ہما ر ی جا مع مسجد کا خطیب ہمیشہ آخر ی خطبہ «استغفر الله لي ولكم وكافة المسلمين»یا کبھی «اسئال الله لي ولكم الفردوس الاعليٰ»کے الفاظ پر ختم کر تا ہے یہ بہت اچھی دعا ء ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا تھا ہما ری دعا ئیں بھی اسی کے گر د گھو متی ہیں لیکن بعض مقتدی یہ کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن بہت عظیم دن ہے اور یہ قبو لیت دعا ء کا وقت ہے لہذا حس ب حا ل دعا ء لمبی ہو نی چا ہئے مثلاً بوقت ضرورت بارش کے لئے دعاء مسلما نو ں کے لئے فتح و نصر ت اور حکمرا نو ں کےلئے اتبا ع حق کی دعا ء دشمنوں کے شیرا ز ہ کے منتشر ہو نے کی دعاء الغر ض اس طرح کی منا سب حا ل دعائیں ہو چا ہیں لیکن خطیب صا حب فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مو قعہ پر کسی بھی دعا ء کا التزام نہیں فر ما یا اسی طرح خلفا ء راشدین اور حضرا ت صحا بہ کر ا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی اس مو قع پر دعا ءثابت نہیں لہذا انہیں کے نقش قدم پر چلتا ہو ں اور اور اس کا نتیجہ یہ کہتے ہیں کہ بعض مقتدیوں نے اس مسجد کو چھو ڑ کر اپنے گھروں سے دو ر ایک دوسر ی مسجد میں جا کر جمعہ پڑ ھنا شروع کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس مسجد کا امام خطبہ کے اختتا م پر بہت سی دعا ئیں مانگتا ہے اور یہ لوگ اس کی دعا ء پر آمین کہتے ہیں گھرو ں کے قر یب اس مسجد کو چھو ڑ نے کی اس کے سوا اور کو ئی وجہ نہیں ہے کہ امام دعاء کا التزا م نہیں کر تا اس مسئلہ میں دین کا کیا حکم ہے ۔؟آپ کی نصیحت کیا ہے ؟ اور ان دونو ں میں سے کسی کا مو قف مبنی پر حق ہے ؟
امام کا خطبہ مسلمانوں کے لئے دعا ء کر نا حکم شر یعت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دعا ء فر ما یا کر تے تھے لیکن امام کو چا ہئے کہ کسی ایک معین دعاء ہی کا التزا م نہ کر ے بلکہ حسب حا لا ت مختلف دعا ئیں ما نگے دعاؤں کی کثرت و قلت کا تعلق حا جت و ضرورت سے ہے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطا بق عمل کر ے وبا للہ التوا فیق ۔
صلي الله علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم(فتو ی کمیٹی )ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب