السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک حدیث شریف پڑھی ہے جو شیخ ا لاسلام محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب ’’مختصر سیرۃ الرسولﷺ میں ذکر کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
(سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِیی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدَة۔)
’’عنقریب میری امت تہتر فرقو ںمیں بٹ جائے گی‘ وہ سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔‘‘
سائل اس مسئلہ کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہے جس کے متعلق امام محمد بن عبدالوہاب نے مذکورہ بالا کتاب میں یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’یہ مسئلہ عظیم ترین مسائل میں سے ہے‘ جس نے اس مسئلہ کو سمجھ لیا ہے وہی فقیہ ہے اور جس نے عمل کییا وہ (کماحقہ) مسلم ہے۔ ہم اللہ کریم منان سے التجا کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘
سائل مندرجہ ذیل سوالات کا جواب معلوم کرناچاہتا ہے جو اس حدیث کے متعلق پیدا ہوتے ہیں:
(۱) وہ کون سا نجات پانے والا گروہ ہے جس کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے؟
(۲) کیا اہل حدیث کے علاوہ دوسرے گروہ مثلاً شیعہ، شافعی، حنفی، تیجانی وغیرہ ان بہتر (۷۲) فرقوں میں شامل ہیں جن کے متعلق رسول اللہﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے؟
(۳) جب ایک کے سوا یہ تمام جہنم میں جانے والے ہیں پھر آپ لوگ انہیں بیت اللہ شریف کی زیارت کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟ کیا امام محمد بن عبدالوہاب غلطی پر تھے یا آپ سیدھے رستے سے ہٹ چکے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ علیہ نے مختصر السیرۃ میں اس مشہور صحیح حدیث کا ایک ٹکڑا ذکر فرمایا ہے جو بہت سے محدثین مثلاً ابوداؤد، نسائی اور ترمذی وغیرہ نے اپنی اپنی کتابو ں میں ملتے جلتے الفاظ سے روایت کی ہے۔ ان میں سے ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ:
(افْتَرَقَتِ الْیَھُودُ عَلی أِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدَة، وَاقْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی اثْنَتَینِ وَسَبْعِینَ فَرْقَة کُلُّھَا فِی النَّارِ إلاَّ وَاحِدَة وَسَتَفْتَرِقُ ھٰذِہِ الاُمَّة عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِی النَّارِ إلاَّ وَاحِدَة)
’’یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے‘ ایک کے سواہ وہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے اور نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک کے سوا وہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی‘ ایک کے سوا وہ بھی سب فرقے جہنم میں جائیں گے‘‘1
(1مسند احمد ج:۲‘ ۳۳۲‘ ج:۳‘ :۱۲۰‘ سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۴۵۹۶‘ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۶۴۲‘ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۴۹۲۹‘ مستدرک حاکم ج: ۱‘ ص:۱۲۸‘ آجری: الشریعۃ ص:۲۵)
ایک روایت میں فرقہ کے بجائے ’’ملة‘‘ کا لفظ ہے-ایک روایت میں ہے کہ ’’صحابہ نے عرض کی ’’یا رسول اللہﷺ نجات پانے والا فرقہ کون ساہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
(مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیه الْیَومَ وَأَصْحَابِي)( جامع ترمذي حدیث نمبر: ۲۶۴۳)
’’جواس طریقے پر ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘
ایک روایت میں ہے:
(ھِیَ الْجَمَاعَة‘ یَدُ الله عَلَی الْجَمَاعَة) (معجم صغیر طبراني حدیث نمبر: ۷۲۴‘ جامع ترمذي حدیث نمبر: ۲۶۴۳)
’’وہ جماعت ہے۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘
(مسند احمد ج:۳‘ ص:۱۴۵‘ ج:۴‘ ص:۱۰۲‘ سنن ابی داؤد حدیث نمبر:۴۵۹۷‘ سنن دارمي ج:۲‘ ابن ماجہ حدیث نمبر: ۴۰۴۰‘ ۴۰۴۱‘مستدرک حاکم ج:۱‘ ص:۱۲۸۔ آجری: الشریعہ ص:۱۸)
(۲) نجات یافتہ وہی ہے جو رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا ہے‘ جس طرح مذکورہ بالا حدیث کی بعض روایات میں اس فرقہ کی صفت اور علامت مذکور ہے۔ جب صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: ’’نجات پانے والا فرقہ کون ساہے؟‘‘ تو جواب میں آپﷺ نے فرمایا:
(مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیه الْیَومَ وَأَصْحَابِی)
’’جواس طریقے پر ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘
دوسری روایت میں ہے:
(ھِیَ الْجَمَاعَة یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة)
’’وہ جماعت ہے۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘
یعنی رسول اللہﷺ نے اس فرقہ کی پہچان کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے عقیدے میں‘ قول وعمل میں اور اخلاق وکردار میں نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طریقے پر ہوگا وہ ہر عمل اور ہر پرہیز میں کتاب وسنت کے طریقہ پر چلے گا اور مسلمان جماعت یعنی صحابہ کرام ؓ کے طریقے پر پابند ہوگا۔ جن کا مقتداً محض اللہ کے رسولa تھے‘ وہ رسول جن کی یہ صفت ہے کہ:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾...النجم
’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے‘ وہ تو محض وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔‘‘
لہٰذا ہر شخص جو اللہ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کی قولی اور عملی سنت اور اجماع امت کی پیروی کرتاہے‘ غلط خیالات‘ گمراہ کن خواہشات اور غلط سلط تاویلات سے متاثر نہیں ہوتا‘ ایسی تلاوت جن کی اس عربی زبان میں گنجائش ہی نہیں جو رسول اللہa کی زبان ہے اور جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے اور وہ تاویلات شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے بھی خلاف ہیں‘ جو شخص بھی اس طریق کار عمل کرتا ہے وہ فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت میں شامل ہے۔
(۳) لیکن جو شخص خواہش نفس کو اپنا معبود بنا بیٹھے اور قرآن مجید اور صحیح احادیث کے مقابلے میں اپنے امام یا سربراہ کی حمایت میں اپنے امام یا سربراہ کی رائے کو ترجیح دے اور کتاب وسنت کی نصوص کی اس انداز کی تاویل کرے جو عربی زبان کے قواعد اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے خلاف ہو‘ وہ ’’جماعت‘‘ سے خارج ہوجاتاہے اور ان بہتر فرقوں میں شامل ہوجاتاہے۔ جس کے متعلق رسول محمدﷺ نے خبردی ہے کہ وہ سب جہنم میں جائیں گے۔ لہٰذا ان فرقوں کی نمایاں علامت جس سے ان کی پہچان ہوسکتی ہے‘ یہ ہے کہ کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت کرتے ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد کسی ایسی تاویل پر نہیں ہوتی جو قرآن مجید کی زبان اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو اور جس میں غلطی کرنے والے کو شرعاً معذور سمجھا جاسکے۔
(۴) وہ مسئلہ جو اما م الدعوۃ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور جس کے متعلق انہوں نے کہا ہے کہ جس نے اسے سمجھ لیا اس نے دین کو سمجھ لیا جس نے اس پر عمل کیا وہ صحیح مسلمان ہے‘ یہ وہی مسئلہ ہے جو جواب کے دوسرے پیرے میں بیان ہوا‘ یعنی نجات پانے والے فرقہ کو اس علامت سے پہچاننا جو رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہے اور یہ کہ دوسرے فرقے وہ ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ لہٰذا جس شخص نے نجات پانے والے فرقے اور ہلاک ہونیوالے فرقے میں اس طرح امتیاز کیا جس طرح نبیﷺ نے امتیاز کیا ہے اور نبیa کی وضاحت کے مطابق ان دونوں کا فرق سمجھ لیا‘ اس نے دین کو (کماحقہ) سمجھ لیا۔ اسے معلوم ہونا جائے گا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ رہنا چاہئے اور وہ کون لوگ ہیں جن سے دور بھاگنا چاہئے جس طرح انسان شیر سے بھاگتاہے اور جس نے اس صحیح فہم کے مطابق عمل کیا اور اہل حق وہدایت کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہا وہی صحیح مسلمان ہے۔ ’’نجات یافتہ فرقہ‘‘ کے اوصاف علم وعقیدہ کے لحاظ سے بھی اور قول وعمل کے لحاظ سے بھی اسی پر صادق آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ سب سے عظیم ہے اور اس کا فائدہ بھی سب سے عظیم اور ہمہ گیر ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ محمد بن عبدالوہاب پر رحمت فرمائے ‘ جو عظیم بصیرت کے حامل تھے اور دین کی نصوص اور اس کے مقاصد کی گہری سمجھ رکھتے تھے۔ انہوں نے دین سے لاتعلقی رکھنے والا یہ مسئلہ جو مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہے کبھی اشارتاً بیان فرمایا‘ جیسے یہاں بیان کیا اور کبھی وضاحت اور تفصیل سے بیان فرمایا‘ جیسے ان کی اکثر تصنیفات میں پایا جاتا ہے۔
