
اورکسی دن مذکورہ تین نمازیں قضا ہونے کےساتھ عشاء کی نماز وقت معتاد سےمؤخرہوگئی ۔اس کاذکر عبداللہ بن مسعود کی حدیث میں ہے۔
قال الحافظ: ’’ وَفِي حَدِيث بن مَسْعُودٍ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ وَالنَّسَائِيِّ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قال الحافظ وَفِي قَوْلِهِ: أَرْبَعٍ تَجَوُّزٌ لِأَنَّ الْعِشَاءَ لَمْ تَكُنْ فَاتَتْ ، ، وقال العينى : ’’ بل فاتت عن وقتها المعهود ،، قال النووى : ’’ كانت واقعة الخندق أياما، فكان ذلك فى أوقات مختلفة فى تلك الأيام، يعنى فلا مخالفة بين تلك الروايات ،، قال الحافظ : ’’ ويقرب هذا الجمع أن روايتى أبى سعيد وابن مسعود ليس فيها تعرض بقصة عمر، بل فيهما أن قضاءه للصلاة وقع بعد خروج وقت المغرب .، ،
آں حضرت ﷺ نےیہ نمازیں ان کےاوقات سےعمداً موخر کی تھیں ،اور قصدا مقررہ اوقات گزرنے کےبعد ادا فرمائی تھیں ،لیکن اس کاسبب یہ نہیں تھاکہ جہاد کی تیاری کونماز سےافضل سمجھ کرنماز پرجہاد کوترجیح دے، بلکہ اسکاسبب یہ تھا کہ نماز میں استقبال قبلہ اوررکوع وسجود وسکون اورزمین پرپیادہ پاہونا ضروری ہےاوربغیر ان ارکان وشرائط کےنماز ہونہیں سکتی جیسا کہ ارشاد ہے:’’ حافظوا على الصلواة والصلوة الوسطى وقوموا لله قانتين ،،. اور لڑائی کےان سخت دنوں میں نماز کامقررہ اوقات میں شرائط وارکان کےساتھ ادا کرنا ممکن نہیں تھا ، اور ابھی سورہ بقرہ کی آیت :’’ فإن خفتم فرجالا ً أو ركباناً ،، جس میں ایسے نازک وقت میں پیادہ، کھڑے اورچلنے کی حالت میں سواری پراشارہ کےساتھ رکوع اورسجدہ کرنے اورانفرادانماز پڑھنے کی اجازت مذکورہےنازل نہیں ہوئی تھی ،جیسا کہ یہ طحاوی ،الہمام ، ابن القیم، حافظ ابن حجر اورعام شافعیہ وجمہور کی تحقیق اورمختار ہے۔اور یا اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ ان نمازوں کےاوقات میں حملہ اوردفاع کاسلسلہ برابر قائم رہا کیا اورلڑائی کی شدت اورقتال میں مشغولیت کی وجہ سے نمازیں قصداً مؤخر کی گئیں جیسا کہ یہ امام بخاری اورصاحب ہدایہ وغیرہ کا خیال ہے۔ ہمارے نزدیک راجح پہلا قول ہے۔ اس تاخیرکی وجہ یہ ہےکہ صلاۃ خوف کی بت سورہ بقرہ کی آیت :’’ فإن خقتم فرجالاً أوركباناً،، ابهى نازل نہیں ہوئی تھی،بنابریں آپ ان نمازوں کوان کےاوقات سےمؤخرکرنے میں معذور تھے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ نےجہاد کونماز سےافضل سمجھا اورجہاد کونماز پرترجیح دی۔جس طرنماز کےاوقات مقرر ہیں اسی طرح اس کسی ادائیگی کی ایک خاص کیفیت بھی فرض ومعین ہے، اورخندق کےموقع پرمقررہ اوقات کی رعایت اورکیف مااتفق نماز پڑہ لینے کی رخصت واجازت نہیں آئی تھی ، اس لیے آپ نے عمدامؤخرکردیا کہ فوت شدہ وقت کی تلافی بعد میں قضار کےذریعہ ہوسکتی تھی۔لیکن فوت شدہ ارکان وشرائط کےتدارک کی کوئی صورت نہ تھی اس لیے مؤخر کرنے کےسواچارہ نہیں تھا۔سفر میں ابتداء قصر اورجمع کی اجازت بعد میں مطلقا قصر اورجمع تقدیم وتاخیر حقیقی کی اجازت آگئی ۔یعنی : سفر شرعی میں عصر کوظہر کےوقت میں اور عشاء کومغرب کےوقت میں اور ظہر کواس کےمقررہ وقت ، اسی طرح مغرب کواس کےمعینہ وقت سےمؤخر کرکےظہرکوعصر کےوقت میں اور مغرب کوعشاء کےوقت میں پڑھنے کی رخصت واجازت دےدی گئی ۔ هذا ماظهرلى والعلم عندالله تعالى
دستخط عبيدالله رحمانى مباركپوری 7؍ شعبان 1395ھ (ترجمان دہلی 15؍اکتوبر1975ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب