سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(501)بوہروں کا یہ عمل غیر اسلامی ہے

  • 17101
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1058

سوال

(501)بوہروں کا یہ عمل غیر اسلامی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تمام عورتیں اپنے عالم اور پیر کے ہاتھ اور پاؤں چومتی ہیں۔ کیا اسلام میں عورتوں کے لیے کسی غیر محرم۔ بڑے عالم کے ہاتھ اور پاؤں کو چھونا (یا چومنا) جائز ہے؟ یہ عمل صرف پیر صاحب کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے ہر فرد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱)         آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ بوہرہ عورتیں اپنے ٖپیر پیر کے خاندان کے ہر فرد کے ہاتھ اور پاؤں چومتی ہیں یہ کام جائز نہیں۔ یہ کام نبیﷺ نے کیا ہے نہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے کیا ہے کیونیہ اس میں مخلوق کی تعظیم میں غلو پایا جاتا ہے جو شرک تک پہنچانے کا سبب بن سکتاہے۔

(۲)       مرد کے لئے جائز نہیں کہ کسی نامحرم عورت سے مصافحہ کرے یا اس کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ کیونکہ اس میں فتنہ پایا جاتا ہے اور وہ اس سے بھی قبیح حرکت یعنی زنا یا ا س کے ذرائع تک پہنچنے کا باعث بن سکتاہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’جناب رسول اللہﷺ مہاجر خواتین کے ایمان کی جانچ اس آیت سے کرتے تھے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙفَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾...الممتحنة

’’اے نبی! جب تیرے پاس مومن عورتیں (اس شرط پر) بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گی‘ چوری اور بدکاری نہیں کریں گی‘ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی‘ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی اور نیکی کے کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی‘ تو ان سے بیعت لے لیجئے اور ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دعا کیجئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے ولا نہایت رحم کرنے ولا ہے۔‘‘

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’جو مومن خاتون ان شروط کا اقرار کرلیتی‘ رسول اللہﷺ اسے زبانی کہہ دیتے:

(قَدْ بَایَعْتُکِ کَلاَماً، وَلاَ وَالله مَا مَسَّتُ یَدُه یَدَ امْرَأَة قَطُّ فِي الْمُبَایَعَة مَا یُبَایِعُھُنَّ إلاَّ بِقَوْلِه: قَدْ بَایَعْتُکِ عَلَی ذَالِکِ)

’’میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے۔ اللہ کی قسم‘ بیعت کے دوران کبھی رسول اللہa کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا۔ آپﷺ یہ فرما کر ان سے بیعت لے لیت تھے: ’’میں نے تجھ سے ان شرطوں پر بیعت لے لی ہے۔‘‘(مسند احمد ج:۲‘ ص:۱۶۳‘ ج:۳‘ ص:۱۱۳‘ ج:۴‘ ل:۱۸۲‘ ص:۹۱‘ ۲۵۱‘ ۳۲۲‘۔ صحیح مسلم مع نووي ج:۱۲‘ ض:۲۰۳۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۱۴۰‘ ۳۵۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۸۳۴۔)

جناب رسول اللہﷺ اپنے رب کی حضور اظہار عجز کرتے ہوئے یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

(یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِى عَلَی دِینِکَ)

’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔‘‘( مسند احمد ج:۲‘ ص:۱۶۸‘ ج:۳‘ ل:۱۱۳‘ ج:۴‘ ل:۱۸۲‘ ص:۹۱‘ ۲۵۱‘ ۲۹۴‘ ۳۰۲‘ ۳۱۵۔ جامع ترمذي حدیث نمبر: ۳۱۴۰‘ ۳۰۲۲‘ ۳۵۸۷۔)

اور اگر روح اور ایمان کا مالک ہونے سے اس شخص کا یہ مطلب ہے کہ اس کا ایمان لانا اس کے مریدوں کے لئے بھی کافی ہے۔ ا سکی وجہ سے انہیں بھی اجروثواب مل جائے گا اور وہ عذاب سے بچ جائیں گے اگرچہ برے اعمال کرتے رہیں اور جرائم اور گناہوں کا ارتکاب کرتے رہیں‘ تو یہ دعویٰ قرآن مجید کی ان آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ...٢٨٦﴾...البقرة

’’اس (جان) کے لئے ہے وہ (اچھا کام) جو اس نے کمایا اور اس پر ہے وہ (برا کام) جو اس نے کیا۔‘‘

نیز ارشاد ہے:

﴿كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴿٢١﴾...الطور

’’ہر شخص اپنے کمائے ہوئے (اعمال) کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے۔‘‘

اور فرمان ہے:

﴿كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ﴿٣٩﴾ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِمِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾...المدثر

’’ہر جان ان (عملوں) کے بدلے رہن (گروی) ہے جو اس نے کمائے‘ مگر دائیں ہاتھ والے۔ جنتوں میں پوچھ رہے ہوں گے مجروں سے۔ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کردیا؟…‘‘

اور فرمایا:

﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا﴿١٢٣﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾...النساء

’’جو شخص بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ کے سوا اپنا کوئی دوست یا مدد گار نہیں پائے گا اور جو نیک عمل کرے گا‘ خوہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ وہ مومن ہو‘ تو ایسے لوگ ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ظلم نہیں کیاجائے گا۔ (یعنی وہ برابر بھی ان کے حق تلفی نہیں کی جائے گی)

مزید فرمایا:

﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴿٣٩﴾...النجم

’’اور اے انسان کے لئے صرف وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ... ١٨﴾...فاطر

’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی کسی کو اپنے (بھاری) بوجھ کی طرف بلائے گی (کہ کوئی تھوڑا سا اس کا بوجھ اٹھا کر اس کی مدد کرے) تو اس (بوجھ) میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ چاہے (جسے بلایا گیا ہے وہ) قریب ترین رشتہ دار ہی کیوںنہ ہو۔‘‘

اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص کو صرف اپنے اعمال کابدلہ ملے گا‘ خواہ وہ اچھا ہو یا برا نیز صحیح حدیث میں وارد ہے کہ جب نبی کریمﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی:

﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾...الشعراء

’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیے‘‘

تو رسول اللہﷺکھڑے ہوئے اور فرمایا:

(یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ۔ أَوْ کَلِمَة نَحُوَھَا۔ اشْتَرُو أَنْفُسَکُمْ لاَ أُغنِى عَنْکُمْ مِنَ الله شَیْئاً، یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لاَ أُغْنِى مِنَ الله شَیْئاً، یَا صَفِیَّة عَمَّة رَسُولِ الله لاَ أُغْنِى عَنْکَ مِنَ الله شَیْئاً، یَافَاطِمَة بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنى مِنْ مَالِى مَاشِئْتِ لاَ أُغْنِى عَنْکِ مِنَ الله شَیْئاً)

’’اے جماعت قریش! اپنی جانوں کو خرید لو (ایمان قبول کرکے جان بچالو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آؤںگا اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے حضور آپ کے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے محمدﷺکی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو چاہے مانگ لے‘ میں اللہ کے حضور تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔‘‘( صحیح بخاري جدیث نمبر: ۴۷۷۰۔ مسند دارمی ج:۲‘ ص:۳۰۵۔)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے