ایک مسلمان عاقل نوجوان یونیورسٹی میں داخلہ سے پہلے نماز پڑھتا تھا لیکن جب تک وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا اس نے نماز ترک کردی اور یہ مدت چار سال پر محیط ہے۔یونیورسٹی سے سندفراغت حاصل کرنے کے بعد اس نے نماز پھر شروع کردی ان چار سالوں میں نماز نہ پڑھنے کے بارے میں اب کیا حکم ہے؟ یاد رہے کہ اس عرصہ میں بھی وہ نماز کی فرضیت کامنکر نہیں ہوا لہذا سوال یہ ہے کیا وہ ان چار سالوں کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء دے گا یا اس کے لئے توبہ ہی کافی ہے؟
جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔علماء کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ جوشخص عمداً نماز ترک کرے وہ فوت شدہ نماز کی قضاء نہ دے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے۔’’
اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ فرض نمازوں کے اوقات متعین ہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج کی صبح ان اوقات کو بیان کردیا تھا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور قول سے امت کے لئے ان اوقات کی حد بندی کردی ہے۔ لہذا ان اوقات میں تقدیم وتاخیر جائز اور صحیح نہیں ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ہمارے علم کے مطابق علماء کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔لہذا جب وہ توبہ کرلے تو اسے ایام کفر کی ان عبادات کی قضاء لازم نہیں ہے۔ جن کے اوقات مقرر ہیں۔اگر وہ سچی توبہ کررہا ہے تو اس کے لئے خیر کی اُمید ہے۔ لہذا اسے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنا اور زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرنے چاہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مفہوم خطاب سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے کہ:
''جو شخص نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو اسے جب بھی یاد آئے پڑھ لے۔''
تو اس کامفہوم یہ ہے کہ جو شخص قصد وارادہ سے نماز ترک کرے اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔قصد وارادہ کے ساتھ عمداً نماز ترک کرنے والے کو سوئے یا بھولے ہوئے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔کیونکہ قصد وارادہ کے ساتھ ترک کرنے والا معذور نہیں ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی اور وقت مقرر نہیں کیا۔جس میں وہ فوت شدہ نماز کو ادا کرسکے جب کہ سویا اور بھولا ہوا دونوں معذور ہیں۔ لہذا ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ جس میں وہ فوت شدہ نماز کو پڑھ سکتے ہیں۔وباللہ التوفیق ((وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم))(فتویٰ کمیٹی)ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب