السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عمل ایمان کا حصہ ہے؟ کیا اعتقادات پر ایمان لانے والا عمل نہ کرنے سے اسلام سے خارج تصور ہوگا؟
دعاگو۔
نذیر احمد صغیر ایجباسٹن برمنگھم نمبر۱۶
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایمان اور کفر کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔ خصوصاً کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینا’ اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنا’ یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور اس میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے اور پھر ایمان کی تعریف’ ایمان اور عمل کا تعلق اور ایمان کے ساتھ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ’ یہ مسائل خالص علمی ہیں اور بسا اوقات ایک عام آدمی جسے قرآن و حدیث یا ائمہ دین کے اجتہادات کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا’ وہ جب ان مباحث میں پڑتا ہے تو اس کا ذہن کافی الجھ جاتا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے بنیادی طور پر قرآن و حدیث کا مطالعہ ضروری ہے ۔ خصوصاً ایمانیات کی بحث کے بارے میں بڑی دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ اس موضوع کی پیچید گیوں سے بچتے ہوئے عام فہم انداز سے اس مسئلے کی وضاحت کروں تاکہ ایک عام مسلمان بھی اس سے فائدہ حاصل کرسکے۔اس موضوع پر اب تک قرآن و حدیث کی روشنی میں جتنا کچھ کام کیا گیا اس کے نتیجے میں درج ذیل آراء یا نظریئے سامنے آئے ہیں۔
۱۔ کلمہ پڑھنے کے بعد جو شخص بھی اہل قبلہ میں شامل ہوگیا’ اسے کسی شکل میں بھی کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
۲۔ کلمہ پڑھنے کے بعد جس نے کبیرہ گناہ کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔
۳۔ کلمہ پڑھنے کے بعد جس نے کبیرہ گناہ کیا وہ دائرہ اسلام سے تو خارج ہوجائے گا لیکن کافر بھی نہیں ہوگا بلکہ کفر اور اسلام کے درمیانی درجہ پر رہے گا۔
۴۔ جس نے ایمان کے بعد اعمال کا کھلا انکار کیا اور اسلام میں محرمات کے وجود سے بھی انکار کردیا وہ اسلام سے خارج ہے۔
۵۔ بعض وہ اعمال جن کے تارک پر واضح طور پر کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے’ ان کے ارتکاب سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گا۔
۶۔ اعمال نہ کرنے سے جہنم میں جائے گا لیکن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اگر اس کا عقیدہ درست ہوا یعنی شرک کا ارتکاب نہ کیا تو عذاب کے بعد وہ جنت میں داخل ہوگا۔قبل اس کے کہ مندرجہ بالا نکات پر تفصیل سے بحث کی جائے ایمان کی تعریف کے بارے میں بیان کرنا ضروری ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ایمان اور عمل کا ایک ساتھ ذکر آیا ہے اور اس مفہوم کی کثیر آیات آئی ہیں کہ ایمان کے لئے عمل شرط ہے اور عمل ایمان کا حصہ ہے ۔ ارشاد ربانی ہے۔(ان الذین امنو و عملوا الصالحت کانت لھم جنت الفردوس نزلا) (الکھف:۱۰۸)
حدیث میں اسلام کے بنیادی ارکان کا جہاں ذکر آیا وہاں عقیدے کے ساتھ اعمال کا بھی بیان آیا ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے: (( بنی الاسلام علی خمس شھادة ان لا اله الا اللہ وان محمدا رسول اللہ و اقام الصلوة و ایتاءالزکوة و الحج و صوم رمضان)( بخاری کتاب الایمان رقم الحدیث ۸’ ترمذی کتاب الایمان رقم الحدیث ۲۷۳۹)