(۵) اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والی جماعتیں اور گروہ جن ناموں اور القاب سے مشہور ہیں‘ بہتر فرقوں کی پہچان کیلئے یا ایک دوسرے سے امتیاز کے لئے ان کے یہ نام رسول اللہa نے نہیں رکھے۔ بلکہ ان کی صرف یہ علامت بتائی ہے کہ قرآن وسنت‘ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام ؓ کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں۔ خواہشات نفس اور اوہام کی پیروی کرتے ہیں‘ بغیر علم کے اللہ کے ذمہ باتیں لگا دیتے ہیں‘ جناب رسول اللہa کے سوا دوسرے متبوعین کے لئے تعصب رکھتے ہیں‘ ان کی دوستی اور مخالفت کا دارومدار یہی قائدین ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نجات یافتہ فرقہ کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کتاب وسنت کی پیروی کرتے ہیں‘ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہتے ہیں‘ اپنے احساسات‘ خیالات اور خواہشات پر شریعت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰـذا ان کی پسند اور ناپسند شریعت کے احکام کے تابع ہوتی ہے‘ ان کی محبت اور مخالفت کا دارومدار بھی اسی چیز پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص مختلف فرقو ںکی پہچان کے لئے جناب رسول اللہa کے بیان کردہ پیمانہ کے علاوہ دوسرا پیمانہ اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے نجات یافتہ اور ہلاک ہونے والے فرقوں کے مابین امتیاز کرے تو اس نے بغیر علم کے بات کی اور بغیر بصیرت کے اس فرق کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اس نے اپنے آپ پر بھی ظم کیا اور مسلمان کہلانے والے فرقوں پر بھی ظلم کیا اور جو شحص نجات یافتہ اور ہلاک ہونے والے فرقوں کے مابین امتیاز کرنے کیلئے رسول اللہa کی وضاحت کی طرف رجوع کرتا ہے اس کا فیصلہ بھی انصاف پر مبنی ہوتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ امت کی ان جماعتوں کے مختلف درجات ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت شریعت کے احکام دل وجان سے تسلیم کرنے اور شریعت کی اتباع کرنے کا انتہائی شوق رکھتی اور دین میں بدعتیں ایجاد کرنے‘ یا نصوص میں تحریف کرنے‘ یا ان میںکمی بیشی کرنے سے انتہائی دور بھاگتی ہے تو ایسے خوش نصیب لوگ ہی فرقہ ناجیہ میں شمار ہوسکتے ہیں۔ تو حدیث کا علم رکھنے والے علماء اور کتاب وسنت کی سمجھ رکھنے والے ائمہ وفقہاء میں ایسے افراد موجود ہیں جو اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں‘ شریعت کو تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں‘ البتہ کبھی کبھار کچھ نصوص کی ایسی تاویل کرلیتے ہیں جو درست نہیں ہوتی تو انہیں ایسی غلطی میں معذور قراردینا چاہئے کیونکہ یہ اجتہادی غلطی ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ شریعت کی بعض نصوص کا انکار کردیتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اسلام میں ابھی ابھی (نئے نئے) داخل ہوئے ہیں(اور انہیں ان نصوص کا علم نہیں) وہ اسلامی علاقوں کے دور دراز خطے میں پیدا ہوئے (جہاں اسلامی تعلیمات عام نہیں) تو انہیں یہ شرعی حکم معلوم نہیں ہوسکا جس کاانہوں نے انکار کیا ہے۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی گناہ گار کا ارتکاب کرتے ہیں یا ایسی بدعت ایجاد کرتے ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو یہ مومن نہیں‘ انہوں نے جو نیکی کی اس لحاظ سے وہ اللہ کے فرماں بردار ہیں اور جس گناہ یا بدعت کا ارتکاب کیا اس کے لحاظ سے گناہ گار ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی مشیت میں داخل ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں معاف کردے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ... ﴿٤٨﴾...النساء
’’یقینا اللہ تعالیٰ یہ (گناہ) معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ اس کے علاوہ جس کے (گناہ) چاہتاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ... ١٠٢﴾...التوبة
’’اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے‘ انہوں نے ملے جلے عمل کئے کچھ اچھے (نیک) اور کچھ برے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔‘‘
یہ دونوں قسم کے افراد اپنی غلط تاویل یا لاعلمی کی بنا پر کسی حکم کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوجاتے‘ بلکہ انہیں معذور سمجھاجاتا ہے اور وہ فرقہ ناجیہ (نجات یافتہ فرقہ) میں شامل ہیں اگر چہ ان کا درجہ پہلی قسم کے افراد سے کم ہے۔
کچھ لوگ وہ ہیں جو واضح ہونے کے بعد بھی دین کے کسی بنیادی مسئلہ کا انکا رکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت چھوڑ کر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں‘ یا شرعی نصوص کی ایسی بعید تاویل کرتے ہیں جو پہلے گزرے ہوئے تمام مسلمانو ںکے خلاف ہوتی ہے۔ جب ان کے سامنے حق واضح کیا جائے اور مباحثہ ومناظرہ کے ذریعے حجت قائم کردی جائے تب بھی حق کو قبول نہیں کرتے تو ایسے لوگ کافر اور مرتد ہیں‘ اگرچہ وہ خود کو مسلمان کہیں‘ اگرچہ اپنے عقیدہ وطریقہ کے مطابق پوری کوشش سے اسلام کی تبلیغ کریں۔ مثلاً قادیانی جماعت‘ جنہوں نے جناب محمدرسول اللہﷺ پر نبوت ختم ہوجانے کے عقیدہ کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ غلام احمد قادیانی‘ اللہ کا نبی اور رسول ہے یا وہ عیسیٰ بن مریم ؐ اور مسیحؐ ہے ‘ یا ا س کے بدن میں محمدﷺ یا عیسیٰ علیہ السلام کی روح آگئی ہے اس طرح وہ نبوت ورسالت میں خود مسیحؑ یا محمدﷺ ہی بن گیا ہے۔
(۶) اہل سنت والجماعت کے چند پختہ اصول ہیں‘ جن پر وہ فروعی مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں اور جزوی مسائل میں نیز خود پر اور دوسروں پر احکام کی تطبیق میں‘ ان کا لحاظ رکھتے ہیں۔
ان میں سے ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ ایمان دل کے عقیدہ‘ زبان کے اقرار اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ نیکی کرنے سے امان بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے گھٹتا ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ اطاعت کرے گا اس کے ایمان میں اتنا ہی اضافہ ہوجائے گا اور جس قدر کوتاہی کا مرتکب ہوگا اور کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے گا جو کفر تک نہیں پہنچتا‘ اسی قدر اس کے ایمان میں کمی واقع ہوجائے گی۔ یعنی ان کے نزدیک ایمان کے درجات ہیں‘ اسی طرح فرقہ ناجیہ کے افراد میں بھی ان کے قول وعمل کے مطابق درجات کا فرق پایا جاتاہے۔
ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص یا گروہ پر نشاندہی کرتے ہوئے کفر کا حکم نہیں لگاتے۔ کیونکہ جب حضژرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو اس کے لاالہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کردیا تھا توجناب رسول اللہﷺ نے اس پر ناراضگی کااظہار فرمایا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا یہ عذر قبول نہیں فرمایا کہ اس نے ان سے جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھا تھا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِه حَتَّی تَعْلَمَ أَقَامَھَا أَمْ لاَ)
’’ تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا کہ تمہیں معلوم ہو کہ اس نے کہا یا نہیں۔‘‘1
( 1مسند احمد ج:۴‘ ص:۴۳۹‘ ج:۵‘ ص:۲۰۷‘ صحیح بخاري حدیث نمبر: ۴۲۶۹‘ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۹۶‘ سنن ابي داؤد حدیث نمبر: ۲۶۴۳‘ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۹۷۷)
یعنی خلوص دل سے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے یا نہی؟
الا یہ کہ کوئی شخص واضح طور پر کفر کا اظہار کرے مثلاً کسی ایسی بات کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص وعام کو معلوم ہے۔ یا قطعی اجماع کا انکار کرے‘ یا ایسی صریح نصوص کی تاویل کرے جن میں تاویل کی گنجائش ہی نہیں اور جب اس پر واضح کردیا جائے کہ (اس کا یہ عمل کفرہے) تو بھی اسے چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار نہ کرے (تو ایسے شخص کو کافر قراردیا جائے گا)۔
امام الدعوۃ شیخ محمد بن الوہابl نے اہل سنت والجماعت کا طریقہ اختیار کیا اور انہی کے اصولوں پر چلے۔ انہوں نے اہل قبلہ میں سے کسی فرد یاجماعت کو کسی گناہ‘ بدعت یا تاویل کی وجہ سے نام لے کر کافر نہیں کہا الا یہ کہ اس کے کفر کی واضح دلیل موجود ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسے حق پہنچایا اور سمجھا جاچکا ہے۔ حکومت سعودیہ (اللہ ا سکی حفاظت فرمائے اور توفیق سے نوازے) اپنی رعیت کے ساتھ برتاؤ کرنے اور ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں اپنے موقف سے نہیں ہٹی۔ دوسرے ممالک کے مسلمانوں‘ خصوصاً حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے آنے والوں کے متعلق اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ سب مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھتی ہے‘ انہیں اپنا دینی بھائی سمجھتی ہے‘ ان تمام کانوں میں ان سے تعاون کرتی ہے جن سے انہیں قوت حاصل ہو۔ ان کے حقوق کا خیال رکھتی ہے‘ دور سے آنے والوں کا خوشی سے استقبال کرتی ہے‘ پوری محبت اور توجہ سے ہر وہ کام کرتی ہے جس سے انہیں حج کے ارکان ادا کرنے میں آسانی ہو۔جس نے بھی ان حالات کو دیکھا بھالا ہے اور اس کے معاملات سے واقف ہوا ہے اس سے یہ سب چیزیں مخفی نہیں اور اسے معلوم ہے کہ وہ مسلمانوں کا عام اصلاح کے لئے اور بیت اللہ کی زیارت کے لئے آنے والے حاجیوں کو زیادہ سے زیادہ راحت اور آرام پہنچانے کے لئے کس قدر کوششیں کر رہی ہے۔
اس لئے وہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ان کے خفیہ عقائد کی کھوج لگائے بغیر‘ بیت اللہ کی زیارت کی اجازت دے دیتی ہے۔ دل کی کیفیت کا کھوج لگانے کی کوشش کرنے کی بجائے ظاہر پر عمل کرتی ہے اور دلوں کے رازوں کامعاملہ اللہ کے سپر دکرتی ہے۔ لیکن کسی شخص یا کسی گروہ کا کفر واضح ہوجائے اور ا سلامی ممالک کے محقق علماء کے نزدیک ان کاکفر ثابت ہوچکا ہے‘ تو پھراسے لازماً ایسے شخص یا جماعت کو جس کاکفر ثابت ہوچکا ہو حج اور عمرہ کی ادائیگی سے روکنا ہی پڑتا ہے۔ تاکہ دل میں کفر کی نجاست رکھنے والو ںکو بیت اللہ کے قریب آنے سے روکا جائے اور ا للہ تعالیٰکے اس حکم پر عمل کیا جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا... ﴿٢٨﴾...التوبة
’’اے مومنو! یقینا مشرکین پلید ہیں‘ لہٰذا وہ اس سال (یعنی ۹ھ) کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾...الحج
’’اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں‘ قیام کرنے والوں‘ رکوع کرنے والوں اور سجدے کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھنا۔‘‘
مذکورہ بالا وضاحت سے اس عظیم مسئلہ کی اہمیت خوب ظاہر ہوگئی جس کی طرف اپنے زمانے کے امام دعوت شیح محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہے اور جس کی وضاحت سوال میں طلب کی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ آپ رحمہ اللہ علیہ صحیح منحج پر کاربند تھے کیونکہ آپ نے اہل سنت والجماعت کے اصولوں کی پابندی کی ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حکومت سعودیہ مسلمانوں کے ساتھ روارکھے جانے اولے طرز عمل میں صحیح راستے سے نہیں ہٹی۔ بلکہ وہ اہل سنت والجماعت کے اصولوں پر اسی طرح کاربند ہے‘ جس طرح امام دعوت کاربند تھے۔ یعنی وہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق سلوک کرتی ہے اور دلوں کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتی‘ لہٰذا جن کی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے ان سے درگزر کرتی ہے اور جو اپنے جرم کو ظاہر کردیتاہے اور مسلسل سمجھانے اور بحث ومناظرہ کے بعد بھی اپنے جرم پر اصرار کرتا ہے‘ اس پر سختی کرتی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب