سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(152)شروع جماعت میں سنن صبح کا پڑھنا روا ہے یا نہیں ؟

  • 17174
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1114

سوال

(152)شروع جماعت میں سنن صبح کا پڑھنا روا ہے یا نہیں ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شروع جماعت میں سنن صبح کاپڑھنا روا ہے یا نہیں  ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صبح کی نماز یاکسی اوروقت کی فرض باجماعت شروع ہوجانے کی حالت میں فجر کی سنت یاکوئی اورسنت  ،پڑھنی روا اورجائز نہیں ہے ، نہ صف کےقریب ،نہ صف سےدور، مسجد میں کھمبوں کےپیچھے،نہ مسجد سےباہر مسجد کےدروازہ کےپاس’’إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ مرفوع اخرجه مسلم والأربعة عن ابى هريرة،وأخرجه ابن حبان بلفظ :  إذا أخذا المؤذن فى الإقامة ، وأحمدبلفظ : فلا صلوة إلا التى أقميت وهو رخص وزاد بن عون بسند حسن : قيل يا  رسول الله ولا ركعتى الفجر ؟ ولا ركعتى الفجر ،وأمازيادة  : إلا ركعتى الصبح ، فى الحديث فقال ، البيهقي: هذا الزيادة لا أصل لها،وعن ابن سرجس : ہے’’قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي جَانِبِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَا فُلَانُ بِأَيِّ الصَّلَاتَيْنِ اعْتَدَدْتَ؟ أَبِصَلَاتِكَ وَحْدَكَ، أَمْ بِصَلَاتِكَ مَعَنَا،، انتهى . والله اعلم بالصواب .

کبتہ عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی

٭ ظہر کی اذان  ونماز کےوقت کےبارے میں آپ کےیہاں کےعلماء کرام کامذکورہ اختلاف  اوراس کی نوعیت پراطلاع پاکر حیرت وتعجب کےساتھ دکھ بھی ہوا۔اللہ تعالیٰ  ہمارے حال پررحم فرمائے ۔

27 ؍ رمضان 1391ھ (16؍نومبر 1971ء ) کوضحوہ کبریٰ (بمقابلہ  ضحوہ  صغری یعنی اشراق  ) کاوقت گیارہ تین تھا ۔ اس میں چاشت کی نماز چاریاچھ یا 8؍ رکعت پڑھی جاتی ہےاور نمازظہر واذان کاوقت گیارہ 43یا 45 تھا۔اس کامطلب یہ ہوا کہ ٹھیک دوپہر(نصف النہار) یعنی : آفتاب کےخط نصف النہار میں ہونے کاتحقق ، جس میں کوئی نماز پڑھنی جائز نہیں ہےگیارہ 30 یا دوتین منٹ اورآگے ہوا۔ اس کےبعد گیارہ35 پریا دوتین منٹ اوربعد زوال شمس شروع ہوگیا ،اور گیارہ 41  پرخوب اچھی طرح زوال کا تحقیق اوروقوع ہوگیا، اورجب زوال شمس عن خط نصف النہار کاتحقق  ہوگیا ،تو ظہر کی اذان ونماز کاوقت بلاشبہ آگیا،کیوں کہ ظہر کی نماز  واذان کاوقت شرعاً بزوال شمس عن نصف النہار کےتحقق سےہی ہوتاہے۔اور زوال شمس یانصف النہاروغیرہ کےاوقات ریلوے مروجہ ٹائم سےجاڑے اورگرمی میں قرب اوربعد شمس یامیل شمس کےاعتبار سےمختلف ہوتے رہتےہیں ۔ یہ محض جاہلانہ بات ہےکہ زوال ہمیشہ ریلوے کےٹائم سے12؍بجے کےبعدہی ہوتاہےیاہمیشہ پونے 12بجےہوتا ہے۔لیکن نماز کسی حال میں بھی سوابارہ بجے سےپہلے نہیں ہونی چاہیے۔بہرحال جب زوال شمس کےتحقق کاعلم(دھوپ  گھڑی سےیامروجہ گھڑیوں سےجن کےٹائم ریڈیوسے ملائے ہوتےہیں ) ہوجائے،توظہرکی اذان بلاشبہ دی جاسکتی ہےاوراگڑ سب مصلی حاضرہوں اورکسی کےانتظار کی ضرورت نہ ہو،تودوچاریاچاررکعت سنت پڑھ کرفورافرض پڑھی جاسکتی ہے، اوراگر انتظار کی ضرورت ہو،حسب حال ضرورت دس پندرہ منٹ کےوقفہ سےجماعت شروع کرنامناسب ہے۔ ان مولوی صاحبان کودھوپ گھڑی بناکر دکھلادیجیے ،تاکہ ان کی غلطی ان پرواضح ہوجائے،یہ دھوپ گھڑی ہمیشہ کادے گی شرح وقایہ شروع کتاب الصلاۃ : 156؍157؍158 میں دھوپ گھڑی بنانے کاطریقہ مرقوم ہے،بغوردیکھ کراسی کی مطابق بنالیں ،یا پھر’’جدیدآسان اٹلس اردو۔ انڈین بک ڈپوبہادرگڑھ روڑ،ڈپٹی گنج دہلی 6 سے منگوالیں قیمت للعہ ہے۔                                                                                                                 

عبیداللہ رحمانی  7؍ذوالقعدہ 1391ھ ؍ 26دسمبر1971ء (الفلاح بھیکم پورگوندہ علامہ عبیداللہ رحمانی نمبر )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 240

محدث فتویٰ

تبصرے