یہاں شہادتیں کے اقرار کے بعد جن کا تعلق عقائد سے ہے اعمال نماز’ زکوۃ حج اور روزے کا ذکر ہے۔ قرآن و حدیث میں عقائد و اعمال کے بیان میں یہ اسلوب ان دونوں کے باہمی ربط کی اہمیت کافی حد تک واضح کردیتا ہے اس لئے کہاگیا کہ ایمان نام ہے دو چیزوں کا یعنی قول (اقرار) اور عمل کا۔ قول سے مراد زبان سے اللہ تعالیٰ کی ذات (مع جملہ صفات) کا اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا (ان تمام چیزوں سمیت جنہیں لے کر آپ آئے اقرار کرنا۔ اس طرح ایمان کی تعریف یہ ہوگی۔
دل سے تصدیق ’ زبان سے اقرار اور اعضاو جوارح سے عمل۔یہ وہ متفق علیہ تعریف ہے جس پر جمہور ائمہ حدیث و سنت کا اتفاق ہے ۔ کچھ لوگوں نے ایمان صرف تصدیق اور اقرار کو کہا ہے۔ بعض کے نزدیک صرف اقرار کانام ایمان ہے۔ لیکن یہ دونوں تعریفیں نامکمل ہیں اور صحیح بھی نہیں۔
اب ایمان کی پہلی جامع تعریف کی روشنی میں عمل کی حیثیت کی تعین میں پھر دو رائے ہیں۔ پہلی یہ کہ عمل ایمان کا حصہ ہے اور عمل نہ ہوا تو ایمان نہیں ہوگا یعنی عمل ایمان کے وجود کےلئے شرط ہے۔ دوسری رائے ہے کہ عمل ایمان کی صحت یا وجود کےلئے ضروری نہیں بلکہ تکمیل کے لئے ضروری ہے یعنی عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوگا۔
ظاہر ہے جہاں تک دل کا تعلق ہے تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے کہ کس کے دل میں کیا ہے؟ الہٰذا تصدیق کے بارے میں کوئی دوسرا آدمی کوئی حکم نہیں لگا سکتا۔ اس لئے زبان کا اقرار ہی وہ چیز ہے جس کے بعد ایک آدمی کو مسلمان کہا جائے گا اور اس پر اسلامی قوانین جاری ہوں گے۔ ہاں اعمال کے ذریعے بعض اوقات اس کے دل کی تصدیق کی کیفیت کا علم ہو سکتا ہے اور جن اعمال کے ارتکاب پر اس کی تصدیق اور اقرار دونوں کالعدم ہوجاتے ہیں۔ اس پر کچھ تفصیل سے ہم بعد میں لکھیں گے۔
اور جب کسی پر مطلق ایمان کا لفظ استعمال ہو گا تو وہ اس کے اقرار کی بنیاد پر ہوگا اور جب کسی پر مطلق کفر کا لفظ استعمال ہو گا تو وہ اس سے کسی کافر جیسا عمل سرزد ہونے کی وجہ سے ہوگا اور جب کسی عمل کے ترک کی وجہ سے ایمان کی نفی کی جاتی ہے تو اس سے مراد کمال ایمان کی نفی ہے نہ کہ ایمان کی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمل ایمان کا حصہ ہے اور تکمیل ایمان کی شرط ہے کہ نفس ایمان کی’ رہی یہ بات کہ اعتقادات پر ایمان لانے والا یعنی زبان سے عقائد اسلامی کا اقرار کرنے والا کچھ برے اعمال کا ارتکاب کرنے سے یا کچھ فرائض کے ترک کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہے یا نہیں’ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔ لہٰذا ہم تفصیل سے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور شروع میں بیان کی گئی چھ مختلف آراء کی روشنی میں اس پر بحث کرتے ہیں۔
پہلی رائے:
پہلی رائے میں یہ کہا گیا ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ پڑھتا ہے اور اسلام پر چلنے کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے کیونکہ شہادتین کے اقرار کےبعد وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے۔ لیکن یہ رائے اس لئے درست نہیں کہ منافقین رسول اللہﷺ کے زمانے میں شہادتین کے اقرار کے باوجود یہودو نصاریٰ سے بھی خطرناک کفار قرار دیئے گئے۔ حالانکہ وہ بظاہر اہل قبلہ میں سے بھی تھے مگر اس کے باوجود انہیں کافر قرار دیاگیا اورپھر اس بارے میں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں کہ جو اسلامی فرائض کا انکار کرے اور محرمات کو حلال کرے وہ دائرہ اسلام سے خارف ہے’ بے شک وہ کتنے اقرار کیوں نہ کرے۔ لہٰذا پہلی رائے درست نہیں ہے۔
دوسری رائے؟
