سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

  • 1701
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1322

سوال

(245) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے اگر کوئی انسان مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یا خارج ہوتے وقت یا گھر داخل ہوتے وقت یا خارج ہوتے وقت بسا اوقات ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ لیتا ہے اب فرض نماز کے بعد بسا اوقات ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہو جائے گا ۔

(۲) صاحب صلاۃ الرسول نے فرضی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی احادیث ذکر کرتے ہوئے جواز ثابت کیا ہے لکھتے ہیں : ’’فرضی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا درست ہے‘‘ ۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:

«مَا مِنْ عَبْدٍ بَسَطَ کَفَّيْهِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوةٍ ثُمَّ يَقُوْلُ اَللّٰهُمَّ اِلٰهِی وَاِلٰهَ اِبْرَاهِيْمَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَاِلٰهَ جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ وَاِسْرَافِيْلَ الخ»عمل اليوم والليلة لابن سنى

حضرت عامر کہتے ہیں « صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ الْفَجْرَ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَدَعَا…»(1)؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) بات اگر مگر کی نہیں فی الواقع فرضی نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے والے مسجد اور گھر میں دخول وخروج کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں ۔ اور جو ان مواقع پر ہاتھ نہ اٹھائے اس پر نکیر کرتے ہیں ۔ جیسا کہ فرضوں کے بعد ان کا معمول ہے پھر جواز کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کام کرنے میں ثواب نہیں اور نہ کرنے میں گناہ نہیں تو جس مسئلہ کی حیثیت یہ ہے اس کو طول دینے میں فائدہ ؟

(۲) بحوالہ فتاویٰ نذیریہ آپ نے دو روایتیں لکھی ہیں جن میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے تو اس سلسلہ میں گذارش ہے کہ یہ دونوں روایتیں نیز اس مضمون کی دیگر روایات ثابت ہی نہیں اس لیے ان سے استدلال کرنا بے کار ہے تھوڑی سی زحمت گوارا فرما کر فتاویٰ نذیریہ کا یہ مقام پڑھ ڈالیے ان شاء اللہ بہت نفع ہو گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1)فتاوی نذیریہ بحوالہ ابن ابی شیبہ) ماخوذ : صلوۃ الرسول ص۳۱۱۔۳۱۲ مولف حضرت مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی ناشر مکتبہ نعمانیہ اردو بازار گوجرانوالہ

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 212

محدث فتویٰ

تبصرے