سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(694) خطبہ جمعہ کا غیر عربی زبان میں ترجمہ

  • 16958
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1241

سوال

(694) خطبہ جمعہ کا غیر عربی زبان میں ترجمہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہما ر ے ہا ں اس مسئلہ میں اختلا ف ہے کہ خطبہ جمعہ کا ہما ری ملکی زبا ن مین تر جمہ جا ئز ہے یا نہیں ؟ کچھ لو گ اسے جا ئز بتا تے ہیں اور کچھ ناجا ئز تو سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شر عی حکم کیا ہے ؟(فید ونا افا د کم اللہ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علما ء کر ا م علیہ السلام  کا جمعہ و عید ین کے خطبوں کے عجمی زبانوں میں تر جموں کے با ر ے میں اختلا ف ہے اہل علم کی ایک جما عت کے نزدیک یہ ممنو ع ہے اور انہو ں نے اسے ممنو ع قرار دیا ہے تا کہ عر بی زبان باقی رہے اس کی حفا ظت ہو سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرات صحا بہ کر ا م رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے طر یقہ کے مطا بق خطبے عر بی میں دیئے جایئں خو اہ عجمی مما لک ہو یا غیر عجمی اور پھر عر بی زبا ن میں خطبہ دینے سے لو گو ں میں عربی ز با ن سیکھنے کا شو ق بھی پیدا ہو گا ۔ دیگر اہل علم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ خطبو ں کا عر بی زبا ن میں تر جمہ بھی جا ئز ہے جب کہ سا معین یا ان کی اکثر یت عر بی زبا ن نہ جا نتی ہو تا کہ وہ مقصود حاصل ہو سکے جس کے لئے جمعہ کا حکم ہے اور وہ یہ کہ لو گو ں تک اللہ تعا لیٰ کی مقرر کر دہ شر یعت کے اوا مر اور نو اہی کو پہنچا دیا جا ئے اخلا ق کر یمہ اور صفات حمیدہ کی تلقین کی جا ئے اور ان کی خلاف ورزی سے بچنے کی تنبیہ کی جا ئے اور اس میں قطعاً کو ئی شک نہیں کہ الفا ظ و رسو م کی پا بند ی کی بجا ئے معا فی و مقا صد کی پا بندی زیا دہ افضل اور زیا دہ وا جب ہے خصوصاً جب کہ سا معین عر بی زبا ن کا اہتما م کر نے وا لے نہ ہو ں اور خطیب کا عر بی میں خطبہ بھی ان میں عر بی زبا ن کے سیکھنے کا شوق پیدا نہ کر ے تو اس سے مقصو د حا صل نہ ہو گا اور عر بی زبا ن میں خطبہ کے بقاء کا مطلوب حا صل نہ ہو گا تو اس سے غو ر کر نے وا لے کے سا منے یہ با ت ظا ہر ہو تی ہے کہ سا معین میں مر و ج ان زبا نو ں میں خطبہ جن کو وہ جا نتے ہو ں اور جن سے وہ معنی و مراد کو سمجھ جا تے ہو ں زیا دہ موز وں اور لا ئق اتبا ع ہے خصو صاً جب کہ تر جمہ نہ کر نے سے نزا ع اور جھگڑ ے کے پیدا ہو نے کا بھی اند یشہ ہو تو اس سے معلوم ہو ا کہ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ان حا لات میں حصول مصلحت اور دفع مفسدت کے لئے تر جمہ ضروری ہے ۔ اگر سا معین میں کچھ لوگ عر بی جا ننے وا لے بھی ہو ں تو پھر خطیب کے لئے مو زو ں یہ ہے کہ وہ دو نو ں زبا نو ں کو استعما ل کر ے خطیب خطبہ عر بی زبان میں دے اور پھر دوسری زبان میں جسے سا معین سمجھتے ہوں دو ہرا ئے اس سے دو نو ں مصلحتیں جمع ہو جا ئیں گی ہر طرح کی مضر ت کی نفی ہو جا ئے گی اور سا معین میں ہر طرح کا نزا ع بھی ختم ہو جا ئے گا ۔ شر یعت مطہر ہ کے بہت سے دلائل سے یہی ثا بت ہو تا ہے ان میں سے ایک دلیل تو یہی ہے جو بیا ن کی جا چکی ہے کہ خطبہ سے مقصود سا معین کو نفع پہنچا نا اللہ تعا لیٰ کے حقو ق یا د دلانا اس کی طرف دعوت دینا اور انہیں ان امو ر کے ارتکا ب سے ڈرانا ہے جن سے اللہ تعا لیٰ نے منع فرمایا ہے اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ خطبہ میں ایسی زبا ن استعما ل کی جا ئے جسے سا معین سمجھتے ہو ں دوسر ی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسو لو ں کو ان کی قو موں کی ز با نو ں کے ساتھ معبو ث فر ما یا تا کہ وہ ان کی زبا نو ں میں ان تک اللہ تعا لیٰ کی مراد کو پہنچا دیں جیسا کہ ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :

﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم ...﴿٤﴾... سورة ابراهيم

"اور ہم نے کو ئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر (وہ ) اپنی قو م کی زبا ن بو لتا تھا تا کہ انہیں (احکا م الٰہی ) کھو ل کھو ل کر بتا  دے نیز فر ما یا :

﴿الر كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ لِتُخرِجَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمـٰتِ إِلَى النّورِ بِإِذنِ رَبِّهِم إِلىٰ صِر‌ٰطِ العَزيزِ الحَميدِ ﴿١﴾... سورة ابراهيم
(یہ) ایک (پر نو ر ) کتا ب (ہے ) اس کو ہم نے آپ پر اس لئے نازل کیا ہے کہ لو گو ں کو اند ھیروں سے نکا ل کر روشنی کی طرف لے جائیں (یعنی ) ان کے پر وردگا ر کے حکم سے غا لب اور قا بل تعر یف (اللہ ) را ستے کی طرف ۔ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی مرا د کو جا نیں گے ہی نہیں تو انہیں تا ریکیوں سے نکا ل کر روشنی کی طرف لے جا نا کس طرح ممکن ہو گا ؟ اس سے معلو م ہو ا کہ اس کے بغیر اور کو ئی چا ر ہ نہیں کہ مراد الٰہی کو سمجھا نے کے لئے اس کا لو گو ں کی ان زبا نوں میں تر جمہ کیا جا ئے جنہیں وہ سمجھتے ہو ں اور ان کے لئے اصل ز با ن شر یعت کو سمجھنا آسا ن نہ ہو تو ضرو ری ہے کہ ان کے سا منے  ان کی اپنی ز با ن میں یہ وضا حت کر دی جا ئے کہ اللہ سبحا نہ وتعا لیٰ کا ان پر کیا کیا حق ہے ؟ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے زید بن ثابت کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ یہو د یو ں کی زبا ن سیکھ لیں تا کہ آپ ان کی ز با ن میں ان سے خط و کتا بت کر کے ان پر حجت تمام کر د یں اور اگر ان کی طرف سے خطو ط آئیں تو وہ انہیں پڑ ھ کر آپ کو سنا سکیں ایک دلیل یہ بھی  ہے کہ حضرا ت صحا بہ کرا م  رضوان اللہ عنہم اجمعین نے جب بلا د عجم فا رس و روم سے جہا د کیا تو اس وقت تک لڑا ئی نہ کی جب تک متر جمین کے واسطہ سے انہیں اسلا م کی دعوت نہ دے لی اور جب انہو ں نے عجمی ملکوں کو فتح کر لیا تو انہو ں نے لو گو ں کو عربی زبا ن میں دعوت الی اللہ دی لو گو ں کو عر بی زبا ن سیکھنے کا حکم دیاجو عر بی ز با ن نہ سیکھ سکا اسے اس کی ز با ن میں دعوت دی اور اس تک زبا ن میں دین کے پیغا م کو پہنچا دیا جسے وہ سمجھتا تھا اس سے حجت تمام ہو گئی اور معذرت ختم ہو گئی تو اس میں کو ئی  شک نہیں کہ اس تر جمہ کی راہ کو اختیا ر کئے بغیر چا رہ نہیں خصو صاً اس آخر ی دور میں اس غر بت اسلام کے عہد میں جب کہ ہر قوم نے اپنی ہی مضبو طی سے تھا م رکھا ہے تو آج تر جمہ کی ضرورت اور اہمیت بہت بڑھ چکی ہے اور اس کے بغیر دا عی دعوت کے کا م کو پا یہ تکمیل تک پہنچا ہی نہیں سکتا اللہ تعا لیٰ سے دعا ء ہے کہ وہ مسلما نو ں کو -----خوا ہ وہ کہیں بھی ہو ں ------یہ تو فیق بخشے کہ وہ اپنے دین میں سمجھ بو جھ حاصل کر یں شر یعت کو مضبو طی سے تھا م کر استقا مت کا مظا ہر ہ کر یں مسلما نوں کے حکمرا نوں کی بھی  اللہ تعا لیٰ اصلا ح فر ما ئے اپنے دین کو فتح و نصر ت سے نوا ز ے اور اپنے دشمنوں کو ذلت و رسوائی سے دو چا ر کرے انہ جوا د کر یم ۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 542

محدث فتویٰ

تبصرے