دوسری رائےمیں جس نےکلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد کوئی کبیرہ گناہ کیا’ وہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ ان کی دلیل آیات و احادیث ہیں۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴿٤٤﴾...المائدة
‘‘ جنہوں نے اللہ کے نازل کردہ قانون کے ذریعہ فیصلہ نہ کیا’ وہ کافر ہیں۔’’
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سباب المسلم فسق و قتاله کفر (بخاری رقم الحدیث ۴۸’ ترمذي رقم الحدیث ۲۰۶۶۔ ابن ماجہ ۶۹۔ فتح الباري ج ۱۴ کتاب الفتن رقم الحدیث’۷۰۷۔)
‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔’’
آپﷺ نے فرمایا جس نے کسی کو کافر کہہ کر پکارا’ ان میں سے ایک ضرور کافر ہوگا۔
یہ اور اس طرح کی اور بھی متعدد روایات ہیں جن میں کسی عمل کےترک کرنے یا گناہ کے ارتکاب پر کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم
ہوتا ہے کہ جس نے بھی گناہ کبیرہ کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ لیکن یہ رائے بھی کلی طور پر درست قرار نہیں دی جاسکتی کہ محض لفظ کفر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ اسلام سے نکل گیا ۔بلکہ کفر کا لفظ بعض حالات میں صرف لغوی معنوں میں یا مجازی طور ہر استعمال کیا جاتا ہے بعض دفعہ اس سے مراد کفر عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کافر ہوجاتا ہے تو وہ مرتد ہوگیا اور مرتد کی سزا معلوم ہے۔مثلاً مسلمان سے قتال کو کفر کہا گیا جب کہ قرآن میں یہ وضاحت ہےکہ قتل کے قصاص کے طور پر قتل ہو گا۔ یہاں قصاص کےبیان میں﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى...١٧٨﴾...البقرة کے الفاظ آئے ہیں کہ اے ایمان والو! تمہارے لئے قصاص فرض ہے تو قتل کے بعد بھی انہیں اہل ایمان کہاگیا۔
تیسری رائے:
یہ کہ اسلام سے تو خارج ہوجاتا ہے لیکن کافر بھی نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہےکہ چونکہ اس نے ایساکام کیا جس نے اسے اسلام کے دائرے سے تو نکال دیا لیکن وہ کافر بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ لہٰذا وہ مسلمان ہے نہ کافر لیکن وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ یہ رائے درست نہیں ہے کیونکہ اقرار کی وجہ سے وہ اگر کفر میں داخل نہیں ہوا تو پھر اس پر ہم اس پر ہم ہمیشہ جہنم میں رہنے کا حکم نہیں لگاسکتے۔
چوتھی رائے:
جس نے اقرار کے بعد فرائض یا دوسرے اعمال کا کھلا انکار کیا۔ نہ حرام کو حرام سمجھا اور نہ حلال کو حلال بلکہ ان سب چیزوں کو تسلیم کرنے سے اعلانیہ انکار کردیا تو ایسے شخص کےدائرہ اسلام سے خارج ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔
پانچویں رائے:
وہ اعمال جن کے کرنے پر کفر کا لفظ آیا ہے یا کسی فرض کے ترک کرنے پر جو کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے صرف انہی اعمال کے ارتکاب یا بعض کے ترک پر کفر کا فتویٰ لگایا جاسکتاہے۔ جیسے یہ آیت ہے﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴿٤٤﴾...المائدة جس نے اللہ کےنازل کردہ قانون سے فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں۔
ایک حدیث ہے۔
بین العبد و بین الکفر ترک الصلوة (مسلم۲/ ۷۰’ ۷۱ ابو عوانہ ۶۱/۱ ’ ابو داؤد ۶۷۸ ؛’ ترمذی ۲۶۲۰’ ابن ماجہ1078)
‘‘ ( مسلمان) بندے اور کافر کے درمیان ترک نماز ہے’’ ( یعنی جس نے نماز ترک کی وہ کفر میں داخل ہوجائے گا)
ایک دوسری حدیث ہے کوئی شخص بھی اس وقت مومن نہیں ہوتا جب وہ چوری کرتا ہے یا زنا کرتا یا شراب پیتا ہے۔ بظاہر یہ رائے کافی مدلل ہے اس لئے چھٹی رائے کے بیان کا جائزہ لیتے ہیں۔
چھٹی رائے:
اگر شرک نہیں کیا تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہےگا بلکہ کبھی نہ کبھی اس کی نجات ضرور ہوگی۔ کیونکہ قرآن میں واضح ارشاد ہے کہ
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ... ١١٦﴾...النساء
‘‘ اللہ شرک کوکبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کرے گا۔’’
ظاہر ہے وہ کافر نہیں ہوسکتا ورنہ اس کے لئے معافی نہیں ہوسکتی۔
جائزہ:
پانچویں اور چھٹی رائے میں یہ فرق ہے کہ چھٹی رائےمیں سوائے شرک کے اور کسی گناہ سے اس سے قیامت کےدن کفار جیسا سلوک نہیں ہوگا جبکہ پانچویں رائے میں اور تو کسی گناہ سے کافر نہیں ہوتا لیکن جن کاموں کے کرنے یا ترک پر کفر کا لفظ قرآن یا سنت میں آیا ہے ان سے کافر ہو سکتا ہے۔
ان جب ہم ان آیات یا احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جن میں کفر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو ہم مطلق اس لئے وہاں کفر کا حکم نہیں لگاتے کہ وہاں کفر کا حقیقی معنی قرار دینے سے بعض دوسری آیات سے تصادم ہوتا ہے جیسا کہ ایک طرف تو قتال مسلم کو کفر کہا گیا اور دوسری طرف مسلمانوں میں باہمی قتال کے موقع پر صلح کرانے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سے ظاہر ہےکہ دونوں میں سے ایک جگہ تو ہمیں تاویل کرنا پڑے گی کہ وہاں کفر کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے ۔ اس لئے ہم مطلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ جہاں بھی کفر کا لفظ آیا وہاں مراد حقیقی کفر ہے بلکہ اس کے لئے مزید شواہد تلاش کرنا ہوں گے۔
تمام دلائل کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر کے مختلف درجات ہیں جس طرح ایمان کے درجے ہیں۔ اس لئے کسی جگہ تو کفر انکار کےمعنی میں استعمال کیا گیا اور کسی جگہ کفر سے مراد کفردون کفر ہے ( یعنی وہ کفر نہیں جس سے دائرہ اسلام میں سے نکل جائے) بلکہ نچلے درجے کا کفر۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجازی معنی میں کفر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
کفر کی تقسیم:
میرے خیال میں اگر ہم کفر کی ایک تقسیم کریں تو اس مسئلے کو سمجھنے میں کافی آسانی پیدا ہو جائے گی وہ اس طرح کہ کفر کی دو قسمیں ہیں: کفر اعتقادی اورکفر عملی اگر توعقیدہ کسی حرام کو حلال سمجھایا کسی حکم کو بے کار اور فضول جانا تو یہ کفر اعتقادی ہے ۔ اس کا اعتقاد یہ ہے کہ نماز اسلام میں نہیں’ اس کا پڑھنا فضول ہے ۔ اس کا اعتقاد ہےکہ سود حرام نہیں۔ شراب حلال یا زنا جائز ہے تو یہ کفر اعتقادی ہے جس کے بعد وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا جیسا کہ چوتھی رائے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں جو آیا ہے کہ ( ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون) ( المائدۃ:44 ) جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے ذریعے فیصلے نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ اب یہاں ہم بغیر تفصیل کے کفر کا فتویٰ نہیں لگاسکتے۔ کیونکہ یہاں حاکم کے احوال کا خیال رکھنا ہوگا ۔ اگر کوئی حکمران یا جج احکام الٰہی کو غیر واجب سمجھتا ہے یا قوانین الٰہی کو فرسودہ خیال کرتے ہوئے انہیں نافذ نہیں کرتا یا حقیر سمجھ کر ان کے ذریعے فیصلے نہیں کرتا تو یہ کفر اعتقادی ہے اور اسے ہم کفر اکبر کہہ سکتے ہیں اور ایسا حکمران دائرہ اسلام سے بہرحال خارج ہے اور اگر وہ ان قوانین کے وجوب کا قائل ہے اور عدم نفاذ کو اپنی کوتاہئ سمجھتا ہے اور اس پر اللہ کی گرفت کا بھی اقرار کرتا ہے تو یہ نافرمان ہے۔ ایسے شخص کے لئے جب کفر کا لفظ استعمال ہوگا تو وہ مجازی ہوگا اور ہم اسے کفر عملی کہیں گے نہ کہ کفر اعتقادی۔
خلاصہ کلام:
اب تک کی بحث سے یہ تو واضح ہو گیا کہ کفر اعتقادی کا مرتکب تو دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن باقی کاموں میں اگر اللہ نے چاہا تو اس کی بخشش ہوسکتی ہے۔ اگر بخشش نہ بھی ہوئی تو عذاب بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ واضح ارشاد ہے کہ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ...١١٦﴾...النساء لیکن یہاں ان دلائل کو نظر انداز کرنا بھی آسان نہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض اعمال کے ترک سے کفر لازم آتا ہے خصوصاً نماز اور زکٰوۃ کے بارے میں۔ جن اعمال پر کفر کا لفظ استعمال کیاگیا ہے۔ ان کے متعلق تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کفر مجازی مراد ہے یا کفر عمل مراد ہے لیکن صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے بارے میں یہ کہنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ جیسا کہ پانچویں رائے کے ضمن میں ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ اس لئے ہم محتاط سے محتاط الفاظ میں بھی یہ کہیں گے کہ تارک نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ معاملہ کفار والا ہی ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ آیت مضبوط دلیل ہے۔
﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ...٥﴾...التوبة
‘‘ اگر وہ کفر سے تائب ہوکر اسلام لے آئیں اورنماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کےلئے راستہ چھوڑدو۔ یعنی ان سے قتال نہ کرو۔’’
اس آیت کی تائید بخاری شریف کی یہ حدیث بھی کرتی ہے جس میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدواان لا اله الا اللہ وان محمد رسول اللہ ویقیمواالصلوة ویؤتوا الزکوة فاذا فعلواذالک عصموا منی دمائھم واموالھم إلا بحق الإسلام و حسابھم علی اللہ۔۔ (ترمذی رقم الحدیث ۲۷۴۶ )
‘‘ مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم ہے جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اورزکوٰۃ ادا کریں۔ جب یہ کریں تو ان کے خون اور مال محفوظ ہوگئے سوائے اسلامی حق کے ( یعنی کوئی ایسا جرم کریں جس کی سزا قتل ہو) اور ان کا حساب اللہ کےپاس ہے۔’’
اس آیت اور حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کا معاملہ دوسرے احکام سے قدرے مختلف ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مانعین زکوٰۃ سے اسی بنیاد پر لڑائی جائز قرار دی تھی اور نماز اور زکوٰۃ دونوں کے بارے میں یکساں موقف اختیار کیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا’ لیکن تمام اعمال ایمان کی کلی شکل نہیں۔ بعض اعمال کے چھوڑنے سے وہ دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوگا لیکن اسے جہنم کا عذاب ہوسکتا ہے اور بعض اعمال جیسے شرک کا ارتکاب ہے ان سے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور منکر فرائض یا منکر حلال و حرام دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ نماز زکوٰۃ کے تارک کا مسئلہ کافی نازک ہے لیکن ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ وہ کفر کا کام کرتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب